PPP عزم قربانی اورجدوجہد کے 50 سال
بھٹو نے سیاست کو محلات سے نکال کر اس کو عوامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی۔
آج پاکستان کی اہم عوامی سیاسی پارٹی''پاکستان پیپلزپارٹی اپنا 50 واں یوم تاسیس منا رہی ہے۔ نصف صدی قبل پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور میں اپنے ہم خیال دوستوں اور رفقاء کے ساتھ مل کر 30نومبر1967ء کو پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تھی۔ پارٹی کے موجودہ چیئرمین بلاول بھٹو نے پورے سال کو ''گولڈن جوبلی'' کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔
ان 50 برسوں کے بعد پارٹی گولڈن جوبلی تو منا رہی ہے، لیکن پُلوں کے نیچے بہت پانی بہہ چکا ہے۔کئی ایسے واقعات رونما ہوچکے، جن کی یاد پاکستانی سماج کو آج بھی غم سے دوچارکرتی ہے۔ ان واقعات میں بنگلہ دیش بننے سے قبل دو مارشل لاء اور بعدکی دو اندوہناک آمریتیں، پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقارعلی بھٹوکا آمریت کے ہاتھوں عدالتی قتل، اسلامی دنیا کی پہلی منتخب وزیر اعظم بینظیر بھٹوکا سرعام، سرشام قتل،ان کے دو بھائیوں میرشاہنواز اور میرمرتضی بھٹوکا قتل، بسمل اور نیم بسمل جمہوری ادوار اور پرائی جنگ کو اپنی جنگ سمجھنا اور پھر اس سے جان نہ چھڑانے کا تہیہ کرنا، پاکستان کو بین الاقوامی جنگجوؤں کی آماجگاہ بنانا نیز پاکستانی سماج کو محتاج اور دست نگر سماج میں تبدیل ہونے جیسے واقعات اس پورے عرصے کے سب سے اہم اور سب سے زیادہ متاثر کرنے والے واقعات ہیں۔
بھٹو نے سیاست کو محلات سے نکال کر اس کو عوامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ یہ روایت شکنی ان کے قتل کا موجب بنی جس کے سہولت کار اس زمانے کے منصف تھے۔ بھٹو وقت کے حکمرانوں کے لیے ''نافرمان'' ثابت ہوئے تھے، جس کی وجہ سے وقت کے آمر حکمرانوں نے اس عمل کی سزا موت تجویزکی تھی۔ ایک جملے میں اگر کہا جائے تو '' بھٹو 1967ء میں عوامی سیاست میں آئے، دس برس میں ان کی عوامی سیاست کا تختہ الٹا دیا گیا اور اگلے دو برسوں 1979ء میں انھیں پھانسی دی گئی ۔ آج تک بھٹوکا قتل پاکستان کی گلیوں میں کراچی سے لے کر چترال تک انصاف کی بھیک مانگ رہا ہے۔
بھٹو نے سیاست میں آنے کے بعد بڑے بڑے بت،کھلاڑی و برج اُلٹ دیے۔ مغربی پاکستان کی 80 فیصد نسشتیں جیت کر صدیوں سے حکومتوں میں چھائے ہوئے عفریت کے بتوں کو پاش پاش کردیا ۔ ذوالفقار علی بھٹوتاریخ کا ایک نام ہے جنھوں نے ملک میں غریبوں اور عام آدمیوں کی قسمت ہی بدل دی۔انھوں نے انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا ۔ غریبوں،کچلے ہوئے انسانوں، مزدوروں، ہاریوں اور اس طرح کے طبقات کو معاشرے میں باعزت مقام دلانے اور سر اٹھا کر جینے کا ڈھنگ سکھایا۔
بھٹوکے سیاسی سفرکا باقاعدہ آغاز1957ء میں صدر اسکندر مرزاکے زمانے میں شروع ہوا جب انھیں پہلی دفعہ بیرون ملک جانے والے وفد میں شامل کیا گیا۔ وہ اس وفد کے سب سے کم عمر ممبرتھے لیکن انھوںنے وہاں انتہائی مدبرانہ اور متاثرکن تقریر کی جس سے تمام وفود کے اراکین بہت متاثر ہوئے۔ انھیں پہلی دفعہ وزرات صدر ایوب خان کے دور میں ملی جب انھیں وفاقی وزیر تجارت بنایا گیا، وہ ایوب کابینہ میں سب سے کم عمروزیر تھے۔ اس کے بعد انھیں وزیر معدنیات وقدرتی وسائل پھر ایندھن، بجلی و آبپاشی اور امورکشمیر کی وزرات دی گئی۔ ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ایوب خان نے انھیں وزیرخارجہ بنایا۔ جہاںانھوں نے ملک کے لیے بے پناہ و بے مثال خدمات انجام دیں۔ پاک چین دوستی کے حقیقی معمار بھٹو ہی ہیں۔انھوں نے چین اور اس کی کمیونسٹ پارٹی سے پاکستان کے لیے خصوصی تعلقات استوارکرائے،جس کے نتیجے میں آج بھی کہا جارہا ہے کہ پاک چین دوستی پہاڑوں سے بھی بلند ہے ۔ انھوں نے ملک کی خارجہ پالیسی کی ایک راہ متعین کی۔
1965 ء کی جنگ میں تاشقند میں روس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کے لیے مذاکرات کی میزبانی کی۔ پاکستانی وفد میں صدر ایوب خان کے ساتھ ذوالفقارعلی بھٹو وزیر خارجہ کی حیثیت سے تاشقند گئے تھے جب کہ بھار تی وفد کی سربراہی وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے کی۔ مذاکرات کے بعد جب معاہدہ تاشقند پر دستخط کاوقت آیا تو بھٹوکو اس کے نکات پر شدید اعتراضات تھے۔ جس پرانھوں نے نہ صر ف دستخط کی تقریب میں شرکت سے انکار کردیا بلکہ وزیر خارجہ کی حیثیت سے اُسی وقت استعفیٰ دے دیا۔اُن کا موقف اصولی تھا کہ ہم جنگ جیتے ہیں پھر ہم ہارے ہوؤں کی طرح کیوں معاہدہ کریں؟ وہ جس وقت ایئر پورٹ پر اترے تو انھیں توقعات سے کہیں بڑھ کر عوامی پذیرائی ملی۔ اس عوامی پذیرائی اور عوام کی محبت نے انھیں مجبورکردیا کہ و ہ سامراجی گماشتوں کے چنگل سے عوام کو آزاد کرائیں اور ملک کو تعمیروترقی اور کامیابیوں کے سفرپرگامزن کر دیں۔
ان حالات میں بھٹو نے ملک وقوم کو مایوسی کے گہرے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لیے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیااور اس کے قیام کے لیے 29نومبر1967ء کو لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کی رہاشگاہ پر نئی پارٹی کے قیام کے لیے دو روزہ اجلاس منعقد ہوا جس میںتقریبا 400 افراد نے شرکت کی جس کی صدارت بھٹو نے کی۔ پہلے روز کے اجلاس میں مختلف طبقات کی نمایندہ قیادت اور سرگرم رہنماؤں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
پیپلز پارٹی کا قیام 30 نومبر 1967ء کومنعقد ہونے والے تاسیسی اجلاس کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے اس تاسیسی اجلاس کے صرف 11 ماہ بعد اس ملک کی تاریخ کا پہلا اور اب تک کا سب سے بڑا انقلابی ریلا اٹھا۔ 6 نومبر 1968ء سے لے کر 25 مارچ 1969ء تک کے 139 دنوں میں عملی طور پر طاقت حکمران ایوانوں سے نکل کر گلیوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، کھیتوں اور فیکٹریوں میں امڈ آئی۔آج تقریباً نصف صدی بعد نہ صرف نئی نسل ان تاریخ ساز نظریات اور واقعات کی آگاہی سے محروم ہے بلکہ آج کی پیپلز پارٹی کا بھی شاید ہی کوئی لیڈر ایسا ہوگا جس نے پارٹی کی بنیادی دستاویزات کا مطالعہ کیا ہو۔
وہ منشور، جس نے 1968-69ء کا انقلاب جیت کر ذوالفقارعلی بھٹوکی جھولی میں ڈال دیا تھا، پارٹی ان ہی نکات پر عملدرآمد کرکے کامیابی حاصل کرسکتی ہے دوبارہ۔ آئین کا قانونی ڈھانچہ اگر حکمران طبقے کے مفادات کے لیے بنایا جائے تو ترقی کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ موجودہ انتخابی نظام ملکیت والے طبقات کو پارلیمان میں بالادستی دینے کا نہایت کارگر طریقہ ہے۔ الیکشن لڑنے کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی بھی غریب امیدوار برداشت نہیں کر سکتا جب تک اس کو امیر سرپرستوں کی پشت پناہی حاصل نہ ہو۔ پیپلز پارٹی سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچوں میں ایک انقلابی تبدیلی کا منصوبہ پیش کر رہی ہے۔
پیپلزپارٹی کو حکومت میں ہمیشہ بہت کم وقت ملاپھر جنھیں آگے کیا گیا ان کی غداریوں سے بھی پارٹی گھائل اور زخمی ہوئی۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ اس دردناک استحصال سے نجات کے لیے تڑپ رہا ہے۔ ظاہری طور پر سکوت اور جمود طاری ہے لیکن بغاوت اس معاشرے کی کوکھ میںلاوے کی طرح پنپ رہی ہے۔ کہرام زدہ ملک میں جبر و استحصال اور مسائل 1967ء کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں، زندگی کی تلخیاں کہیں زیادہ دردناک ہوگئی ہیں۔ اس کیفیت میں پارٹی کی تاسیسی دستاویزات کے پروگرام اورلائحہ عمل کی اہمیت آج کئی گنا بڑھ گئی ہے، پارٹیوں کے منشور بدل سکتے ہیں لیکن تاسیسی دستاویزات سے انحراف پارٹی کی موت بن جاتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ نوجوان قیادت بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں سے ان کی چھینی گئی روایت واپس لائے گی اوران میں ایک نئی انقلابی تحریک اور روح پھونکے گی جواس طبقاتی جنگ میں محنت کشوں کی فتح کا نیا سیاسی اوزار تراش لائے گی۔