تذکرہ مجذوب
خواجہ مجذوب کی شخصیت عشق حقیقی سے لبریز اور دیگر شعراء سے بالکل ہٹ کر تھی۔
قد لمبا اور کشیدہ، رنگ نہایت صاف اور گورا، بدن پتلا اور چھریرا، ناک نقشہ تیکھا اور باریک، چہرے پر براق جیسی سفید داڑھی، گھنی اور سیدھی، شخصیت میں مقناطیسی جاذبیت و کشش، جسم پر کلی دار کرتا اور شرعی پاجامہ اور سر پر پانچ کلیوں والی چکن یا ململ کی ٹوپی، طبیعت میں بلا کی نفاست، نزاکت اور صفائی و سادگی، موسم گرما میں عموماً اعلیٰ قسم کی چکن کا کرتا اور موسم سرما میں انگرکھا یا شیروانی زیب تن فرمائے، مزاجاً نہایت شگفتہ خاطر، چہرہ ہنس مکھ اور کھلتا ہوا، طبیعت میں ہر وقت گلوں کی سی تازگی اور جولانی، آنکھوں میں بے پناہ چمک اور معصومیت، باتوں میں شہد جیسی شیرینی اور زبان سر بسر ٹکسالی اور کھری۔ یہ تھے خواجہ عزیز الحسن غوریؒ جوکہ حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ خاص تھے اور شاعری میں مجذوب تخلص فرماتے تھے۔
خواجہ مجذوب کی شخصیت عشق حقیقی سے لبریز اور دیگر شعراء سے بالکل ہٹ کر تھی، ان کا کلام سب سے انوکھا اور نرالا تھا بڑے بڑے قادر الکلام شعراء ان کے معترف اور بے شمار سخن شناس اور اہل ذوق ان کے حلقہ بگوش اور گرویدہ تھے۔ انتہا تو یہ ہے کہ خود آپ کے شیخ حضرت تھانویؒ کو آپ کے اشعار بے حد پسند اور مرغوب تھے، خصوصاً درج ذیل شعر جس کے بارے میں حضرت والا نے ایک مرتبہ یہ فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس ایک لاکھ روپے ہوتے تو میں اس شعر کے عوض آپ کو بلاتامل دے دیتا:
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
معرفت کے اس شعر کو صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے اور اس سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکتا ہے جس کے دل میں خالق کائنات کی تڑپ موجزن ہو، اور جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے وقف کردیا ہو، اور اپنے محبوب حقیقی کی طلب میں اپنا سب کچھ نچھاور کردیا ہو۔ اسی کیفیت میں ڈوبا ہوا خواجہ صاحب کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمایئے:
ساری دنیا کی نگاہوں سے گرا ہے مجذوبؔ
تب کہیں جا کے ترے دل میں جگہ پائی ہے
عارفین ان کے کلام کو معرفت کی نظر سے دیکھ کر سنتے تھے اور سر دھنتے تھے جب کہ سخنور اور سخن شناس ان کے اشعار کی باریکیوں اور نزاکتوں کو محسوس کرکے انھیں داد پر داد دیا کرتے تھے۔ خواجہ صاحب کے اشعار کی جاذبیت اور اثر آفرینی کا بنیادی سبب واردات قلب سے عبارت ہے ۔
ایک تو حسن تغزل سے لبریز عارفانہ کلام اوپر سے مجذوب صاحب کا منفرد پرسوز ترنم گویا سونے پر سہاگے والی بات تھی۔نہ وہ سناتے ہوئے تھکتے تھے اور نہ سامعین کی تشنگی کم ہونے کا نام لیتی تھی۔ شعروشاعری کی ان مجالس کا اختتام نماز یا کھانے کے وقت پر ہوتا تھا۔ اپنا درج ذیل شعر اثر ترنم کے ساتھ پڑھتے اور خود بھی لطف اٹھاتے اور سامعین کو بھی لطف اندوز فرماتے تھے:
زیست کیا ہے ابتدائے درد ِدل
موت کیا ہے انتہائے درد ِدل
مجذوبؔ صاحب جس مشاعرے میں شریک ہوتے،اپنے کلام اور منفرد ترنم سے اسے لوٹ لیتے، ہر طرف سے سبحان اللہ اور مکرر مکرر کی تحسین آفریں صدائیں بلند ہوتیں۔ایک مرتبہ موصوف ایک مشاعرے میں سامعین کے درمیان موجود تھے کہ کسی کو آپ کی موجودگی کا علم ہوگیا۔ ذرا سی دیر میں منتظمین مشاعرہ کو اس کی مخبری ہوگئی۔ مجذوب صاحب اس وقت معمولی سے کپڑوں میں ملبوس تھے، مشاعرہ طرحی تھا۔ اچانک اسٹیج سے اعلان ہوا کہ اوپر تشریف لے آئیں۔ اس وقت انھیں بڑی پریشانی اور کشمکش لاحق ہوگئی، کپڑے میلے اور اوپر سے طرحی مشاعرے کی تیاری بالکل صفر۔ اسی دوران اسٹیج سے یہ اعلان ہوا کہ اگر آنے میں تاخیر کی تو ہم خود آپ کو تلاش کرلیں گے۔ چاروناچار اسی حالت میں اسٹیج پر جانا پڑا۔ آپ کا اوپر پہنچنا تھا کہ پورا پنڈال فلک شگاف تالیوں سے گونج اٹھا۔ مجذوبؔ صاحب نے معذرت کی کہ مشاعرہ طرحی ہے اور انھوں نے اس کی کوئی تیاری نہیں کی ہے، مگر ان کا یہ عذر یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ آپ تمام پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنی ایک مرصح غزل سنائی اور ہر ایک شعر پر داد پر داد وصول کی۔ اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کوئی مزا ' مزا نہیں' کوئی خوشی' خوشی نہیں
تیرے بغیر زندگی' موت ہے' زندگی نہیں
میکشو! یہ تو میکشی' رندی ہے میکشی نہیں
آنکھوں سے تم نے پی نہیں' آنکھوں کی تم نے پی نہیں
بیٹھا ہوں میں جھکائے سر' نیچی کیے ہوئے نظر
بزم میں سب سہی مگر' وہ جو نہیں کوئی نہیں
سردی کا موسم اپنے شباب پر تھا اور محفل گرم تھی کہ کسی نے خواجہ صاحب کی خدمت مین تاپنے کے لیے ازراہ محبت و عقیدت انگیٹھی بھجوادی۔ خواجہ صاحب بڑے محظوظ ہوئے اور قدر افزائی کے طور پر برجستہ یہ اشعار کہے:
انگیٹھی تم نے انگاروں بھری کیوں ہائے بھجوا دی
دہکتی آگ سینے کی میرے اف اور بھڑکا دی
کیا تھا کم بڑی مشکل سے جوش اشعار پڑھنے کا
میں ٹھنڈا پڑ گیا تھا پھر طبیعت میری گرما دی
ایک کمسن بچے پر شفقت کی نظر پڑی تو بے ساختہ یہ فرمایا:
ترے گال کیا ہیں ڈبل روٹیاں ہیں
نہیں کوئی پڑی فقط بوٹیاں ہیں
خواجہ صاحب کا کچھ کلام تو ان کی زندگی میں ہی اشاعت پذیر ہوا اور کچھ ان کی وفات کے بعد سید مولانا ظہور الحسن نے تلاش کر کرکے ایک مجموعے کی صورت میں ''کشکول مجذوب'' کے عنوان سے چھاپ دیا جس میں غیر طبع شدہ کلام شامل ہے۔
خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ نے بہ لحاظ پیشہ اسسٹنٹ انسپکٹر سرشتہ تعلیم کی حیثیت سے سرکاری خدمات انجام دیں اور دوران ملازمت طویل رخصت حاصل کرکے اپنے پیرومرشد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علما تھانویؔ کی سوانح حیات تحریر فرمائی جوکہ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی آخری جلد کے اختتامی حصے میں اپنے حالات زندگی بھی قلم بند فرمائے۔ خواجہ صاحب کے کلام میں ان قطعات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جو ان کے شیخ حضرت تھانویؒ کے درس و تعلیمات پر مشتمل ہیں۔اور اب چلتے چلتے مجذوبؔ صاحب کا یہ خوبصورت شعر ملاحظہ فرمائیے اور جی بھر کر داد دیجیے:
کلام مجذوبؔ والہانہ' ہمیشہ دہرائے گا زمانہ
کسی حسیں کا نہیں فسانہ' یہ ایک عاشق کی داستاں ہے
خواجہ مجذوب کی شخصیت عشق حقیقی سے لبریز اور دیگر شعراء سے بالکل ہٹ کر تھی، ان کا کلام سب سے انوکھا اور نرالا تھا بڑے بڑے قادر الکلام شعراء ان کے معترف اور بے شمار سخن شناس اور اہل ذوق ان کے حلقہ بگوش اور گرویدہ تھے۔ انتہا تو یہ ہے کہ خود آپ کے شیخ حضرت تھانویؒ کو آپ کے اشعار بے حد پسند اور مرغوب تھے، خصوصاً درج ذیل شعر جس کے بارے میں حضرت والا نے ایک مرتبہ یہ فرمایا تھا کہ اگر میرے پاس ایک لاکھ روپے ہوتے تو میں اس شعر کے عوض آپ کو بلاتامل دے دیتا:
ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی
اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی
معرفت کے اس شعر کو صرف وہی شخص سمجھ سکتا ہے اور اس سے پوری طرح لطف اندوز ہوسکتا ہے جس کے دل میں خالق کائنات کی تڑپ موجزن ہو، اور جس نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے وقف کردیا ہو، اور اپنے محبوب حقیقی کی طلب میں اپنا سب کچھ نچھاور کردیا ہو۔ اسی کیفیت میں ڈوبا ہوا خواجہ صاحب کا ایک اور شعر ملاحظہ فرمایئے:
ساری دنیا کی نگاہوں سے گرا ہے مجذوبؔ
تب کہیں جا کے ترے دل میں جگہ پائی ہے
عارفین ان کے کلام کو معرفت کی نظر سے دیکھ کر سنتے تھے اور سر دھنتے تھے جب کہ سخنور اور سخن شناس ان کے اشعار کی باریکیوں اور نزاکتوں کو محسوس کرکے انھیں داد پر داد دیا کرتے تھے۔ خواجہ صاحب کے اشعار کی جاذبیت اور اثر آفرینی کا بنیادی سبب واردات قلب سے عبارت ہے ۔
ایک تو حسن تغزل سے لبریز عارفانہ کلام اوپر سے مجذوب صاحب کا منفرد پرسوز ترنم گویا سونے پر سہاگے والی بات تھی۔نہ وہ سناتے ہوئے تھکتے تھے اور نہ سامعین کی تشنگی کم ہونے کا نام لیتی تھی۔ شعروشاعری کی ان مجالس کا اختتام نماز یا کھانے کے وقت پر ہوتا تھا۔ اپنا درج ذیل شعر اثر ترنم کے ساتھ پڑھتے اور خود بھی لطف اٹھاتے اور سامعین کو بھی لطف اندوز فرماتے تھے:
زیست کیا ہے ابتدائے درد ِدل
موت کیا ہے انتہائے درد ِدل
مجذوبؔ صاحب جس مشاعرے میں شریک ہوتے،اپنے کلام اور منفرد ترنم سے اسے لوٹ لیتے، ہر طرف سے سبحان اللہ اور مکرر مکرر کی تحسین آفریں صدائیں بلند ہوتیں۔ایک مرتبہ موصوف ایک مشاعرے میں سامعین کے درمیان موجود تھے کہ کسی کو آپ کی موجودگی کا علم ہوگیا۔ ذرا سی دیر میں منتظمین مشاعرہ کو اس کی مخبری ہوگئی۔ مجذوب صاحب اس وقت معمولی سے کپڑوں میں ملبوس تھے، مشاعرہ طرحی تھا۔ اچانک اسٹیج سے اعلان ہوا کہ اوپر تشریف لے آئیں۔ اس وقت انھیں بڑی پریشانی اور کشمکش لاحق ہوگئی، کپڑے میلے اور اوپر سے طرحی مشاعرے کی تیاری بالکل صفر۔ اسی دوران اسٹیج سے یہ اعلان ہوا کہ اگر آنے میں تاخیر کی تو ہم خود آپ کو تلاش کرلیں گے۔ چاروناچار اسی حالت میں اسٹیج پر جانا پڑا۔ آپ کا اوپر پہنچنا تھا کہ پورا پنڈال فلک شگاف تالیوں سے گونج اٹھا۔ مجذوبؔ صاحب نے معذرت کی کہ مشاعرہ طرحی ہے اور انھوں نے اس کی کوئی تیاری نہیں کی ہے، مگر ان کا یہ عذر یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ آپ تمام پابندیوں سے مستثنیٰ ہیں۔ چنانچہ آپ نے اپنی ایک مرصح غزل سنائی اور ہر ایک شعر پر داد پر داد وصول کی۔ اس غزل کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کوئی مزا ' مزا نہیں' کوئی خوشی' خوشی نہیں
تیرے بغیر زندگی' موت ہے' زندگی نہیں
میکشو! یہ تو میکشی' رندی ہے میکشی نہیں
آنکھوں سے تم نے پی نہیں' آنکھوں کی تم نے پی نہیں
بیٹھا ہوں میں جھکائے سر' نیچی کیے ہوئے نظر
بزم میں سب سہی مگر' وہ جو نہیں کوئی نہیں
سردی کا موسم اپنے شباب پر تھا اور محفل گرم تھی کہ کسی نے خواجہ صاحب کی خدمت مین تاپنے کے لیے ازراہ محبت و عقیدت انگیٹھی بھجوادی۔ خواجہ صاحب بڑے محظوظ ہوئے اور قدر افزائی کے طور پر برجستہ یہ اشعار کہے:
انگیٹھی تم نے انگاروں بھری کیوں ہائے بھجوا دی
دہکتی آگ سینے کی میرے اف اور بھڑکا دی
کیا تھا کم بڑی مشکل سے جوش اشعار پڑھنے کا
میں ٹھنڈا پڑ گیا تھا پھر طبیعت میری گرما دی
ایک کمسن بچے پر شفقت کی نظر پڑی تو بے ساختہ یہ فرمایا:
ترے گال کیا ہیں ڈبل روٹیاں ہیں
نہیں کوئی پڑی فقط بوٹیاں ہیں
خواجہ صاحب کا کچھ کلام تو ان کی زندگی میں ہی اشاعت پذیر ہوا اور کچھ ان کی وفات کے بعد سید مولانا ظہور الحسن نے تلاش کر کرکے ایک مجموعے کی صورت میں ''کشکول مجذوب'' کے عنوان سے چھاپ دیا جس میں غیر طبع شدہ کلام شامل ہے۔
خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ نے بہ لحاظ پیشہ اسسٹنٹ انسپکٹر سرشتہ تعلیم کی حیثیت سے سرکاری خدمات انجام دیں اور دوران ملازمت طویل رخصت حاصل کرکے اپنے پیرومرشد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علما تھانویؔ کی سوانح حیات تحریر فرمائی جوکہ تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کی آخری جلد کے اختتامی حصے میں اپنے حالات زندگی بھی قلم بند فرمائے۔ خواجہ صاحب کے کلام میں ان قطعات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جو ان کے شیخ حضرت تھانویؒ کے درس و تعلیمات پر مشتمل ہیں۔اور اب چلتے چلتے مجذوبؔ صاحب کا یہ خوبصورت شعر ملاحظہ فرمائیے اور جی بھر کر داد دیجیے:
کلام مجذوبؔ والہانہ' ہمیشہ دہرائے گا زمانہ
کسی حسیں کا نہیں فسانہ' یہ ایک عاشق کی داستاں ہے