ریاست سیاست اور مذہب
دھرنا عمران خان کا ہو یا طاہر القادری کا ہو تو اس کے پیچھے کون ہے والے سوال کو اکثر حل کیا ہی جاتا ہے
PESHAWAR:
اس بات سے قطع نظرکہ دھرنا لگانے والے کیا مطالبہ کر رہے تھے، ان کا لب ولہجہ کیا تھا، ان کے پیچھے کون تھا اور آگے کون ہے؟ کیا یہ بریلوی تھے یا دیوبندی تھے؟ جو بات غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کہاں تھی؟ اور پھر جب عدالت متحرک ہوئی تو پھر ریاست آگے آئی اور اس نے بجائے اس معاملے کو رفع کرنے کے اور بگاڑ دیا۔ سب نے بالاخر گھٹنے ٹیک دیے اور اگر جو نہ ٹیکتے تو کیا ہوتا؟ ادھر آگ تھی ادھر پانی نہ دیس تھا نہ سخن تھا۔ بڑے بڑے شعلہ بیان مقرر ہیں یوں تو میڈیا پر خوب بولتے گرجتے ہیں کہ گوئبلزکو بھی شرم آ جائے۔ طلال چوہدری، پارٹی کے بیانیے کو بیان کرنے کی مہارت میں اپنی پہچان آپ ہیں۔ ان کے لیڈر محترم پر لگے الزامات پر پارٹی کا ہراول دستہ یوں چاک و چوبند ہیں کہ جیسے اگلے مورچوں پہ وطن عزیز کے لیے جنگ لڑنی ہے، ایک دانیال عزیز بھی ہیں۔ میاں صاحب یا میاں برادران پر جو الزامات ہیں وہ ذاتی نوعیت کے ہیں اور ان کی ذاتی حیثیت میں ہر جواب یوں ہے جیسے حکومت پر الزام ہے یا اقتداری پارٹی پر۔
اور جب امتحان کے زمانے آئے تو حکومت کہاں تھی؟ وہ اسے ذمے دار ٹھہرا رہا تھا اور یہ اسے۔ ان میں ایک کیپٹن صفدر بھی ہیں جو اس بیانیے سے محفوظ ہوئے ہیں۔ یوں کہیے کہ اگر دھرنا عمران خان کا ہو یا طاہر القادری کا ہو تو اس کے پیچھے کون ہے والے سوال کو اکثر حل کیا ہی جاتا ہے، مگر ان صاحبان کے پیچھے کون تھا ؟ میرے خیال میں ہم سب ہی تھے۔
میاں صاحب اس منزل تک کیسے پہنچے؟ دائیں بازوکی سیاست کا طویل تجربہ ہے ان کے پاس۔ کرنا وہ نوکری چاہتے تھے بن وزیرگئے۔ جنرل ضیاء الحق کو یوں بھا گئے کہ پھر ان کے جانشین بنے اور یوں طویل عرصے تک یہ کام کرتے رہے۔ 1990ء کے الیکشن میں جنرل اسلم بیگ کے تقسیم کردہ فنڈز سے بھی لطف اندوز ہوئے اور یہ اسامہ بن لادن کی مددکرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ عرض کیا ہے کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔ جو بیانیہ بنے اسی ہوا کا رخ پکڑ لیتے تھے اور آج کل مبصرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ جمہوری قوتوں کے صف اول کے رہبر ہیں۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
آج ذرا دیکھئے تو صحیح یہ جمہوری قوتیں کہاں کھڑی ہیں۔
''آخری شب کے ہمسفر نہ جانے کیا ہوئے،
رہ گئے کدھرکو ، صبح رات نہ جانے کہاں نکل گئی''
جب عمران خان نے دھرنا دیا تو زرداری میاں صاحب کے ساتھ کھڑے تھے اور آج زرداری نہ جانے کدھر نکل گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سندھ و پنجاب میں بھٹوزکا ذاتی ووٹ تھا وہ اب نہ رہا اور پنجاب کے شرفأ زرداری صاحب کے ساتھ کیوں ہوں؟ اور پھر اس دھرنے نے جو جمہوری قوتوں کو دھچکا دیا ہے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ احسن اقبال جو اس کارروائی کے سالار اول تھے، میں نے اپنے کانوں سے سنا جب نشریات کھلیں تو ایک چینل پہ یہ کہہ رہے تھے میں نہیں جس نے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کا حکم دیا ہے بلکہ یہ کورٹ تھی جس کے کہنے پر مقامی انتظامیہ نے بغیر میرے کہے حکم کی تعمیل کی۔ لب لباب یہ ہے کہ وہ بوکھلائے اور سہمے ہوئے تھے۔ جو چھوٹی موٹی باقی حکومت کی رٹ تھی وہ بھی چلی گئی۔
یہ تو فوج کے لیے بھی اچھا نہیں ہوا کہ ان کو ثالثی کے لیے بیچ میں آنا پڑا اور یہ تو اور بدتر ہوتا کہ اگر فوج کوئی لال مسجد جیسا آپریشن کرتی اور ایسی کوئی صورتحال تھی بھی نہیں۔
کل پشاور میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی پارٹی اور مولانا سمیع الحق کے پارٹی کے نظریات میں موافقت ہے، تو پھر مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق کے نظریات میں کیا فرق ہے؟کل عمران خان طالبان کی وکالت کرتے تھے اور دو دن پہلے ایک DIG جو خودکش حملے میں کچھ اور سپاہیوں کے ساتھ پشاور میں شہید ہوئے تو کہا کہ کوئٹہ میں پولیس افسر کا مارا جانا معمول ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر شام جیسی یہاں خانہ جنگی چھڑجائے تو پھرکیا ہوگا ؟ وہ شام جس کا ہر چوتھا شہری ہجرت کرچکا۔ ایک ایسی ہجرت جس نے یورپ کے اندردائیں بازوکی نفرت آمیز سیاست میں تیزی پیدا کردی ہے ۔ ہم تو بیس کروڑ لوگوں کی قوم ہیں تو ہم نے تو بہت ہی ہولنا کی پھیلا دینی ہے، لیکن ایسا کچھ ہونے کا دور دور تک کوئی اندیشہ نہیں۔ ہاں اگر ریاست اسی طرح سوتی رہی تو ایسا ہوسکتا ہے، اگر ن لیگ کے سربراہ کے داماد اسی طرح کے بیانات دیتے رہے اور اگر ہم نے اسی طرح کے معاہدے کر کے گھٹنے ٹیکنے کا کام جاری رکھا تو ایسا ہوسکتا ہے۔
یہ کیا بڑی خبر نہ تھی کہ جب سعودی عرب کے پاکستان میں متعین سفیر اور سعودی عرب نے بین الاقوامی سطح پر یہ کہا کہ اب وہ اسلام کی سخت تشریح کو ترک کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کی ماڈریٹ تشریح کی ہمت افزائی کریں گے اور پھر یوں خواتین کو ڈرائیونگ کے حقوق ملے اور اب وہ کھیلوں کے میدان میں کھیل دیکھنے بھی جاسکتی ہیں۔
صاحب کے اشارے پر یہ کام کر تے تھے اور پھر بوتل میں سے جب جن نکلا تو پھر...
اس بات سے قطع نظرکہ دھرنا لگانے والے کیا مطالبہ کر رہے تھے، ان کا لب ولہجہ کیا تھا، ان کے پیچھے کون تھا اور آگے کون ہے؟ کیا یہ بریلوی تھے یا دیوبندی تھے؟ جو بات غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کہاں تھی؟ اور پھر جب عدالت متحرک ہوئی تو پھر ریاست آگے آئی اور اس نے بجائے اس معاملے کو رفع کرنے کے اور بگاڑ دیا۔ سب نے بالاخر گھٹنے ٹیک دیے اور اگر جو نہ ٹیکتے تو کیا ہوتا؟ ادھر آگ تھی ادھر پانی نہ دیس تھا نہ سخن تھا۔ بڑے بڑے شعلہ بیان مقرر ہیں یوں تو میڈیا پر خوب بولتے گرجتے ہیں کہ گوئبلزکو بھی شرم آ جائے۔ طلال چوہدری، پارٹی کے بیانیے کو بیان کرنے کی مہارت میں اپنی پہچان آپ ہیں۔ ان کے لیڈر محترم پر لگے الزامات پر پارٹی کا ہراول دستہ یوں چاک و چوبند ہیں کہ جیسے اگلے مورچوں پہ وطن عزیز کے لیے جنگ لڑنی ہے، ایک دانیال عزیز بھی ہیں۔ میاں صاحب یا میاں برادران پر جو الزامات ہیں وہ ذاتی نوعیت کے ہیں اور ان کی ذاتی حیثیت میں ہر جواب یوں ہے جیسے حکومت پر الزام ہے یا اقتداری پارٹی پر۔
اور جب امتحان کے زمانے آئے تو حکومت کہاں تھی؟ وہ اسے ذمے دار ٹھہرا رہا تھا اور یہ اسے۔ ان میں ایک کیپٹن صفدر بھی ہیں جو اس بیانیے سے محفوظ ہوئے ہیں۔ یوں کہیے کہ اگر دھرنا عمران خان کا ہو یا طاہر القادری کا ہو تو اس کے پیچھے کون ہے والے سوال کو اکثر حل کیا ہی جاتا ہے، مگر ان صاحبان کے پیچھے کون تھا ؟ میرے خیال میں ہم سب ہی تھے۔
میاں صاحب اس منزل تک کیسے پہنچے؟ دائیں بازوکی سیاست کا طویل تجربہ ہے ان کے پاس۔ کرنا وہ نوکری چاہتے تھے بن وزیرگئے۔ جنرل ضیاء الحق کو یوں بھا گئے کہ پھر ان کے جانشین بنے اور یوں طویل عرصے تک یہ کام کرتے رہے۔ 1990ء کے الیکشن میں جنرل اسلم بیگ کے تقسیم کردہ فنڈز سے بھی لطف اندوز ہوئے اور یہ اسامہ بن لادن کی مددکرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ عرض کیا ہے کہ جیسا دیس ویسا بھیس۔ جو بیانیہ بنے اسی ہوا کا رخ پکڑ لیتے تھے اور آج کل مبصرین کے مطابق پاکستان کی موجودہ جمہوری قوتوں کے صف اول کے رہبر ہیں۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
آج ذرا دیکھئے تو صحیح یہ جمہوری قوتیں کہاں کھڑی ہیں۔
''آخری شب کے ہمسفر نہ جانے کیا ہوئے،
رہ گئے کدھرکو ، صبح رات نہ جانے کہاں نکل گئی''
جب عمران خان نے دھرنا دیا تو زرداری میاں صاحب کے ساتھ کھڑے تھے اور آج زرداری نہ جانے کدھر نکل گئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو سندھ و پنجاب میں بھٹوزکا ذاتی ووٹ تھا وہ اب نہ رہا اور پنجاب کے شرفأ زرداری صاحب کے ساتھ کیوں ہوں؟ اور پھر اس دھرنے نے جو جمہوری قوتوں کو دھچکا دیا ہے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح سے ہے کہ احسن اقبال جو اس کارروائی کے سالار اول تھے، میں نے اپنے کانوں سے سنا جب نشریات کھلیں تو ایک چینل پہ یہ کہہ رہے تھے میں نہیں جس نے دھرنے کو ختم کرنے کے لیے طاقت کے استعمال کا حکم دیا ہے بلکہ یہ کورٹ تھی جس کے کہنے پر مقامی انتظامیہ نے بغیر میرے کہے حکم کی تعمیل کی۔ لب لباب یہ ہے کہ وہ بوکھلائے اور سہمے ہوئے تھے۔ جو چھوٹی موٹی باقی حکومت کی رٹ تھی وہ بھی چلی گئی۔
یہ تو فوج کے لیے بھی اچھا نہیں ہوا کہ ان کو ثالثی کے لیے بیچ میں آنا پڑا اور یہ تو اور بدتر ہوتا کہ اگر فوج کوئی لال مسجد جیسا آپریشن کرتی اور ایسی کوئی صورتحال تھی بھی نہیں۔
کل پشاور میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی پارٹی اور مولانا سمیع الحق کے پارٹی کے نظریات میں موافقت ہے، تو پھر مولانا فضل الرحمان اور مولانا سمیع الحق کے نظریات میں کیا فرق ہے؟کل عمران خان طالبان کی وکالت کرتے تھے اور دو دن پہلے ایک DIG جو خودکش حملے میں کچھ اور سپاہیوں کے ساتھ پشاور میں شہید ہوئے تو کہا کہ کوئٹہ میں پولیس افسر کا مارا جانا معمول ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ اگر شام جیسی یہاں خانہ جنگی چھڑجائے تو پھرکیا ہوگا ؟ وہ شام جس کا ہر چوتھا شہری ہجرت کرچکا۔ ایک ایسی ہجرت جس نے یورپ کے اندردائیں بازوکی نفرت آمیز سیاست میں تیزی پیدا کردی ہے ۔ ہم تو بیس کروڑ لوگوں کی قوم ہیں تو ہم نے تو بہت ہی ہولنا کی پھیلا دینی ہے، لیکن ایسا کچھ ہونے کا دور دور تک کوئی اندیشہ نہیں۔ ہاں اگر ریاست اسی طرح سوتی رہی تو ایسا ہوسکتا ہے، اگر ن لیگ کے سربراہ کے داماد اسی طرح کے بیانات دیتے رہے اور اگر ہم نے اسی طرح کے معاہدے کر کے گھٹنے ٹیکنے کا کام جاری رکھا تو ایسا ہوسکتا ہے۔
یہ کیا بڑی خبر نہ تھی کہ جب سعودی عرب کے پاکستان میں متعین سفیر اور سعودی عرب نے بین الاقوامی سطح پر یہ کہا کہ اب وہ اسلام کی سخت تشریح کو ترک کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کی ماڈریٹ تشریح کی ہمت افزائی کریں گے اور پھر یوں خواتین کو ڈرائیونگ کے حقوق ملے اور اب وہ کھیلوں کے میدان میں کھیل دیکھنے بھی جاسکتی ہیں۔
صاحب کے اشارے پر یہ کام کر تے تھے اور پھر بوتل میں سے جب جن نکلا تو پھر...