یہ صرف عمران خان ہی کرسکتے ہیں
دھرنوں کی سیاست سے اگر ہمیں کوئی شخص نجات دلا سکتا ہے تو وہ عمران خان کے علاوہ کوئی بھی نہیں
BARA:
اپنے خیالات کا اظہارکرنا ہو، دکھوں اور غموں کی روداد سنانی ہو، خود کو نمایاں کرنے کے لیے متنازع بیان دینا ہو یا اپنے سیاسی مخالفین اور حکومت پر تنقید کرنا ہو آپ نہایت آسانی سے سب کچھ کرگزریں گے۔ نہ کوئی آپ کو تھپڑ مارے گا، نہ گالی دے گا نہ ہی آنسوگیس کا شیل چھوڑنے کے بعد آپ کو نیم بے ہوشی کی حالت میں پیٹتا ہوا بغیر کوئی مقدمہ درج کیے حوالات میں بند کر ے گا مگر یہ سب کچھ ہمارے ملک میں نہیں بلکہ لندن کے ہائیڈ پارک میں ہی ممکن ہے جہاں جانے والے ایسے مناظر دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔
2003ء میں امریکا کے صدرنے عراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا توامریکی حکومت کے خلاف نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ امریکا میں بھی بہت بڑے مظاہرے ہوئے، مگر لندن کے ہائیڈ پارک میں ہونے والا عظیم مظاہرہ ''ملینیم مارچ'' ان سب پر سبقت لے گیا ۔ اس مظاہرے میں شرکت کے لیے صبح دس بجے جب ہم معروف سیاسی رہنما چوہدری انور ڈھولن اور پروفیسر ڈاکٹر بدر سومرو کے ساتھ ہائیڈ پارک روانہ ہوئے تو ہر طرف عجیب سماں تھا، گوروںاور کالوں کا اژدھام تو تھا ہی، یورپ اور ایشیاء کے تمام باشندوں کے ساتھ دنیا بھرکے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد بھی اس مظاہرے میں شریک تھے۔
دوسرے مظاہرین کا جوش و خروش اپنی جگہ مگر پاکستان اور ساؤتھ ایشیاء کے دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کا انداز تو بالکل ہی الگ اور نرالا تھا۔ بریڈ فورڈ، برمنگھم، ولور ہمٹن اور لندن کے مضافات میں قائم سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے کارکن جب ''اینٹی وارکولیشن'' نامی تنظیم کے تحت ہونے والے مظاہرے میں شمولیت کے لیے قافلوں کی صورت میں پارک کے اندر داخل ہوئے تو انسانی سروں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس عظیم احتجاج میں دس لاکھ سے زائد اور بیس لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے شرکت کی تھی، مگر کیا مجال کہیں کوئی بد انتظامی دیکھنے میں آئی ہو۔دوسرے دن لندن سے چھپنے والے مشہور زمانہ اخبار ''ڈیلی میل''میں ایک خبر کچھ یوں چھپی۔
''پاکستان کے سابق کرکٹر عمران خان نے آج ایک اخبار کے خلاف ہونے والے احتجاج میں حصہ لیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد کے ساتھ اس احتجاج میں شریک ہوں۔''
اس موقعے پر عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ ''اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ احتجاج میں کتنے لوگ شریک ہوئے ہیں۔ یہ احتجاج اس لیے کیا گیا ہے کہ اصولوں کی خلاف ورزی کے ساتھ بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔''
موجودہ حکومت کے ابتدائی دور میں جب عمران خان نے احتجاجی تحریک کا آغازکیا تو ہائیڈ پارک والے احتجاج کو لگ بھگ گیارہ سال گزر چکے تھے اور وہ احتجاج میں شامل افراد کی تعداد کے متعلق دیا گیا بیان بھی بھول چکے تھے۔ شاید اسی لیے تقریباً ہر احتجاجی جلسے میں ان کی پارٹی کے کارکنان اور میڈیا کے درمیان دھرنے میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد پر بحث ہوتی رہی، مگر یہ نہ سوچا گیا کہ کسی مخصوص جگہ کے بجائے سڑکوں اور چوراہوں پر ہونے والے دھرنے یا جلوس سے عام لوگوں کی زندگی میں کیا خلل پڑسکتا ہے۔
بس جوش تھا، نعرے تھے اور، بپھرے ہوئے نوجوان تھے جنہوں نے اسلام آباد کو ہائیڈ پارک میں تبدیل کر دیا جس کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ دھرنے کے دوسرے مرحلے میں سب سے پہلے ملک کے تمام شہروں کو اور پھر پورے ملک کو بند کر دیا جائے گا۔ ہائیڈ پارک کے جلسے میں لاکھوں افراد کی حاضری کے باوجود نہ تو خان صاحب نے نہ ہی لیبر پارٹی کے جارج گیلوے نے اور نہ ہی کسی اور تنظیم کے سربراہ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگر صدر بش نے عراق پر حملہ کیا تو ابتدا میں لندن، برمنگھم اور مانچسٹر کو بندکرنے کے بعد پورے برطانیہ کو بند کردیا جائے گا۔ظاہر ہے ایسا ممکن ہی نہیں تھا اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا تو اس کا مذاق ہی اڑایا جاتا، مگر ہمارے ملک میں یہ سب ممکن ہے۔ پچھلے پانچ چھ برسوں کے دوران پاکستان کی گلی گلی میں بات بات پر دھرنوں کے جس کلچر نے رواج پایا ہے اسے اگر کوئی عمران خان کی دین نہ کہے تو وہ ان کے سیاسی فلسفے کا دشمن ہی ہو سکتا ہے۔
اس عرصے میں ملک کے طول و عرض میں تقاریر، احتجاج اور دھرنوں کا جو انداز مروج ہوا اس سے نوجوان نسل تو کیا کئی بزرگ بھی خوب فیض یاب ہوئے اور دھرنوں میں وہ جوہر دکھائے کہ خلق خدا حیران رہ گئی لیکن ہم جیسے سادہ دل افراد یہ نہ سمجھ سکے کہ جو احتجاجی طریقہ روشناس کرایا گیاہے اسے کسی جدت کا نام دیا جائے یا ستر سالہ سیاسی برداشت کی تاریخ کا خاتمہ کہا جائے۔
وقت تیزی سے گزرتا رہا اور اس کے ساتھ عمران خان کی سیاسی سوچ اور مزاج میں بتدریج ٹھہراؤ آتا گیا جسے دیکھتے ہوئے موجودہ صورت حال میںتمام تر سیاسی اور کچھ دوسرے اختلافات کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ دھرنوں کی سیاست سے اگر ہمیں کوئی شخص نجات دلا سکتا ہے تو وہ عمران خان کے علاوہ کوئی بھی نہیں۔ اس لیے کہ پی ٹی آئی میںنوجوانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ موجود ہے جسے شعور دینے اور بہت ساری ہم خیال سیاسی جماعتوں کوسمجھانے کے ساتھ اگر عمران خان خود بھی یہ بات سمجھ لیں کہ ملک کی بڑی بڑی شاہراہیں بند کرنے ، مزدوروں سے ان کی دھیاڑی چھیننے، مریضوں کو ایمبولینس میں مارنے اوربچوں کو اسکول سے محروم رکھنے سے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی تو یہی سب سے بڑی تبدیلی ہو گی۔
آج سے گیارہ سال قبل ہائیڈ پارک کے جلسے میںدیا گیا بیان یاد کرکے عمران خان کو پی ٹی آئی کے ساتھ ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ ہمیں کسی سنجیدہ مسئلے پر دھرنا دینا ہو یا احتجاج کرنا ہو اس کے لیے دس افراد کی بھی وہی اہمیت ہے جو دس لاکھ کی ہو سکتی ہے، مگر اس سے پہلے یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ ہم یہ دھرنا کیوں دے رہے ہیں۔ ہم حکومتی بد عنوانی کو لڑائی جھگڑے کے بجائے ثبوت اور دلائل کے ساتھ عدالت میں بھی ثابت کر سکتے ہیں۔ اپنا نکتہ نظر لوگوں تک پہنچانے کے لیے جب جدید میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا بھی موجود ہے تو معصوم شہریوں اور سادہ دل دیہاتیوں کو سردی، گرمی اور برسات میں سڑکوں پر لا ئے بغیر بھی ان تک اپنا پیغام پہنچا یا جاسکتا ہے۔
عمران خان سے وابستہ دھرنوں کی سیاست کو ختم کرنے کی ہماری توقعات اپنی جگہ لیکن نواز شریف جو اپنی ہر تقریر میں موٹر وے، سی پیک، بجلی کے منصوبوں اور میٹرو بس کا ذکر کرتے ہیں اگر ہائیڈ پارک جتنا نہ سہی اپنے فارم جتنا ہی ایک ایک ایسا پارک چاروں صوبوں میں تعمیر کروا دیتے جس میں ہر سیاسی اور غیر سیاسی دھڑے کو جلسے جلوس اور تقریر کی آزادی ہوتی تو ملک کے پریس کلب،پارلیمنٹ ہاؤس، اہم شاہراہیں اور گورنر ہاؤسز دھرنوں سے محفوظ رہتے اور حالات بھی اتنے خراب ہوتے جتنے آج ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ خدشہ اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ پارک موجود بھی ہوئے تب بھی کچھ لوگ سڑکوں پر آکر وہی کچھ کریں گے جس کا انھیں عادی بنا دیا گیا ہے۔
اپنے خیالات کا اظہارکرنا ہو، دکھوں اور غموں کی روداد سنانی ہو، خود کو نمایاں کرنے کے لیے متنازع بیان دینا ہو یا اپنے سیاسی مخالفین اور حکومت پر تنقید کرنا ہو آپ نہایت آسانی سے سب کچھ کرگزریں گے۔ نہ کوئی آپ کو تھپڑ مارے گا، نہ گالی دے گا نہ ہی آنسوگیس کا شیل چھوڑنے کے بعد آپ کو نیم بے ہوشی کی حالت میں پیٹتا ہوا بغیر کوئی مقدمہ درج کیے حوالات میں بند کر ے گا مگر یہ سب کچھ ہمارے ملک میں نہیں بلکہ لندن کے ہائیڈ پارک میں ہی ممکن ہے جہاں جانے والے ایسے مناظر دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ہمارے ملک میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا۔
2003ء میں امریکا کے صدرنے عراق کے خلاف جنگ کا اعلان کیا توامریکی حکومت کے خلاف نہ صرف دنیا بھر میں بلکہ امریکا میں بھی بہت بڑے مظاہرے ہوئے، مگر لندن کے ہائیڈ پارک میں ہونے والا عظیم مظاہرہ ''ملینیم مارچ'' ان سب پر سبقت لے گیا ۔ اس مظاہرے میں شرکت کے لیے صبح دس بجے جب ہم معروف سیاسی رہنما چوہدری انور ڈھولن اور پروفیسر ڈاکٹر بدر سومرو کے ساتھ ہائیڈ پارک روانہ ہوئے تو ہر طرف عجیب سماں تھا، گوروںاور کالوں کا اژدھام تو تھا ہی، یورپ اور ایشیاء کے تمام باشندوں کے ساتھ دنیا بھرکے مذاہب سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد بھی اس مظاہرے میں شریک تھے۔
دوسرے مظاہرین کا جوش و خروش اپنی جگہ مگر پاکستان اور ساؤتھ ایشیاء کے دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کا انداز تو بالکل ہی الگ اور نرالا تھا۔ بریڈ فورڈ، برمنگھم، ولور ہمٹن اور لندن کے مضافات میں قائم سیاسی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے کارکن جب ''اینٹی وارکولیشن'' نامی تنظیم کے تحت ہونے والے مظاہرے میں شمولیت کے لیے قافلوں کی صورت میں پارک کے اندر داخل ہوئے تو انسانی سروں کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس عظیم احتجاج میں دس لاکھ سے زائد اور بیس لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے شرکت کی تھی، مگر کیا مجال کہیں کوئی بد انتظامی دیکھنے میں آئی ہو۔دوسرے دن لندن سے چھپنے والے مشہور زمانہ اخبار ''ڈیلی میل''میں ایک خبر کچھ یوں چھپی۔
''پاکستان کے سابق کرکٹر عمران خان نے آج ایک اخبار کے خلاف ہونے والے احتجاج میں حصہ لیا اور لوگوں سے اپیل کی کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد کے ساتھ اس احتجاج میں شریک ہوں۔''
اس موقعے پر عمران خان نے یہ بھی کہا تھا کہ ''اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ احتجاج میں کتنے لوگ شریک ہوئے ہیں۔ یہ احتجاج اس لیے کیا گیا ہے کہ اصولوں کی خلاف ورزی کے ساتھ بین الاقوامی قانون کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔''
موجودہ حکومت کے ابتدائی دور میں جب عمران خان نے احتجاجی تحریک کا آغازکیا تو ہائیڈ پارک والے احتجاج کو لگ بھگ گیارہ سال گزر چکے تھے اور وہ احتجاج میں شامل افراد کی تعداد کے متعلق دیا گیا بیان بھی بھول چکے تھے۔ شاید اسی لیے تقریباً ہر احتجاجی جلسے میں ان کی پارٹی کے کارکنان اور میڈیا کے درمیان دھرنے میں شریک ہونے والے افراد کی تعداد پر بحث ہوتی رہی، مگر یہ نہ سوچا گیا کہ کسی مخصوص جگہ کے بجائے سڑکوں اور چوراہوں پر ہونے والے دھرنے یا جلوس سے عام لوگوں کی زندگی میں کیا خلل پڑسکتا ہے۔
بس جوش تھا، نعرے تھے اور، بپھرے ہوئے نوجوان تھے جنہوں نے اسلام آباد کو ہائیڈ پارک میں تبدیل کر دیا جس کے بعد یہ اعلان کیا گیا کہ دھرنے کے دوسرے مرحلے میں سب سے پہلے ملک کے تمام شہروں کو اور پھر پورے ملک کو بند کر دیا جائے گا۔ ہائیڈ پارک کے جلسے میں لاکھوں افراد کی حاضری کے باوجود نہ تو خان صاحب نے نہ ہی لیبر پارٹی کے جارج گیلوے نے اور نہ ہی کسی اور تنظیم کے سربراہ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ اگر صدر بش نے عراق پر حملہ کیا تو ابتدا میں لندن، برمنگھم اور مانچسٹر کو بندکرنے کے بعد پورے برطانیہ کو بند کردیا جائے گا۔ظاہر ہے ایسا ممکن ہی نہیں تھا اور اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا تو اس کا مذاق ہی اڑایا جاتا، مگر ہمارے ملک میں یہ سب ممکن ہے۔ پچھلے پانچ چھ برسوں کے دوران پاکستان کی گلی گلی میں بات بات پر دھرنوں کے جس کلچر نے رواج پایا ہے اسے اگر کوئی عمران خان کی دین نہ کہے تو وہ ان کے سیاسی فلسفے کا دشمن ہی ہو سکتا ہے۔
اس عرصے میں ملک کے طول و عرض میں تقاریر، احتجاج اور دھرنوں کا جو انداز مروج ہوا اس سے نوجوان نسل تو کیا کئی بزرگ بھی خوب فیض یاب ہوئے اور دھرنوں میں وہ جوہر دکھائے کہ خلق خدا حیران رہ گئی لیکن ہم جیسے سادہ دل افراد یہ نہ سمجھ سکے کہ جو احتجاجی طریقہ روشناس کرایا گیاہے اسے کسی جدت کا نام دیا جائے یا ستر سالہ سیاسی برداشت کی تاریخ کا خاتمہ کہا جائے۔
وقت تیزی سے گزرتا رہا اور اس کے ساتھ عمران خان کی سیاسی سوچ اور مزاج میں بتدریج ٹھہراؤ آتا گیا جسے دیکھتے ہوئے موجودہ صورت حال میںتمام تر سیاسی اور کچھ دوسرے اختلافات کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ دھرنوں کی سیاست سے اگر ہمیں کوئی شخص نجات دلا سکتا ہے تو وہ عمران خان کے علاوہ کوئی بھی نہیں۔ اس لیے کہ پی ٹی آئی میںنوجوانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ موجود ہے جسے شعور دینے اور بہت ساری ہم خیال سیاسی جماعتوں کوسمجھانے کے ساتھ اگر عمران خان خود بھی یہ بات سمجھ لیں کہ ملک کی بڑی بڑی شاہراہیں بند کرنے ، مزدوروں سے ان کی دھیاڑی چھیننے، مریضوں کو ایمبولینس میں مارنے اوربچوں کو اسکول سے محروم رکھنے سے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی تو یہی سب سے بڑی تبدیلی ہو گی۔
آج سے گیارہ سال قبل ہائیڈ پارک کے جلسے میںدیا گیا بیان یاد کرکے عمران خان کو پی ٹی آئی کے ساتھ ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو یہ پیغام دینا ہو گا کہ ہمیں کسی سنجیدہ مسئلے پر دھرنا دینا ہو یا احتجاج کرنا ہو اس کے لیے دس افراد کی بھی وہی اہمیت ہے جو دس لاکھ کی ہو سکتی ہے، مگر اس سے پہلے یہ بھی سوچنا ضروری ہے کہ ہم یہ دھرنا کیوں دے رہے ہیں۔ ہم حکومتی بد عنوانی کو لڑائی جھگڑے کے بجائے ثبوت اور دلائل کے ساتھ عدالت میں بھی ثابت کر سکتے ہیں۔ اپنا نکتہ نظر لوگوں تک پہنچانے کے لیے جب جدید میڈیا کے ساتھ سوشل میڈیا بھی موجود ہے تو معصوم شہریوں اور سادہ دل دیہاتیوں کو سردی، گرمی اور برسات میں سڑکوں پر لا ئے بغیر بھی ان تک اپنا پیغام پہنچا یا جاسکتا ہے۔
عمران خان سے وابستہ دھرنوں کی سیاست کو ختم کرنے کی ہماری توقعات اپنی جگہ لیکن نواز شریف جو اپنی ہر تقریر میں موٹر وے، سی پیک، بجلی کے منصوبوں اور میٹرو بس کا ذکر کرتے ہیں اگر ہائیڈ پارک جتنا نہ سہی اپنے فارم جتنا ہی ایک ایک ایسا پارک چاروں صوبوں میں تعمیر کروا دیتے جس میں ہر سیاسی اور غیر سیاسی دھڑے کو جلسے جلوس اور تقریر کی آزادی ہوتی تو ملک کے پریس کلب،پارلیمنٹ ہاؤس، اہم شاہراہیں اور گورنر ہاؤسز دھرنوں سے محفوظ رہتے اور حالات بھی اتنے خراب ہوتے جتنے آج ہو چکے ہیں۔ اس کے باوجود یہ خدشہ اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ پارک موجود بھی ہوئے تب بھی کچھ لوگ سڑکوں پر آکر وہی کچھ کریں گے جس کا انھیں عادی بنا دیا گیا ہے۔