شب بخیرموگابے صبح بخیر زمبابوے

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ہی موگابے کو زمبابوے کی معاشی ابتری بھی لے ڈوبی

HARIPUR:
وقت نہ تو ہمیشہ ایک سا رہتا ہے اور نہ ہی کسی ایک کا ہوکر رہتا ہے۔ یہ وقت کا چکر ہی تو ہے جو بڑوں بڑوں کو تگنی کا ناچ نچا دیتا ہے۔ وقت کے ستم کی سب سے تازہ مثال زمبابوے پر سینتیس سال حکومت کرنے والے رابرٹ موگابے کے زوال کی ہے۔ یہی سال تھا کہ جس کے آغاز میں بین الاقوامی امورکے ماہرین کی قیاس آرائیاں تھیں کہ موگابے شاید کبھی ریٹائر نہ ہوگا اور تا دم مرگ اقتدار پر قابض ہی رہے گا۔

یوں لگتا تھا کہ زمبابوے کی سیاست میں ایک گہرا گڑھا کھود کر موگابے صدارتی کرسی سمیت اس میں گڑ چکا ہے۔ لیکن اس کی سب سے بڑی غلطی یہی تو تھی کہ اس نے ظالم وقت کو اپنا رفیق سمجھ لیا۔ دیر سے ہی سہی، لیکن آخرکار عوام کے اندر پائی جانے والی بیزاری اور بیچینی نے وہ فضا تشکیل دے ہی دی کہ وقت موگابے کے لیے بے رحم بن گیا۔ یوں خود کو نیلسن منڈیلا اور ابراہام لنکن سمجھنے والے موگابے ایک بوجھ کی طرح سروں سے اتار پھینکا گیا۔ زمبابوے کے عوام سالہا سال سے اس خوف میں مبتلا تھے کہ اگرکبھی موگابے استعفیٰ دیدے یا ان کی وفات ہو جائے تو اس کا توکوئی سیاسی متبادل موجود ہی نہیں، اب وہی عوام اس کی معزولی کا جشن منا رہے ہیں۔

موگابے کا مشہور قول تھا کہ ''وہ واحد سفیدفام شخص جس پر آپ اعتبارکرسکتے ہیں وہ مرا ہوا سفید فام ہے'' اس پر عمل کرتے ہوئے اس نے اپنے پورے دورِحکومت میں زمبابوے میں رہنے والے سفید فام لوگوں کی زندگی اجیرن بنائے رکھی۔ ایسے اقدامات کیے جن سے نہ صرف سفید فاموں کا روزگار اور زندگیاں تباہ ہوگئیں بلکہ اکثریت ترکِ وطن پر مجبور ہوگئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ موگابے کے جرائم میں سرفہرست انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔

رابرٹ موگابے محض ایک حکمراں نہیں بلکہ زمبابوے کی پوری تاریخ ہے۔ وہ آزادی کا سپاہی تھا، جس نے برطانوی راج سے زمبابوے کو آزاد کروانے میں نمایاں کردار ادا کیا، اس کی قربانیوں کے صلے میں عوام نے اسے سر کا تاج بنا لیا۔ سینتیس سال حکومت کرنے والے موگابے کے زوال کی وجہ 1996ء کے بعد تسلسل سے پیش آنے والے واقعات بنے۔ غلط حکمتِ عملیوں کی وجہ سے اس نے اپنی ہی قربانیوں کو ضایع کردیا، اگر موگابے ایک خاص مدت پوری کرنے کے بعداقتدار سے الگ ہوجاتا تو یقینی طور پر ایک عزت دار مقام کا حامل ہوتا، لیکن اقتدار کی ہوس نے اس کو آج کہیں کا نہ چھوڑا۔ موگابے نے اس حقیقت سے آنکھیں پھیر لیں کہ زمبابوے میں آبادی کی اکثریت تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، جن کے سامنے اس کے بوڑھے خیالات زیادہ عرصے ٹک نہیں سکتے۔ نوجوانوں نے زمبابوے کی تقدیر موگابے کے بوڑھے ہاتھوں سے کھینچ لی یوں وہ زمین بوس ہوگیا۔

2016ء کا سال زمبابوے کی تاریخ میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اب عوام کا غصہ سڑکوں پر آکر مست ہاتھی کی طرح جھومنے لگا تھا۔ جس کے جواب میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں صحافیوں، دانشوروں، سول سوسائٹی کے اراکین، طلبا اور حزب اختلاف کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا جانے لگا تھا۔ موگابے نے جبر کی انتہا کردی اور دنیا نے وہ سیاہ دن بھی دیکھا جب زمبابوے کی سڑکوں پر ججوں کو مارا گیا۔ ان ججوں کا یہ قصور تھا کہ انھوں نے عوام کو حکومت کے خلاف مظاہروں کی اجازت دی تھی۔


ان مظاہروں میں سیکڑوں طلبا اور صحافیوں کو جیل میں ڈال دیا گیا، جس سے صدر موگابے کے خلاف پیدا ہونے والی نفرت میں مزید اضافہ ہوا۔ زمبابوے کا آئین اظہار رائے کی مکمل آزادی کے حق میں ہے لیکن مظاہروں کی رپورٹنگ کے جرم میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناکر موگابے نے ہر گز بھی دانشمندی کا ثبوت نہیں دیا۔ غرض ہر سطح پر انسانی حقوق کو پامال کیا گیا۔ پوری دنیا میں شور مچنے لگا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر ایک رپورٹ بنا کر پیش کی، جس کو موگابے نے جھوٹ کا پلندا قرار دے کر رد کردیا۔

افریقی ممالک میں موگابے کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، لیکن اس کے آمرانہ طرز حکومت سے تمام پڑوسی رفتہ رفتہ عاجز آگئے اور انھوں نے یہاں بڑھنے والے ہنگاموں اور مظاہروں کی طرف سے کان بند کر لیے۔ البتہ ان کی نظریں ہنوز خطے میں ہونے والی تبدیلیوں پر جمی ہوئی تھیں اور وہ سب زمبابوے کی قیادت میں تبدیلی کے متقاضی تھے۔ 2016ء میں ہی یورپ نے زمبابوے پر عائد اقتصادی پابندیاں مزید سخت کر دیں۔ ساتھ ہی موگابے پر بھی سفر پر پابندی لگا دی اور یہاں ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ یوں سو سال کی عمر تک حکمرانی کا دعوٰی کرنے والے موگابے کے لیے ایک ایک لمحہ گزارنا مشکل ہوگیا۔ موگابے کی اعلیٰ صلاحیتوں اور بہادری سے کسی کو انکار نہیں بہرحال وہ ایک آمر ہی نکلا جس نے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے پورا ملک اجاڑ دیا۔ آخری چند سال میں وہ عوامی حمایت سے یکسر محروم ہو چکا تھا اور اس کی بقا کا سارا انحصار سیکیورٹی فورسز پر تھا۔ اسی فوج نے اس کو آخری پٹخی بھی دے دی جو نائب صدرکے طور پر موگابے کی دوسری بیوی کو قبول کرنے کے لیے قطعاً تیار نہیں تھی ۔

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ہی موگابے کو زمبابوے کی معاشی ابتری بھی لے ڈوبی۔ وہ معیشت کے جدید اصولوں سے واقف تھا ہی نہیں۔ اسی لیے جلد ہی زمبابوے کی معیشت دنیا کی تیزی سے سکڑتی ہوئی معیشت میں تبدیل ہوگئی۔ سیاسی استحکام حاصل کرنے کی دُھن میں معیشت جیسے اہم میدان کو نظرانداز کرکے موگابے نے اپنی ہی مٹی کو دشمن بنا لیا۔ یہاں تک کہ زمبابوے کی اپنی کرنسی عملاً ختم ہی ہو گئی۔ حتیٰ کہ مظاہروں میں عوام نے ان بے مصرف نوٹوں کو آگ لگا دی۔

زمبابوے کے ساتھ چین کے تعلقات کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ زمبابوے کی معیشت کوکافی سنبھالا چین نے دیا اورکیوں نہ دیتا؟ برطانوی راج سے نجات پانے میں بھی چین ساتھ ساتھ ہی تو کھڑا تھا۔ یوں غیرمحسوس طریقے سے چین زمبابوے کے حساس ریاستی معاملات کا بھی حصہ بنا رہا۔ صدر موگابے کی ''لُک ایسٹ'' پالیسی کے بعد چین کی مارکیٹیں زمبابوے کے لیے کھل گئیں۔ ساتھ ہی چین نے بھی یہاں بھاری سرمایہ کاری کی، لیکن موگابے کی خراب معاشی اصلاحات کے باعث چین کی تمام کوششوں پر بار بار پانی پھر جاتا۔ لہٰذا یہ کہنا باعث تعجب ہر گز نہیں کہ دراصل چین بھی کافی عرصے سے زمبابوے میں قیادت کی تبدیلی کا خواہاں تھا۔ چین کی حمایت ہمیشہ سے مننگاوا کے ساتھ تھی جسے نائب صدر کے عہدے سے ہٹانے کا ارادہ موگابے ظاہر کر ہی چکے تھے، جو چین کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ موگابے کے استعفی سے ایک ہفتے قبل زمبابوے کے آرمی چیف کے دورۂ چین کو محض اتفاق کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟ ان ساری باریکیوں کو سمجھتے ہوئے موگابے کو الوداع کرنے پر نقاد اگر چین کے کردار پر انگلی اٹھاتے ہیں تو وہ ایسے غلط بھی نہیں۔

بہرحال اب زمبابوے میں آزاد اور شفاف انتخابات وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ آئین میں بھی ایسی تبدیلیاں کی جانی چاہییں کہ اب کوئی حکمراں طویل عرصے تک اقتدار پر قابض نہ رہ سکے۔ قیادت کی اس تبدیلی سے زمبابوے کے عوام سیاسی اور معاشی استحکام کے خواہاں ہیں۔''Uncle Bob'' سے نجات پا کر وہ پُرسکون ہیں، لیکن کیا ہی بہتر ہو گا کہ اب یہاں معاشی امداد کی خاطر ہم درد بن کر آنے والی اقوام کی مداخلت کا دروازہ بھی بند کر دیا جائے اور اپنے مستقبل کے تمام فیصلے زمبابوے کے تعلیم یافتہ اور ہنرمند باشندے خود ہی کریں اورکیا ہی اچھا ہو کہ دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک بھی زمبابوے کی مثال سامنے رکھتے ہوئے غیر اقوام کی مداخلت کے حوالے سے اپنی حکمت عملیوں پر نظرِثانی کرلیں۔
Load Next Story