سرودِ سحر آفریں

نظم کے میدان میں قبال نے اردو اور فارسی ادب کو اپنا سب سے گراں قدر عطیہ عنایت کیا ہے


Rafiuzzaman Zuberi November 30, 2017

''سرودِ سحر آفریں'' پروفیسر غلام رسول ملک کے مضامین و مقالات کا مجموعہ ہے۔ ان مضامین کا محوری نکتہ یہ ہے کہ اقبال بحیثیت مجموعی ایک اسلامی مفکر اور فنکار تھے۔

غلام رسول ملک انگریزی زبان اور ادب کے ممتاز استاد ہیں اور ان کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو اقبال اور اقبالیات سے ان کا گہرا شغف ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے فکر وفن اقبال کے چند گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔

وہ لکھتے ہیں ''اسلامی فنکار زندگی کو ایک نامیاتی اکائی (Organic Unity) تصورکرتا ہے۔ ایک ایسی نامیاتی وحدت جس میں مختلف عناصر ایک دوسرے سے پیوست ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ان عناصر میں جمالیاتی حس کو بھی ایک اہم مقام حاصل ہے اور اس کی تسکین یا عدم تسکین سے شخصیت انسانی بہرکیف متاثر ہوتی ہے۔ بڑا فن اسی اہم حقیقت کی بنیاد پر تعمیر ہوتا ہے، چاہے فن کار اسے شعوری طور پر اپنی گرفتِ ادراک میں لایا ہو یا اسے اس کا جبلی اور غیر شعوری احساس ہو۔'' اقبال اسی معنی میں ایک اسلامی فن کار تھے۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ وہ بیک وقت ایک فلسفی، انقلاب آفریں مفکر اور ایک بلند پایہ تخلیقی فنکار تھے ان کی فکر کا اصل ماخذ اسلام ہے۔

پروفیسر غلام رسول ملک لکھتے ہیں ''ایک فلسفی کی حیثیت سے اقبال کا مخصوص کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے دور حاضر کے پیچیدہ مسائل سے تعرض کرکے ان پر اس ژرف نگاہی سے اظہار خیال کیا ہے جس کی تعمیر اسلام کی گزشتہ تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ ایک معاشرتی اور سیاسی مفکر و مدبر کی حیثیت سے اقبال نے نہ صرف یہ کہ پورے عالم اسلام کو اس حد تک متاثر کیا ہے کہ انھیں اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے سب سے بڑے مشعل بردار کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے بلکہ ان کی انقلابی فکر نے برصغیر کا جغرافیہ بھی بدل ڈالا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ ان کی بے وقت موت سے ان کے معاشرتی اور سیاسی تصورات کو صحیح طور پر عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا جس کی وجہ سے اس باب میں ان کی حقیقی عظمت اب تک نگاہوں سے اوجھل ہے مگر صاحب نظر جانتے ہیں کہ وہ جس معاشرتی اور سیاسی انقلاب کے متمنی تھے اس کا ہدف دینِ فطرت کی بنیادوں پر عالم انسانیت کا ہمہ گیر ارتقا تھا۔ لیکن جو خصوصیت انھیں زمان و مکان کی حد بندیوں سے اوپر اٹھا کر ثبات دوام عطا کرتی ہے وہ ان کا دور حاضر کے آشوب کا صحیح عرفان اور اس کے مرض کی صحیح تشخیص ہے۔ اپنی تحریروں اور شاعری میں انھوں نے اس مرض کی اصل جڑ پر انگلی رکھ دی ہے۔ ان کی نظر میں عصر حاضر کا اصل مسئلہ زندگی کی مذہب سے دوری ہے۔''

اقبال کی مذہبی فکرکی معنویت کے عنوان سے پروفیسر غلام رسول لکھتے ہیں ''اقبال اس لحاظ سے مجتہد العصر تھے کہ انھوں نے گرد و پیش کی دنیا کا پورا جائزہ لیا، مغرب ومشرق کے افکار و نظریات پر ناقدانہ نظر ڈالی، ماضی کے ورثے کی ایک جوہری کی طرح چھان بین کی اور مستقبل کے امکانات کو حتی الامکان کمی صرف نظر نہیں۔ مقصود اس کاوش و تحقیق کا یہ تھا کہ حیات انسانی اور اس کے ارتقائی عمل کے لیے ایک حرکی (Dynamic) لائحہ عمل کا خاکہ پیش کیا جاسکے۔ اپنی تحقیق کی رو سے وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ آج کا انسان شاہراہ اعتدال سے ہٹ گیا ہے جس پر گامزن ہوکر انسانی فطرت میں ودیعت کیے گئے امکانات کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔''

غلام رسول ملک کہتے ہیں کہ انسان کی روحانی فلاح اس امر میں پوشیدہ ہے کہ وہ اپنے مقام اور اپنے اندر پوشیدہ امکانات سے آگاہ ہو۔ قرآن میں آدم کے قصے کے پیرائے میں جو اہم حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہے اور اس کا مقصد اپنے ممکنات کو معرض وجود میں لانا ہے۔ اقبال اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ انسان اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اس وقت تک فلاح و کامرانی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا جب تک حقیقت مطلقہ یعنی ذات باری تعالیٰ کے ساتھ اس کا تعلق صحیح بنیادوں پر استوار نہ ہو۔ کامیاب زندگی کی بنیادیں نہ تو شرک پر اٹھائی جاسکتی ہیں اور نہ دہریت اور انکار خدا پر۔

اقبال کی شاعری کے بارے میں پروفیسر غلام رسول لکھتے ہیں کہ حقیقت پر مبنی اپنے نظام فکر کی بنیاد پر اقبال نے ایک جامع جمالیات وضع کی اور انتہائی پر اثر شاعری پیدا کی۔ اس جمالیات کا اصل اصول یہ ہے کہ ادب کا مقصد عیاشی کی تلاش اور انسان کی سفلی جذبات کی تسکین نہیں بلکہ انسان کے قوائے باطنی کی بیداری، ان کی تطہیر اور انھیں صحیح رخ پر ڈال دینا ہے:

وہ شعر کہ پیغامِ حیات ِ ابدی ہے

یا نغمۂ جبریل ہے یا بانگ سرافیل

وہ لکھتے ہیں ''اقبال کی شاعری تمام محاسن و کمالات شعری سے مزین ہے مگر یہ محاسن و کمالات ان کا مقصد نہیں بلکہ حصول مقصد کا ذریعہ ہیں اور مقصد انسان کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرکے اسے لامتناہی ارتقا کے راستے پر ڈال دیتا ہے۔''

وہ لکھتے ہیں ''اقبال نے غزل کو روایتی بندھنوں سے آزاد کرکے لامتناہی آزادی اور وسعت کی شاہراہ پر لگادیا۔ حسن و عشق کی روایت اور گل و بلبل کی داستان سرائی کے تنگ دائرے سے نکل کر انھوں نے غزل میں انسانی زندگی اور کائنات کے عمیق حقائق اور انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اسرار و رموز فاش کیے۔ اور لطف یہ ہے کہ یہ سب کچھ غزل کی مخصوص نوعیت کا لحاظ رکھتے ہوئے کیا گیا۔

اقبال نے غزل کے ساتھ رباعی، نعت اور مثنوی بھی لکھی، اپنی اردو اور فارسی نظموں میں کچھ نئے تجربات بھی کیے مگر روایتی آداب کو ملحوظ رکھا۔ غلام رسول ملک لکھتے ہیں ''رباعی کی صنف میں اقبال نے نہ صرف اس کے موضوع کو وسعت بخشی بلکہ اس میں ایک نئی بحر کا انتخاب کیا جو عام طور پر اس کے لیے مستعمل نہیں تھی۔ اقبال کی نعت کی انقلابی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں رسول اللہؐ کے کارنامے کے اس پہلو پر زیادہ زور دیا گیا ہے جس کا تعلق تاریخ میں حضورؐ کے لائے ہوئے انقلاب عظیم کے ساتھ ہے جس کے فیض سے انسانیت ہمیشہ متمتع ہوتی رہے گی، مگر اس نعت کی تان ہمیشہ نبی اکرمؐ کے ساتھ اقبال کی والہانہ وابستگی اور ناقابل بیان جذبہ عقیدت اور محبت پر ٹوٹتی ہے۔ گو ان کی نعت روایتی نعت گوئی سے ہم آہنگ ہے تاہم اس میں وہ مصنوعی زبان اور زینت آرائی نہیں جو روایتی نعت میں عام طور پر پائی جاتی ہے بلکہ یہ ان کے جذبات قلبی کا فطری اور بے ساختہ اظہار ہے۔''

اصناف سخن میں اقبال نے مثنوی پر خاص توجہ دی ہے۔ فارسی میں ان کی بیشتر نظمیں مثنویاں ہیں۔ پروفیسر غلام رسول لکھتے ہیں ''اقبال کی مثنویاں ان کی شخصیت، نوع انسان کے مسائل کے ساتھ ان کی گہری دلچسپی اور ان مسائل سے عہدہ برا ہونے کے لیے ان کا پیغام، عالم اسلام کی زبوں حالی پر ان کی کڑھن اور ان کے احیائے نو کے لیے ان کی تڑپ کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں اور ان کی غزلیات اور رباعیات کی طرح غنائی حسن اور جاذبیت کی مملو ہیں۔ نظم کے میدان میں قبال نے اردو اور فارسی ادب کو اپنا سب سے گراں قدر عطیہ عنایت کیا ہے۔ ایک اعتبار سے ان کی مثنویاں بھی طویل نظمیں ہیں۔ اردو میں ان کی بہترین نظمیں تصویر درد، شمع اور شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، خضر راہ، طلوع اسلام، اور مسجد قرطبہ ہیں۔ ان کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کا غنائی حسن ہے۔ ان کا مطالعہ کرتے ہوئے اکثر گمان ہوتا ہے کہ قاری غزل سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔''

مصوری کے حوالے سے فن کے موضوع پر اقبال کے نظریے کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر غلام رسول کہتے ہیں کہ فن محض نقالی کا نام نہیں اس لیے یہ باہر سے موصول شدہ تاثرات کو جوں کا توں پیش کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک نوع کی باز آفرینی یا تخلیق نو ہے اور اس تخلیقی عمل میں فنکار کی ذات بہت ہی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اقبال کے خیال میں فن اظہار ذات کا نام ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''بندگی نامہ'' اس اعتبار سے اقبال کی اہم ترین منظومات میں سے ہے کہ اس میں فن اور مذہب کے متعلق ان کے خیالات بہت ہی جامعیت اور اختصار کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ خود اقبال کو اس نظم کی اہمیت کا احساس تھا چنانچہ ''مرقع چغتائی'' کے پیش لفظ میں انھوں نے فن کی حقیقت پر گفتگو کرتے ہوئے اس نظم کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں