بنگلہ دیش میں محب وطن افراد پر مقدمہ
پاک وطن کی مسلح افواج نے غداروں اور تخریب کاروں کا صفایا کرکے وہاں امن وامان بحال کرلیا تھا۔
ایک بین الاقوامی سازش کے تحت پاکستان کے 1000 میل دور واقع مشرقی بارڈر کوکاٹ کر16دسمبرکو1971کو بنگلہ دیش بنادیاگیا۔ اس سازش میں امریکا کی حمایت سے سوویت یونین نے انڈیا کو اسلحہ فراہم کیا اور انڈیا نے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرکے نسلی اور لسانی عصبیتوں کو ابھارکر وہاں کے عوام کو گمراہ کرنے کے بین الاقوامی جرم کا ارتکاب کیا۔
اس سازش میں اس وقت وطن عزیز پر مسلط نااہل حکمران کے تحت ''ادھر تم ادھر ہم''جیسے نعرے لگانے والے مفاد پرست سیاست دانوں کا بھی کم حصہ نہیں ہے۔ انڈیا نے بنگالی عصبیت میں مبتلا افرادکو تخریب کاری کی ٹریننگ دی۔ ان تخریب کاروں اور اپنے فوجیوں کو بھیس بدلاکرمشرقی پاکستان میں داخل کرکے امن وامان کی صورتحال کو خراب کیا۔ حکومت پاکستان نے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے بنگالی انتہا پسندوں اور تخریب کاروں کے خلاف جائز ایکشن لیا اور وہاں کے محب وطن عوام نے اپنی جائز حکومت اور مسلح افواج کا ساتھ دیکر اپنا فرض ادا کیا۔
پاک وطن کی مسلح افواج نے غداروں اور تخریب کاروں کا صفایا کرکے وہاں امن وامان بحال کرلیا تھا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے اصول ومقاصد کا منہ چڑاتے ہوئے ہندوستان کی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کرکے جنگ چھیڑدی۔ جس پر ہماری افواج نے بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا مگر نا اہل حکمران جرنیل نے ہمت ہار دی اور بالآخر ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح وہاں بنگلہ دیش قائم ہوگیا۔مشرقی پاکستان کا یہ صوبہ عوام کی حمایت سے نہیں بلکہ ہندوستان کی فوج کشی سے الگ ہوا۔
16دسمبر1971سے پہلے موجودہ بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا اور پاکستان کا حصہ تھا جس کی حفاظت میں سیاسی جماعتوں مسلم لیگ، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی سے وابستہ اور سول سوسائٹی کے دیگر کروڑوں افراد نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت اپنی جائز حکومت اور اپنی مسلح افواج کا ساتھ دیا۔ ان کا یہ اقدام ہر طرح سے قانونی اور جائز تھا لیکن جن لوگوں نے شرپسندی اور تخریب کاری کی وارداتیں کیں وہاں کے نظم ونسق کو خراب کیا، پاکستان کے حامیوں پر تشدد کیا، اغواء کیا اور قتل عام کیا ،ان کی جائیدادوں کو تباہ وبرباد کیا اور لوٹا۔ عوام کی غالب اکثریت پر دہشتگردی مسلط کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں حصہ لیا۔ ان پر جنگی جرائم کے تحت غداری کے مقدمے قائم ہونے چاہئیں جس میں شیخ حسینہ واجد اور اس کے دوسرے ساتھی بھی آتے ہیں۔
لیکن پرانے واقعات کو بھلاکر قوم میں یکجہتی قائم کرنے کی بجائے اب 42سال بعد عوامی لیگ کی نالائق اور کم ذہن حکومت نے محب وطن سابقہ پاکستانیوں اور موجودہ بنگالیوں پر غداری کے مقدمے قائم کرنے شروع کردیے ہیں۔آخر حکومت کو پرانے گڑھے مردے اکھاڑنے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ اس سلسلے میں نہایت ہی نیک، پاکباز، دیندار اور شریف مسلمانوں کی پارٹی جماعت اسلامی(بنگلہ دیش) کا انتخاب کیا اور اپنے ہندوستانی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کا سلسلہ شروع کردیا۔
ہاں اگر ان افراد نے 16 دسمبر 1971 کے بعد بنگلہ دیش یا وہاں کی حکومت کے خلاف کچھ کیا ہوتا تو ٹھیک تھا،16دسمبر سے پہلے ان کی محب وطن سرگرمیوں کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا لیکن وہاں عوامی لیگ کی متعصب حکومت نے غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی طور پر ''جماعت اسلامی''کے رہنماؤں کے خلاف ایک نام نہاد ٹریبونل میں جنگی جرائم کے تحت غداری کے مقدمات قائم کیے ہیں، ان میں سے جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عبدالقادر ملاکوعمر قید کی سزا ہوئی، سابق ممبر پارلیمنٹ ابوالکلام آزاد کو غیر حاضری میں سزائے موت سنائی اور اب اسی جماعت کے ہر دلعزیز مفسر، مبلغ اسلام رہنما دلاور حسین سعیدی کو بھی موت کی سزا سنائی ہے۔ یہ سزائیں سراسر غلط ہیں اور ملکی اور بین الاقوانین قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بنگلہ دیش کی اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء نے کہا ہے کہ حکومت اپنے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنارہی ہے اور موجودہ حکمران پارٹی کے اتحادی حسین محمد ارشاد نے بھی اسی ٹریبونل کی کارروائی کو جانبدار اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف قرار دیا ہے بین الاقوامی قوانین کے ماہرین اور حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی ان سزاؤں کو عدل وانصاف کا قتل قرار دیا ہے۔
ان سزاؤں کے خلاف بنگلہ دیش کے طول وعرض میں پر تشدد احتجاج ہو رہا ہے،لوگ روزانہ احتجاجی جلسے جلوس اور ہڑتالیں کررہے ہیں، پولیس کی شیلنگ اور فائرنگ سے 100 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں، مظاہرین نے حملے کرکے کئی تھانے اور سرکاری دفاتر جلادیے ہیں، یہ سلسلہ کئی دن سے جاری ہے اور ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا، ایسا لگتاہے کہ حسینہ واجد کی عوامی لیگی حکومت نے ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے، اس سے بھی صاف ظاہر ہوتاہے کہ یہ مقدمات جعلی ہیں، عوامی جذبات،امنگوں، آرزوؤں اورآدرشوں کے خلاف ہیں، اس لیے ان مقدمات کو فی الفور ختم کرکے ملک میں امن وامان قائم کیاجائے، اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس کی تنظیم، اسلامی ممالک، حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں، بین الاقوامی آزاد میڈیا کو اس صورتحال کے پیش نظر مداخلت کرنی چاہیے اور حکومت بنگلہ دیش کو ان سزاؤں پر عمل درآمد کرنے سے باز رکھنا چاہیے۔
اس سازش میں اس وقت وطن عزیز پر مسلط نااہل حکمران کے تحت ''ادھر تم ادھر ہم''جیسے نعرے لگانے والے مفاد پرست سیاست دانوں کا بھی کم حصہ نہیں ہے۔ انڈیا نے بنگالی عصبیت میں مبتلا افرادکو تخریب کاری کی ٹریننگ دی۔ ان تخریب کاروں اور اپنے فوجیوں کو بھیس بدلاکرمشرقی پاکستان میں داخل کرکے امن وامان کی صورتحال کو خراب کیا۔ حکومت پاکستان نے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے بنگالی انتہا پسندوں اور تخریب کاروں کے خلاف جائز ایکشن لیا اور وہاں کے محب وطن عوام نے اپنی جائز حکومت اور مسلح افواج کا ساتھ دیکر اپنا فرض ادا کیا۔
پاک وطن کی مسلح افواج نے غداروں اور تخریب کاروں کا صفایا کرکے وہاں امن وامان بحال کرلیا تھا کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے اصول ومقاصد کا منہ چڑاتے ہوئے ہندوستان کی افواج نے مشرقی پاکستان پر حملہ کرکے جنگ چھیڑدی۔ جس پر ہماری افواج نے بہادری سے دشمن کا مقابلہ کیا مگر نا اہل حکمران جرنیل نے ہمت ہار دی اور بالآخر ہتھیار ڈال دیے اور اس طرح وہاں بنگلہ دیش قائم ہوگیا۔مشرقی پاکستان کا یہ صوبہ عوام کی حمایت سے نہیں بلکہ ہندوستان کی فوج کشی سے الگ ہوا۔
16دسمبر1971سے پہلے موجودہ بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا اور پاکستان کا حصہ تھا جس کی حفاظت میں سیاسی جماعتوں مسلم لیگ، جماعت اسلامی، نظام اسلام پارٹی سے وابستہ اور سول سوسائٹی کے دیگر کروڑوں افراد نے حب الوطنی کے جذبے کے تحت اپنی جائز حکومت اور اپنی مسلح افواج کا ساتھ دیا۔ ان کا یہ اقدام ہر طرح سے قانونی اور جائز تھا لیکن جن لوگوں نے شرپسندی اور تخریب کاری کی وارداتیں کیں وہاں کے نظم ونسق کو خراب کیا، پاکستان کے حامیوں پر تشدد کیا، اغواء کیا اور قتل عام کیا ،ان کی جائیدادوں کو تباہ وبرباد کیا اور لوٹا۔ عوام کی غالب اکثریت پر دہشتگردی مسلط کرکے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں حصہ لیا۔ ان پر جنگی جرائم کے تحت غداری کے مقدمے قائم ہونے چاہئیں جس میں شیخ حسینہ واجد اور اس کے دوسرے ساتھی بھی آتے ہیں۔
لیکن پرانے واقعات کو بھلاکر قوم میں یکجہتی قائم کرنے کی بجائے اب 42سال بعد عوامی لیگ کی نالائق اور کم ذہن حکومت نے محب وطن سابقہ پاکستانیوں اور موجودہ بنگالیوں پر غداری کے مقدمے قائم کرنے شروع کردیے ہیں۔آخر حکومت کو پرانے گڑھے مردے اکھاڑنے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ اس سلسلے میں نہایت ہی نیک، پاکباز، دیندار اور شریف مسلمانوں کی پارٹی جماعت اسلامی(بنگلہ دیش) کا انتخاب کیا اور اپنے ہندوستانی آقاؤں کو خوش کرنے کی کوشش کا سلسلہ شروع کردیا۔
ہاں اگر ان افراد نے 16 دسمبر 1971 کے بعد بنگلہ دیش یا وہاں کی حکومت کے خلاف کچھ کیا ہوتا تو ٹھیک تھا،16دسمبر سے پہلے ان کی محب وطن سرگرمیوں کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا لیکن وہاں عوامی لیگ کی متعصب حکومت نے غیر انسانی، غیر اخلاقی اور غیر قانونی طور پر ''جماعت اسلامی''کے رہنماؤں کے خلاف ایک نام نہاد ٹریبونل میں جنگی جرائم کے تحت غداری کے مقدمات قائم کیے ہیں، ان میں سے جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عبدالقادر ملاکوعمر قید کی سزا ہوئی، سابق ممبر پارلیمنٹ ابوالکلام آزاد کو غیر حاضری میں سزائے موت سنائی اور اب اسی جماعت کے ہر دلعزیز مفسر، مبلغ اسلام رہنما دلاور حسین سعیدی کو بھی موت کی سزا سنائی ہے۔ یہ سزائیں سراسر غلط ہیں اور ملکی اور بین الاقوانین قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
بنگلہ دیش کی اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء نے کہا ہے کہ حکومت اپنے مخالفین کو انتقام کا نشانہ بنارہی ہے اور موجودہ حکمران پارٹی کے اتحادی حسین محمد ارشاد نے بھی اسی ٹریبونل کی کارروائی کو جانبدار اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف قرار دیا ہے بین الاقوامی قوانین کے ماہرین اور حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی ان سزاؤں کو عدل وانصاف کا قتل قرار دیا ہے۔
ان سزاؤں کے خلاف بنگلہ دیش کے طول وعرض میں پر تشدد احتجاج ہو رہا ہے،لوگ روزانہ احتجاجی جلسے جلوس اور ہڑتالیں کررہے ہیں، پولیس کی شیلنگ اور فائرنگ سے 100 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں، مظاہرین نے حملے کرکے کئی تھانے اور سرکاری دفاتر جلادیے ہیں، یہ سلسلہ کئی دن سے جاری ہے اور ابھی تک تھمنے کا نام نہیں لے رہا، ایسا لگتاہے کہ حسینہ واجد کی عوامی لیگی حکومت نے ملک کو خانہ جنگی کے دہانے پر دھکیل دیا ہے، اس سے بھی صاف ظاہر ہوتاہے کہ یہ مقدمات جعلی ہیں، عوامی جذبات،امنگوں، آرزوؤں اورآدرشوں کے خلاف ہیں، اس لیے ان مقدمات کو فی الفور ختم کرکے ملک میں امن وامان قائم کیاجائے، اقوام متحدہ، اسلامی کانفرنس کی تنظیم، اسلامی ممالک، حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیموں، بین الاقوامی آزاد میڈیا کو اس صورتحال کے پیش نظر مداخلت کرنی چاہیے اور حکومت بنگلہ دیش کو ان سزاؤں پر عمل درآمد کرنے سے باز رکھنا چاہیے۔