ڈبل سواری پر پابندی انتظامی ناکامی

اپنی ناکامی کا سارا ملبہ پہلے سے سخت مصائب کے شکار عوام پر ڈال دیتے ہیں۔


Ashar Najmi March 11, 2013

آج وہ پولیس اہلکار بہت خوش تھا ، بات بات پر ہنس رہا تھا ،اس کی خوشی اس کی آنکھوں اور چہرے سے صاف جھلک رہی تھی، میں نے بھی پوچھ ہی لیا کہ دوست کیا بات ہے آج تو بہت خوش نظر آرہے ہو،کہیں کوئی لاٹر ی تو نہیں نکل آئی،کہنے لگا یوں ہی سمجھ لو،میں نے کہا پھر بھی کچھ بتاؤ تو سہی تاکہ معاملہ صاف ہوسکے، اس نے کہا ارے بھائی کراچی میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگادی گئی ہے تو بس سمجھ جاؤ کہ اب ہماری عید ہوگئی، تب جاکر بات میری سمجھ میں آئی کہ وہ اتنا خوش کیوں تھا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈبل سواری پر لگنے والی پابندی ہماری پولیس کی کارگزاری اور مستعدی میں ہی اضافہ نہیں کرتی ان کی آمدنی میں بھی چارچاند لگا دیتی ہے۔ شہرمیں ہونے والی وارداتوں اور عوام کو تحفظ کی فراہمی میں ہمیشہ موقعے سے غائب رہنے والی پولیس اس پابندی کے لگتے ہی حفاظتی ناکے چھوڑ چھاڑ کر گلی ، محلوں ، بازاروں اور نکڑوں پر چکر کاٹتی نظر آرہی ہوتی ہے ۔شہر میں رونما ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہوں یا شہریوں کے ساتھ رہزنوں کی لوٹ مار، پولیس ہمیشہ دیر سے ہی پہنچتی ہے کیوں کہ ایسے معاملات میں سوائے کف افسوس ملنے کے اور کچھ پولیس کے ہاتھ نہیں آتا مگر بھلاہو اس ڈبل سواری پر پابندی کا جس میں آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام والی مثال صادق آتی ہے اس لیے ظاہر ہے پولیس کی مستعدی اور کارگزاری میں خود بخود ہی اضافہ ہوجاتا ہے۔

موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی کے حوالے سے حکومت ہمیشہ سے یہی راگ الاپتی نظر آئی ہے کہ اس اقدام سے دہشت گردی کے واقعات کی روک تھام میں مدد ملتی ہے، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ دہشت گرد باآسانی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جو لوگ شہر میں خوف و ہراس اور دہشت گردی کی وارداتوں کے لیے موٹر سائیکل پر جدید و خود کار اسلحہ لے کر نکلتے ہیں انھیں اس بات سے کیا ڈر وخوف ہو سکتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار انھیں روکیں گے ، ان کے جدید و خود کار اسلحے نے تو دہشت پھیلانی ہے جس کے لیے وہ باآسانی اس کا رخ کسی کی طرف بھی موڑ سکتے ہیں چاہے نشانہ عام شہری ہوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار۔اس لیے اس تدبیر کو مسئلے کا مستقل حل قرار دینا ہرگز درست نہیں۔

موٹر سائیکل کا زیادہ استعمال متوسط طبقے کے لوگ کرتے ہیں، آبادی میں بے پناہ اضافے ،پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی ،ہفتے میں کئی کئی دن سی این جی کی بندش کے ساتھ ساتھ آئے روز کرایوں میں اضافے کی وجہ سے موٹر سائیکل متوسط طبقے کے لیے ایک متبادل ذریعہ آمدورفت بن چکا ہے لہٰذا اس پر پابندی کے نتیجے میں جہاں متوسط طبقے کے افراد کو آمدورفت کے لیے اپنی بساط سے کہیں زیادہ اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں وہیں ان کے مسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ان کا سکون برباد کردیتا ہے، ان کی مالی مشکلات میں اضافے کے علاوہ پوری قومی معیشت پر بھی اس کے ناخوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں ساتھ ہی عوام میں اس تاثر کو بھی مزید تقویت ملتی ہے کہ حکومت اور عوام کی جان و مال کی حفاظت پر مامور حکومتی ادارے شرپسند عناصر و دہشت گردوں کے مقابلے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔

اپنی ناکامی کا سارا ملبہ پہلے سے سخت مصائب کے شکار عوام پر ڈال دیتے ہیں جو مرے کو سو درے مارنے کے مترادف ہے۔طویل جدوجہد ، کوششوں اور قربانیوں کے بعد انسان کو آزادی ایسی نعمت میسر آئی ہے اس لیے اس آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے جابرانہ اقدامات کرنا ہرگز عوام کے مفاد میں نہیں ہے جن سے عوام کے لیے مزید سنگین مشکلات پیدا ہوں۔حکومت کو یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ اس طرح کے اقدامات سے دہشت گرد تو دہشت گردی کا کوئی دوسرا راستہ اختیار کرسکتے ہیں جس کے لیے انھیں کسی رکاوٹ کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑیگا لیکن ایک عام امن پسند شہری اور خاص طور پر متوسط و غریب طبقے کے لیے ایسی مشکلات پیدا ہونگی کہ ان کے لیے روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔

انسانی ضروریات اور معمولات زندگی کو نظرانداز کرکے محض اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کی خاطر ایسے عوام دشمن اقدامات کا ہرگز ہرگز کوئی جواز نہیں ہے ، عوام پہلے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خاص طور پر پولیس کے طرزعمل پر سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں ، خود حکومت بھی اکثر مواقعے پر پولیس کی ناقص کارکردگی ، قوانین کو پامال کرنے اور غیر قانونی اقدامات کے ذریعے عوام کو اذیت سے دوچار کرنے کا اعتراف کرتی آئی ہے۔ پولیس تو ایف آئی آر کاٹنے تک کے لیے کاغذ نہ ہونے کا بہانہ کرکے شہریوں سے رقم وصول کرنے میں شہرت رکھتی ہے۔

دوسری طرف قاتل دندناتے پھر رہے ہیں ، ہر جگہ اسلحہ موجود ہے ، جن چند نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں کے کھاتے میں ہوائی فائرنگ، دکانیں زبردستی بندکرادینا، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ، اغواء برائے تاوان کی وارداتیںاور چوری ڈکیتی جیسے سنگین معاملات باآسانی ڈال کر حکومت فرار اختیارکرتی آرہی ہے ، وہ چند نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سوار ہماری نام نہاد فرض شناس اور مستعد پولیس کو کسی گلی ، محلے، بازار ، سڑک یا چوراہے پر کیو ں نظر نہیں آتے ، جب بھی ہمت دکھائی ہمیشہ شہریوں نے ہی دکھائی اور نہتے ہی اسلحہ بردار دہشت گردوں کو پکڑکر حوالہ پولیس کیا مگر پولیس نے ان کے ساتھ کیا کیا ، یہ آج تک معلوم نہ ہوسکا۔

عوام سوال کرتے ہیں کہ ڈبل سواری پر پابندی لگتے ہی پولیس مستعدی سے شہریوں کو اس پابندی کی خلاف ورزی کی مد میں آدم بو آدم بو کرتی ڈھونڈتی نظر آتی ہے لیکن دہشت گرد، ٹارگٹ کلرز ، موبائل چھیننے والوں کو اس مستعدی سے تلاش و گرفتار کیوں نہیں کرتی ؟ دہشت گردوں نے کونسی سلیمانی ٹوپی پہنی ہوئی ہے جو ہماری پولیس ان مجرموں کو دیکھ نہیں پاتی ، پولیس کی ساری مستعدی، پیداگیری اور لین دین جیسے معاملات صرف شہریوں تک ہی کیوں محدود نظر آتے ہیں۔

شہر میں ہولناک ہلاکتوں سے پیدا شدہ انسانی مصائب و آلام کا احساس کیوں نہیں کیا جاتا ؟ کراچی میں کسی کی جان محفوظ نہیں ہے، مختلف مافیاؤں کے کرتا دھرتا اسلحہ تانے معصوم اور نہتے شہریوں کو شکار کررہے ہیںاور قانون نافذ کرنے والے ادارے محض ٹامک ٹوئیاں مارتے پھرر ہے ہیں۔ حکومت کو اور کچھ نہیں سوجھتا تو لے دے کر موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کرکے اس کبوتر کی طرح خود کو خطرے سے محفوظ تصور کرنے لگتی ہے جو بلی کو سامنے دیکھ کر بجائے اپنا بچاؤ کرنے کے آنکھیں بند کرلیتا ہے ۔ ڈبل سواری پر عائد کردہ پابندی کے باوجود شہر میں نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں کی کارروائیاں جاری ہیں اور شہری مستقل خوف و ہراس کے عالم میں ہیں ۔

شہر کراچی جو کبھی آمریتوں کے خلاف جدوجہد کی ایک سیاسی شناخت تھا ، مختلف الخیال لیکن وسیع المشرب انسانوں کے مسکن کو روزگار ، ترقی ، معاشی سکون اور زندگی کا تحفظ دیتا تھا ، جس کی روشنیاں آنکھوں کو خیرہ کردیتی تھیں، آج ظلم و بربریت کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے ۔ اس شہر میں کبھی راتیں جاگا کرتی تھیں مگر آج دن میں بھی انسانی زندگیاں نگل رہا ہے، روزگار کو جیسے چپ سی لگ گئی ہے۔ معیشت کا پہیہ جام ہے ، توانائی کے بحران نے ملکی ترقی کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے اور ان تمام مسائل کا حل ارباب اقتدار و اختیار کے پاس بس ایک ہے اور وہ ہے ڈبل سواری پر پابندی۔ حالات کسی اور ہی نہج پر جارہے ہیں ، روز ہی شہر میں ٹارگٹڈ آپریشن کیے جارہے ہیں مگر نتیجہ وہی یعنی ڈھاک کے تین پات۔

لوگ اب حکومتی اقدامات سے بیزار آچکے ہیں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچتے دیکھنا چاہتے ہیں، جاننا چاہتے ہیں کہ شہریوں کے قاتل کون ہیں۔ حکومت سیاست اور مفاہمت کی کشتی میں سوار اس ساری صورتحال سے بے نیاز صرف اور صرف مزے لوٹ رہی ہے اور دوبارہ سے اپنی باری حاصل کرنے کی تگ ودو میں اپنی ساری توانائیاں خرچ کررہی ہے ۔ مفاہمانہ اور اتحادی سیاست سے مکینوں کو امن، انصاف اور تشدد سے پاک سیاسی ماحول نہ ملا تو سارا جمہوری عمل غیر موثر ہو جائے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرتے ہوئے سنجیدہ اقدامات بروئے کار لائے اور شہریوں کو آزادانہ آمدورفت جیسی سہولت یعنی ڈبل سواری پر سے پابندی سے فوری نجات دے تاکہ عوام مہنگائی کے تپتے صحرا میں اس سہولت کو پانی کا ایک قطرہ ہی تصور کرسکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں