کس کو کہہ رہے ہو
ایک جملے میں جو دعویٰ کرتے ہیں ، اگلے ہی جملے میں خود اُسکی تردید بھی کر دیتے ہیں ۔
دیہی علاقوں میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے،ایک وڈیرے نے عوام کو بتایا کہ وہ کس طرح اِن ووٹروں کی غُربت پر خون کے آنسو روتے ہیں اور اِن کے مسائل حل کرنے کے لیے اسمبلی کے اندر اور اسمبلی کے باہر پاؤں جلی بلّی کی طرح کیسے بے چین پھرتے ہیں۔اپنے سیکریٹری کی لکھی ہوئی اِس تقریر کو پڑھنے کے دوران اُن کے کارکن نے اُن کے کان میں سرگوشی کرکے اُنھیں بتایا کہ اُن کے حریف وڈیرے نے اپنے انتخابی جلسے میں اُنھیں پرلے درجے کا جھوٹا اور مغرور انسان قرار دیا ہے ۔ یہ سُنتے ہی وہ غصے سے آگ بگولہ ہوگئے ۔
جوابی طور پر اُنھوں نے اپنے حریف کے باپ دادا کو بھی دروغ گو قرار دے کر اپنے دِل کی بھڑاس نکالی لیکن خود کو مغرور کہنے کا اُنھوں نے نہایت بُرا منایا اور ووٹروں سے خطاب کرتے ہوئے بولے '' میرے بھائیوں تم ہی بتاؤ اگر میں مغرور ہوتا تو آج یہاں کھڑے ہو کر تم جیسے دو دو ٹکے کے لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہوتا ؟'' اب چونکہ انتخابی موسم شروع ہوا چاہتا ہے، لہٰذا اِس طرح کے انتخابی لطائف اور شہری و دیہی اُمیدواروں کی بوکھلاہٹیں روزانہ ہی میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آنا شروع ہوجائیں گی بلکہ شروع ہو چکی ہیں ۔
سیاستدان حسبِ سابق عوام کو بے وقوف اور کمزور یاداشت کا مالک سمجھ کر جھوٹ بولنے کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ رہے ہیں لیکن نہ جانے کیوں اِس مرتبہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سیاستدان تو عوام کو بے وقوف سمجھ ہی رہے ہیں لیکن عوام بھی اِس مرتبہ اُن کے بارے میں وہی خیالات رکھتے ہیں ،جو سیاستدان عوام کے بارے میں رکھتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ پچھلے 5 برس میں میڈیا نے عوام کا سیاسی شعور اتنا بلند کر دیا ہے کہ انتخابی نتائج حیران کُن ہوسکتے ہیں ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اِ س مرتبہ ووٹر بریانی کسی ایک اُمید وار کی کھائے ، ٹرانسپورٹ کسی دوسرے اُمیدوار کی استعمال کرے ، پولنگ بوتھ اور ووٹ نمبر کی پرچی کسی تیسرے اُمیدوار کے انتخابی کیمپ سے حاصل کرے اور بیلٹ پیپر پر مُہر کسی چوتھے اُمیدوار کے انتخابی نشان پر لگا دیے یعنی اِس بات کا قوی امکان ہے کہ اِس الیکشن میں ووٹر ، بجائے خود بے وقوف بننے کے انتخابی اُمیدواروںاور سیاسی جماعتوں کو ہی نہ بے وقوف بنا دے کیونکہ اجتماعی دانش کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتی ہے ۔
اگر عوام کو آزادانہ اپنی رائے کے اظہار کا موقعہ ملا ، جیسا کہ نظر بھی آرہا ہے تو انشا اللہ سیاسی نتائج سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئیوں کے برعکس بھی نکل سکتے ہیں ۔ جیسا کہ 70 ء کے انتخابات میں ہوا تھا ۔ 70 ء کے انتخابات کو ہماری تاریخ کے منصفانہ ترین انتخابات تسلیم کیا جاتا ہے ۔ جو اِس اُمید پر منصفانہ کروائے گئے تھے کہ اِس کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی لیکن نتائج اِس کے کچھ اور ہی نکلے ۔ اجتماعی دانش کا فیصلہ ہرگز غلط نہ تھا لیکن اِن نتائج کو تسلیم نہ کر کے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کی گئی جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے ۔
بات ہو رہی تھی سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں اور دعوؤں کی جو وہ ہر انتخابی موسم میں بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں لیکن اِس مرتبہ تو اِن کی بوکھلاہٹیں عروج پر ہیں ایک جملے میں جو دعویٰ کرتے ہیں ، اگلے ہی جملے میں خود اُسکی تردید بھی کر دیتے ہیں مثلاً صدر صاحب نے گزشتہ روز فرمایا '' غیرسیاسی صدر ہوں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ہماری دشمن رہی ہے اور ہمیشہ ہمارے خلاف سازشیں کرتی رہی ہے '' اُن کے کہنے کا مطلب تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ پی پی پی کی مخالف رہی ہے اور پی پی پی کے خلاف سازشیں کرتی رہی ہے جس کے وہ شریک چیرمین ہیں لیکن وہ تو کہہ رہے ہیں کہ غیر سیاسی صدر ہوں ؟ سب سیاستدان تو مستقبل کے بارے میں جھوٹے سچّے دعوے کرتے ہیں کہ یہ کردینگے ، وہ کردینگے ۔ میاں صاحب اپنی جماعت کا منشور پیش کرتے ہوئے ، اپنے ماضی کے کارنامے گنوا رہے تھے ۔
اِس دوران وہ شاید یہ بھول گئے کہ جس سروے ٹیم نے یا آرگنائزیشن نے اُنھیں اِس وقت ملک کا مقبول ترین لیڈر قرار دیا ہے ۔ جس پر وہ خود اور اِن کی جماعت ابھی تک بغلیں بجا رہی ہے ۔ اُسی آرگنائزیشن نے اکتوبر 99 ء کے ایک سروے میں بتایا تھا کہ ملک کے 75 فیصد عوام کی یہ خواہش تھی کہ میاں صاحب کو اقتدار سے بے دخل کردیا جائے یہ سروے ریکارڈ پر موجود ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل مشرف کے خلاف اور میاں صاحب کے حق میں اُس وقت ایک آواز بھی نہ اُٹھی ۔
جس کا مطلب ہے کہ یہ سروے بھی دُرست تھا ۔ اور اگر دُرست تھا تو میاں صاحب آج جس شاندار ماضی کے گیت گا رہے ہیں اور ماضی کے جو کارنامے گنوا رہے ہیں ، عوام اِس سروے کی موجودگی میںکیا رائے قائم کرینگے ؟ ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد فارن کرنسی اکاؤنٹ منجمد کرنیکا فیصلہ اور فیصلے کے اعلان سے قبل ، خبر لیک ہوجانے کے باعث حکومتی پیاروں کا بھاری تعداد میں ، راتوں رات اپنے کھاتوں سے لاکھوں ڈالر نکال لینے کے واقعے کا اُنھوں نے اپنے دورِ حکومت کے '' کارناموں '' میں کوئی ذکر نہیں کیا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن کے اُس وقت کے وزیرِ خزانہ ن لیگ کے منشور کے اعلان کی تقریب میں ، میاں صاحب کے دائیں ہاتھ پر ہی بیٹھے ہوئے تھے جو اِس بات کا بالواسطہ اعلان تھا کہ میاں صاحب اگر اگلی حکومت بناتے ہیں تو اُن کے وزیرِ خزانہ وہی ہونگے ۔ اِدھر پانچ سال پی پی پی کی اتحادی رہنے کے بعد اچانک اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جانے والی متحدہ نے سانحہِ عباس ٹاؤن کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے تین روز کی خطرناک اور سنسنی خیز ڈیڈ لائن دی۔ عدمِ گرفتاری کی صورت میں بطور احتجاج پورا کراچی بند کرنے کی دھمکی دی گئی ۔
تین روز کے بعد رابطہ کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا جو حسبِ معمول طویل تھا عوام آیندہ کے تاریخی '' لائحہ عمل'' کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے کہ اعلان سے قبل ہی یہ '' لائحہ عمل '' لیک ہوکر امن کمیٹی والوں کے ہتھے چڑھ گیا ۔ اور امن کمیٹی کے دہشت گردوں نے متحدہ سے دلچسپ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے پورے شہر میں فائرنگ کر کے دس منٹ کے اندر اندر کراچی کی ٹرانسپورٹ اور دکانیں بند کروا دیں ۔ متحدہ کے ووٹرز خاص طور پر خواتین ٹرانسپورٹ نہ ملنے کے باعث پیدل چل کر رات گئے اپنے گھروں کو واپس پہنچیں ۔ کاروبار بند رکھنے کی یہ پُر امن اور جمہوری اپیل غیر معیّنہ مدت تک کے لیے تھی لیکن جب چیمبر آف کامرس اور انجمنِ تاجران نے '' آنکھیں دکھائیں'' عوام کا غصہ بے قابو ہوا جارہا تھا۔ تو یہ پُر امن اور جمہوری اپیل چند گھنٹوں کے بعد واپس لے لی گئی ۔ یہ یو ٹرن بھی تاریخی تھا۔
کراچی میں تو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے کاروبار اور دکانیںبند کروادیں لیکن یہ امن کمیٹی والے اتنی سرعت کے ساتھ حیدرآباد،میر پورخاص، نواب شاہ اور سکھر کیسے پہنچ گئے ؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ بہرحال جنھیں یہ میسیج پہنچانا مقصود تھا کہ کراچی شہر کی چابی کس کے پاس ہے اور اِس کا تالا کتنی جلدی کھولا اور بند کیا جاسکتا ہے ،وہ پہنچ گیا۔ آخر میڈیا والے عوام کو کب تک آدھا سچ بتاتے رہیں گے اور تمام کارروائیوں کا بوجھ '' نا معلوم افراد'' کے کاندھوں پر ڈالتے رہیں گے ؟ پی ٹی وی کے ایک یادگار ڈراما سیریل میں معروف اداکار عابد کاشمیری کا تکیہِ کلام یہ تھا کہ '' کس کو کہہ رہے ہو ؟'' عابد کاشمیری اپنے مخصوص انداز میں جب یہ ڈائیلاگ ادا کرتا تھا تو ناظرین بہت لُطف اندوز ہوتے تھے ۔ رضا ہارون صاحب کی خدمت میں عرض ہے'' ہارون صاحب ! لائحہ عمل کے اعلان سے قبل ہی لائحہ عمل پر عمل درآمد شروع ہوجانے کی وجوہات ، جو متحدہ نے پیش کی ہیں اُس کے جواب میں ہم یہی عرض کریں گے کہ ''کس کو کہہ رہے ہو ۔''
جوابی طور پر اُنھوں نے اپنے حریف کے باپ دادا کو بھی دروغ گو قرار دے کر اپنے دِل کی بھڑاس نکالی لیکن خود کو مغرور کہنے کا اُنھوں نے نہایت بُرا منایا اور ووٹروں سے خطاب کرتے ہوئے بولے '' میرے بھائیوں تم ہی بتاؤ اگر میں مغرور ہوتا تو آج یہاں کھڑے ہو کر تم جیسے دو دو ٹکے کے لوگوں کے سامنے تقریر کر رہا ہوتا ؟'' اب چونکہ انتخابی موسم شروع ہوا چاہتا ہے، لہٰذا اِس طرح کے انتخابی لطائف اور شہری و دیہی اُمیدواروں کی بوکھلاہٹیں روزانہ ہی میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آنا شروع ہوجائیں گی بلکہ شروع ہو چکی ہیں ۔
سیاستدان حسبِ سابق عوام کو بے وقوف اور کمزور یاداشت کا مالک سمجھ کر جھوٹ بولنے کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑ رہے ہیں لیکن نہ جانے کیوں اِس مرتبہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سیاستدان تو عوام کو بے وقوف سمجھ ہی رہے ہیں لیکن عوام بھی اِس مرتبہ اُن کے بارے میں وہی خیالات رکھتے ہیں ،جو سیاستدان عوام کے بارے میں رکھتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ پچھلے 5 برس میں میڈیا نے عوام کا سیاسی شعور اتنا بلند کر دیا ہے کہ انتخابی نتائج حیران کُن ہوسکتے ہیں ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اِ س مرتبہ ووٹر بریانی کسی ایک اُمید وار کی کھائے ، ٹرانسپورٹ کسی دوسرے اُمیدوار کی استعمال کرے ، پولنگ بوتھ اور ووٹ نمبر کی پرچی کسی تیسرے اُمیدوار کے انتخابی کیمپ سے حاصل کرے اور بیلٹ پیپر پر مُہر کسی چوتھے اُمیدوار کے انتخابی نشان پر لگا دیے یعنی اِس بات کا قوی امکان ہے کہ اِس الیکشن میں ووٹر ، بجائے خود بے وقوف بننے کے انتخابی اُمیدواروںاور سیاسی جماعتوں کو ہی نہ بے وقوف بنا دے کیونکہ اجتماعی دانش کبھی غلط فیصلہ نہیں کرتی ہے ۔
اگر عوام کو آزادانہ اپنی رائے کے اظہار کا موقعہ ملا ، جیسا کہ نظر بھی آرہا ہے تو انشا اللہ سیاسی نتائج سیاسی پنڈتوں کی پیش گوئیوں کے برعکس بھی نکل سکتے ہیں ۔ جیسا کہ 70 ء کے انتخابات میں ہوا تھا ۔ 70 ء کے انتخابات کو ہماری تاریخ کے منصفانہ ترین انتخابات تسلیم کیا جاتا ہے ۔ جو اِس اُمید پر منصفانہ کروائے گئے تھے کہ اِس کے نتیجے میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئے گی لیکن نتائج اِس کے کچھ اور ہی نکلے ۔ اجتماعی دانش کا فیصلہ ہرگز غلط نہ تھا لیکن اِن نتائج کو تسلیم نہ کر کے ملکی تاریخ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی کی گئی جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہے ۔
بات ہو رہی تھی سیاستدانوں کے جھوٹے وعدوں اور دعوؤں کی جو وہ ہر انتخابی موسم میں بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں لیکن اِس مرتبہ تو اِن کی بوکھلاہٹیں عروج پر ہیں ایک جملے میں جو دعویٰ کرتے ہیں ، اگلے ہی جملے میں خود اُسکی تردید بھی کر دیتے ہیں مثلاً صدر صاحب نے گزشتہ روز فرمایا '' غیرسیاسی صدر ہوں اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ہماری دشمن رہی ہے اور ہمیشہ ہمارے خلاف سازشیں کرتی رہی ہے '' اُن کے کہنے کا مطلب تھا کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ پی پی پی کی مخالف رہی ہے اور پی پی پی کے خلاف سازشیں کرتی رہی ہے جس کے وہ شریک چیرمین ہیں لیکن وہ تو کہہ رہے ہیں کہ غیر سیاسی صدر ہوں ؟ سب سیاستدان تو مستقبل کے بارے میں جھوٹے سچّے دعوے کرتے ہیں کہ یہ کردینگے ، وہ کردینگے ۔ میاں صاحب اپنی جماعت کا منشور پیش کرتے ہوئے ، اپنے ماضی کے کارنامے گنوا رہے تھے ۔
اِس دوران وہ شاید یہ بھول گئے کہ جس سروے ٹیم نے یا آرگنائزیشن نے اُنھیں اِس وقت ملک کا مقبول ترین لیڈر قرار دیا ہے ۔ جس پر وہ خود اور اِن کی جماعت ابھی تک بغلیں بجا رہی ہے ۔ اُسی آرگنائزیشن نے اکتوبر 99 ء کے ایک سروے میں بتایا تھا کہ ملک کے 75 فیصد عوام کی یہ خواہش تھی کہ میاں صاحب کو اقتدار سے بے دخل کردیا جائے یہ سروے ریکارڈ پر موجود ہے ۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل مشرف کے خلاف اور میاں صاحب کے حق میں اُس وقت ایک آواز بھی نہ اُٹھی ۔
جس کا مطلب ہے کہ یہ سروے بھی دُرست تھا ۔ اور اگر دُرست تھا تو میاں صاحب آج جس شاندار ماضی کے گیت گا رہے ہیں اور ماضی کے جو کارنامے گنوا رہے ہیں ، عوام اِس سروے کی موجودگی میںکیا رائے قائم کرینگے ؟ ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد فارن کرنسی اکاؤنٹ منجمد کرنیکا فیصلہ اور فیصلے کے اعلان سے قبل ، خبر لیک ہوجانے کے باعث حکومتی پیاروں کا بھاری تعداد میں ، راتوں رات اپنے کھاتوں سے لاکھوں ڈالر نکال لینے کے واقعے کا اُنھوں نے اپنے دورِ حکومت کے '' کارناموں '' میں کوئی ذکر نہیں کیا ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اُن کے اُس وقت کے وزیرِ خزانہ ن لیگ کے منشور کے اعلان کی تقریب میں ، میاں صاحب کے دائیں ہاتھ پر ہی بیٹھے ہوئے تھے جو اِس بات کا بالواسطہ اعلان تھا کہ میاں صاحب اگر اگلی حکومت بناتے ہیں تو اُن کے وزیرِ خزانہ وہی ہونگے ۔ اِدھر پانچ سال پی پی پی کی اتحادی رہنے کے بعد اچانک اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جانے والی متحدہ نے سانحہِ عباس ٹاؤن کے ملزمان کی گرفتاری کے لیے تین روز کی خطرناک اور سنسنی خیز ڈیڈ لائن دی۔ عدمِ گرفتاری کی صورت میں بطور احتجاج پورا کراچی بند کرنے کی دھمکی دی گئی ۔
تین روز کے بعد رابطہ کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا جو حسبِ معمول طویل تھا عوام آیندہ کے تاریخی '' لائحہ عمل'' کے اعلان کا انتظار کر رہے تھے کہ اعلان سے قبل ہی یہ '' لائحہ عمل '' لیک ہوکر امن کمیٹی والوں کے ہتھے چڑھ گیا ۔ اور امن کمیٹی کے دہشت گردوں نے متحدہ سے دلچسپ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے پورے شہر میں فائرنگ کر کے دس منٹ کے اندر اندر کراچی کی ٹرانسپورٹ اور دکانیں بند کروا دیں ۔ متحدہ کے ووٹرز خاص طور پر خواتین ٹرانسپورٹ نہ ملنے کے باعث پیدل چل کر رات گئے اپنے گھروں کو واپس پہنچیں ۔ کاروبار بند رکھنے کی یہ پُر امن اور جمہوری اپیل غیر معیّنہ مدت تک کے لیے تھی لیکن جب چیمبر آف کامرس اور انجمنِ تاجران نے '' آنکھیں دکھائیں'' عوام کا غصہ بے قابو ہوا جارہا تھا۔ تو یہ پُر امن اور جمہوری اپیل چند گھنٹوں کے بعد واپس لے لی گئی ۔ یہ یو ٹرن بھی تاریخی تھا۔
کراچی میں تو دہشت گردوں نے فائرنگ کر کے کاروبار اور دکانیںبند کروادیں لیکن یہ امن کمیٹی والے اتنی سرعت کے ساتھ حیدرآباد،میر پورخاص، نواب شاہ اور سکھر کیسے پہنچ گئے ؟ یہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔ بہرحال جنھیں یہ میسیج پہنچانا مقصود تھا کہ کراچی شہر کی چابی کس کے پاس ہے اور اِس کا تالا کتنی جلدی کھولا اور بند کیا جاسکتا ہے ،وہ پہنچ گیا۔ آخر میڈیا والے عوام کو کب تک آدھا سچ بتاتے رہیں گے اور تمام کارروائیوں کا بوجھ '' نا معلوم افراد'' کے کاندھوں پر ڈالتے رہیں گے ؟ پی ٹی وی کے ایک یادگار ڈراما سیریل میں معروف اداکار عابد کاشمیری کا تکیہِ کلام یہ تھا کہ '' کس کو کہہ رہے ہو ؟'' عابد کاشمیری اپنے مخصوص انداز میں جب یہ ڈائیلاگ ادا کرتا تھا تو ناظرین بہت لُطف اندوز ہوتے تھے ۔ رضا ہارون صاحب کی خدمت میں عرض ہے'' ہارون صاحب ! لائحہ عمل کے اعلان سے قبل ہی لائحہ عمل پر عمل درآمد شروع ہوجانے کی وجوہات ، جو متحدہ نے پیش کی ہیں اُس کے جواب میں ہم یہی عرض کریں گے کہ ''کس کو کہہ رہے ہو ۔''