دھرنا کہیں جسے

اس تفریق کے ضمن میں ان پر سوائے اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور کہلوانے کے کوئی پابندی نہیں

Amjadislam@gmail.com

اٹھارہ دن کی مسلسل اور تکلیف دہ کشمکش کے بعد بظاہر دھرنے کے اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا ہے جس نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے جڑواں شہروں کو پریشانی اور مسائل کے حوالے سے یک جان کرنے کے ساتھ ساتھ پورے ملک کو ایک ہیجانی کیفیت میں ڈال رکھا تھا جب کہ موقع واردات یعنی فیض آباد اور اس کے ارد گرد کے علاقے تو جیسے میدان جنگ کی ایک زندہ تصویر بن گئے تھے' یہ سب کچھ کیوں اور کیسے ہوا۔

اس کے بارے میں کوئی بھی حتمی رائے اس لیے نہیں دی جا سکتی کہ اس ضمن میں ہر مکتبہ فکر اور اسٹیک ہولڈر نہ صرف ایک الگ رائے رکھتا ہے بلکہ کوئی ایک دوسرے کی بات سننے اور سمجھنے کو بھی تیار نہیں۔ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے حوالے سے قادیانی فرقے کو آئینی طور پر تو غیر مسلم گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں قرار دیا گیا لیکن اس مسئلے یا جھگڑے کا آغاز اس فرقے کے بانی مرزا غلام احمد کی زندگی کے آخری حصے یعنی بیسویں صدی کے ابتدائی دنوں میں اس وقت ہی ہو گیا تھا جب اس نے مسیح موعود اور ظہور مہدی کی آڑ میں اپنی نبوت کا اعلان کیا اور یوں وہ اور اس کے پیروکار اسلامی عقیدے کی اس بنیادی شرط سے انکاری اور منحرف ہو گئے۔

جس کی رو سے ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ رسول کریم حضرت محمدﷺ کو اللہ کا آخری رسول اور نبی تسلیم کرے، اس فیصلے کی بعض شقوں پر ضمنی اعتراضات تو ہوئے مگر عمومی طور پر اسے تسلیم اور پسند کیا گیا کہ اس کا مقصد دین کے حوالے سے ایک نزاع اور فساد کو ختم کرنا اور ناموس رسالت کا تحفظ تھا جب کہ سیاسی' انسانی اور معاشرتی ہر سطح پر قادیانی فرقے کے لوگ اتنے ہی پاکستانی تھے جتنا کہ کوئی اور۔ اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان میں آباد دیگر غیر مسلم اقلیتوں کی طرح ہمارے قادیانی ہم وطن بھی اپنی اس جداگانہ حیثیت کے ساتھ امن اور سکون سے اپنے عقائد کے مطابق زندگی گزارتے' ریاست ان کے بھی تمام شہری حقوق کی حفاظت کسی تفریق کے بغیر کرتی اور سب لوگ مل کر اس فیصلے کا احترام کرتے لیکن عملی طور پر ایسا ہو نہ سکا جس کی تفصیل اپنی جگہ پر ایک الگ اور پیچیدہ داستان ہے مگر امر واقعہ یہی ہے کہ کچھ انتہا پسند افراد اور بعض پاکستان دشمن غیر ملکی ایجنڈوں' ایجنسیوں اور پراپیگنڈے کے باوجود یہ معاملہ بہت حد تک اب طے ہو چکا تھا کہ قادیانیت اسلام کے دائرے سے باہر ایک علیحدہ مذہبی اقلیت ہے۔

اس تفریق کے ضمن میں ان پر سوائے اپنے آپ کو مسلمان کہنے اور کہلوانے کے کوئی پابندی نہیں اور اس مذہبی تشخص کے علاوہ ان کے تمام تر شہری اور انسانی حقوق محفوظ ہیں۔ اب یہ بات ٹھیک طرح سے کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی کہ ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے کی زبان اور الفاظ میں ترامیم کیوں اور کس کے کہنے پر کی گئیں۔ حکومتی موقف یہ ہے کہ اس کی تفصیل میں جائے بغیر اس بات پر اکتفا کر لیا جائے کہ تقاضے کے مطابق ان ترامیم کو ختم کر کے متفقہ طور پر سابقہ مسودے کو بحال کر دیا گیا ہے جب کہ اس فسادی' سازشی اور غیر ذمے دارانہ عمل سے متاثر اور مجروح ہونے والے کروڑوں محب وطن اور عاشقان رسولؐ کا تقاضا تھا کہ نہ صرف اس معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے بلکہ ان لوگوں کو بھی سامنے لا کر کٹہرے میں کھڑا کیا جائے جن کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی یا کی گئی۔

عالم اسلام کا عمومی اور برصغیر کے مسلمانوں کا یہ خصوصی رویہ اور مزاج ہے کہ مذہب' دین اور عقیدے سے متعلق معاملات کو یہ دینی علوم کے ماہرین کے سپرد کر دیتے ہیں اور خود آنکھیں بند کر کے ان کے پیچھے چلنا اور نعرے مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں میں ہر طرح کے لوگ موجود ہیں یعنی ایک طرف باقاعدہ سند یافتہ' تعلیم و تربیت کے حامل اور اپنے موضوع پر علمی دسترس رکھنے والے صالح اور باعمل علما اور اساتذہ بھی ہیں تو دوسری طرف جذبات سے کھیلنے والے خوش الحان' دبنگ یا دنیا دار مولوی بھی جن کا رزق ہی اختلافی باتوں کو ہوا دینے اور سادہ دل مگر کم علم لوگوں کو خوامخواہ کے مسائل میں الجھانے فرقوں میں بانٹنے یا اللہ اور رسول کے نام پر ان کے جذبات کو مشتعل کر کے اپنی دکانیں چلانے میں ہے۔ مگر غور سے دیکھا جائے تو یہ دونوں طرح کے لوگ اقلیت میں ہیں جب کہ اکثریت ایسے جذباتی اور معصوم لوگوں کی ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ سے عقیدت اور محبت کے اظہار کے لیے سروں کو ہتھیلی پہ رکھ کر ایک آواز پر میدان میں نکل آتے ہیں۔


اتفاق سے اس حالیہ دھرنے میں ہر طرح کے لوگ ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع ہوئے کہ معاملہ ختم نبوت کے تحفظ اور ناموس رسالت کا تھا کہ جو اپنی اہمیت اور رتبے کی وجہ سے تمام اختلافات اور فاصلوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔ سو یہ مسئلہ صرف اس دھرنے میں شریک عوام' علمائے دین' انتظامیہ یا ان لاکھوں شہریوں کا نہیں جو اس سے براہ راست متاثر ہوئے، نہ ہی اس کا مرکزی نقطہ وہ چند مخصوص مولوی حضرات ہیں جنہوں نے شعلہ بیانی کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور ملک میں میدان جنگ کی سی صورت حال پیدا کر دی اور نہ ہی وہ مختلف اور متنوع قسم کے اسٹیک ہولڈرز ہیں جن کا نام' اسٹیبلشمنٹ' انتظامیہ' فرقہ پرستی' اینٹی قادیانی تحریک' حکومتی ناکامی یا سی پیک معاہدے کو ناکام کرنے امریکا' اسرائیل اور بھارت کے کسی پروگرام کے حوالے سے لیا جاتا ہے بلکہ اس سارے فساد کی جڑ وہ ترمیم ہے جس میں حلف نامے کی عبارت کو اس طرح سے تبدیل کیا گیا کہ اس کی زد میں بالواسطہ عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت پر پڑتی تھی اور جس کی وجہ سے یہ معاملہ کئی مراحل سے ہوتا ہوا فیض آباد چوک تک پہنچا۔

اس دوران میں کیا کچھ' کس کس طرح سے ہوا اس کی تفصیل میڈیا اور بالخصوص سوشل میڈیا کے ذریعے کسی نہ کسی شکل میں اہل وطن اور عالمی رائے عامہ تک پہنچتی بھی رہی ہے لیکن اس کا عمومی ہدف مذہبی تنگ نظری' فرقہ پرستی' احتجاج کی شدت اور انداز' حکومتی ناکامی اور اس دھرنے سے بالواسطہ یا براہ راست متاثر ہونے والے لوگوں کے مسائل رہے ہیں اور اس بات پر بہت کم توجہ دی گئی ہے کہ اس کے نتیجے میں وطن کے اندر اور باہر ہماری کس طرح سبکی ہوئی ہے' اخلاقی اعتبار سے ہم کہاں جا پہنچے ہیں' تعلیم' کاروبار' ٹرانسپورٹ' سڑکیں اور معمولات زندگی پر اس کے کیا منفی اور خطرناک اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے ذہنی' نفسیاتی اور عملی طور پر لوگوں کو کن کن پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایکشن کے دوران پیمرا نے نیوز میڈیا کی نشریات کو 27گھنٹے معطل رکھا جس نے حالات کو سدھارنے کے بجائے مزید افواہوں اور غلط فہمیوں کو جنم دیا اور آخر میں بات جس نتیجے اور معاہدے پر ختم ہوئی اس کو دیکھ کر یہ سوال مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے کہ یہ عمل اگر پہلے روز ہی کر لیا جاتا تو شاید نہ صرف اس کی شرائط بہتر' تعمیری اور شفاف ہوتیں بلکہ اس روش کا راستہ بھی روکا جا سکتا تھا جس نے ہمارے قومی اتحاد میں مزید رخنے ڈال دیے ہیں۔

25نومبر کو میں اور زاہد فخری فارم ایوو کی بہاولپور اور ملتان میں مقامی ڈاکٹر حضرات کے لیے ترتیب دی گئی خصوصی تقریبات میں شمولیت کے بعد واپسی کا راستہ ڈھونڈ رہے تھے کہ اس روز وہاں سے لاہور کے لیے کوئی فلائٹ سرے سے تھی ہی نہیں اور خبروں کے مطابق جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ مظاہرین نے سڑک بند کر رکھی تھی۔ دوسری طرف اسلام آباد میں سعود عثمانی اپنے بیٹے' نوبیاہتا بہو اور براتیوں کے ساتھ اور عزیزی احمد بلال اپنی ''ناٹک'' نامی ڈرامہ تنظیم کے ہم راہ پریشان بیٹھے تھے کہ واپسی کا سفر کب اور کیسے کریں کہ اسی شام لاہور میں ہونے والی حسن سعود کی تقریب ولیمہ کی منسوخی اور اس سے متعلقہ مسائل تو اپنی جگہ تھے مگر اتنے باراتیوں کو اس پریشانی کی صورت حال میں سنبھالنا اور ان کی خاطر داری کرنا اپنی جگہ پر ایک مسئلہ تھی۔

احمد بلال اور اس کی ٹیم کو پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب نے ٹرانسپورٹ تو پہلے سے دے رکھی تھی اب انھوں نے ان کی رہائش کا انتظام بھی کر دیا تھا لیکن بقیہ مسائل کا حل تو ان کے پاس بھی نہیں تھا ہمیں تو برادرم افضل شیخ اور شاکر حسین شاکر نے اپنی محبت اور محنت سے دوپہر دوبجے وہاں سے گزرنے والی کراچی ایکسپریس کے ذریعے بہت اچھے اور آرام دہ طریقے سے لاہور پہنچا دیا مگر فارم ایووو کی ٹیم کے جو ارکان دوسرے شہروں بالخصوص کراچی سے آئے تھے' اطلاعات کے مطابق اگلے دو دن تک خوار ہوتے رہے لیکن ان ذاتی تجربات اور مشاہدات سے قطع نظر یہ حقیقت اپنی جگہ پر ایک لمحہ فکریہ ہے کہ اگر یہ ''دھرنا کلچر'' اسی طرح سے اپنے راستے خود متعین کرتا رہا تو ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟

اس حالیہ دھرنے کا تعلق چونکہ ایک بہت نازک اور محترم جذباتی رشتے سے تھا اس لیے اس کو ایک استثنا کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے اور ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے کہ آیندہ کبھی اس سے ملتی جلتی صورت حال پیدا ہی نہ ہو سکے اور یہ کہ اس معاملے کی جڑ تک پہنچ کر ہر طرح کی ممکن اور مناسب کارروائی بھی کی جائے تاکہ ہم مل کر حضورؐ سے محبت کا حق ادا کر سکیں، البتہ آخر میں اتنی بات ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ اس عقیدت کے اظہار کے رستے میں اس طرح کی زبان سے گریز بلکہ مکمل اجتناب ضروری ہے جس کا مظاہرہ کچھ مہربانوں نے بہت شدت اور تکرار سے کیا ہے کہ یہ نہ تو آپؐ کی سنت ہے' نہ تعلیم اور نہ ہی کوئی پسندیدہ بات۔
Load Next Story