سونامی اورجاپان
یہاں جاپانی قوم کی ہمت اور حالات سے نمٹنے کی صلاحیت کاذکرنہ کرنا ناانصافی ہوگی۔
جاپان کے مشرقی علاقوں میں آنیوالے سب سے بڑے زلزلے اور سونامی کو پورے دو سال مکمل ہورہے ہیں ۔
ریکٹر اسکیل پرزلزلے کی شدت9 ریکارڈکی گئی جوتقریباً 3منٹ تک جاری رہا۔اس زلزلے کی شدت ایسی تھی کہ جاپانی قوم جوکہ زلزلوں کے لیے سب سے زیادہ تیارقوم سمجھی جاتی تھی دم بخود تھی۔ زلزلے کے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ آدمی کا اپنے قدموں پر کھڑا رہنا ناممکن تھا۔50 منزلہ عمارتیں ایسے جھول رہی تھیں جیسے کوئی قدآور آدمی نشہ میں مست ہوکرجھوم رہاہو۔ بچے چیخ رہے تھے ٹنگی ہوئی چیزیں زمین پرتھیں اور زلزلہ ختم ہونے کے بعد خوبصورت آفس ایک کباڑیے کی دکان کامنظرپیش کررہے تھے۔
اتنے شدید زلزلے کے باوجود بھی جانی نقصان بہت کم ہوا تھا۔اس کی وجہ شاید عمارتوں کازلزلہ برداشت کرنیوالے اسٹرکچر کا ہونا تھا جو جاپانی قانون میں لازمی ہے۔ اس طرزتعمیر کا نام تائی شن اسٹرکچر (Taishin Structure) ہے۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ جاپانی قوم نے زلزلے جیسے قومی مسئلے کوقرار واقعی سنجیدگی اور ذمے داری سے لیا۔یہی ایک باشعور قوم کا وطیرہ ہے۔
زلزلے کی وجہ سے انفرا اسٹرکچر بالکل تباہ ہوگیا تھا۔ بجلی، موبائل فون،ٹریفک سگنلز بے کارہوچکے تھے ابھی زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کی کوشش ہورہی تھیں کہ سونامی کی وارننگ جاری کردی گئی۔یہ وہ خوفناک خطرہ تھاکہ جس سے لڑنے کی تیاری جاپان جیسے ملک کے لیے بھی ناکافی تھی۔ کچھ علاقوں میں تقریباً نصف گھنٹے بعدہی 15میٹربلند طاقتورسونامی کی لہریں پہنچنا شروع ہوگئیں جوکئی کلومیٹر رہائشی علاقوں میں جاگھسیں۔ جو چیز سامنے آئی اسے بہالے گئیں۔ان لہروں کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ سمندری جہاز سڑکوں پر پائے گئے اور چند منٹ میں علاقوں کوکچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا۔ اس سونامی نے کچھ دیرمیں اتناکچرا پیداکردیا تھا جو نارمل حالات میں80 سال میں پیداہوتا۔
11مارچ2011ء کادن جاپان کے لیے مزیدمشکلات پیدا کرنے جارہا تھا یعنی جاپان کاایک ایٹمی پاورپلانٹ جوفوکو شیما (Fukushima)میں ہے، زلزلے اور سونامی سے متاثر ہوا اور اس کا کولنگ سسٹم(Cooling System)ناکارہ ہوگیا جس سے ری ایکٹر میں دھماکا ہوا اور تابکاری پھیل گئی۔اس تابکاری کے اثرات سمندراور خشکی دونوں پراثرانداز ہوئے۔ اس پاور پلانٹ سے 20کلومیٹرکے رداس (Radius) میں آنے والا علاقہ رہنے کے قابل نہ رہا۔کہا جاتاہے کہ مزید کئی سالوں تک یہ علاقہNo Entry Zoneرہے گا۔
یہاں جاپانی قوم کی ہمت اور حالات سے نمٹنے کی صلاحیت کاذکرنہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ وقوعہ کے بعد پوری قوم متحد ہوکرصورتحال کومعمول پرلانے کے لیے متحرک ہو گئی۔ پورے جاپان سے لاکھوں لوگ رضاکارکے طورپررجسٹر ہو گئے۔ رضاکاروں کے گروپوں کومنظم کیاگیا اور کاموں کوتقسیم کردیا گیا۔
کسی گروپ کوکیچڑ صاف کرنے ،کسی کومختصرمدت کے گھر تعمیر کرنے توکسی کو بچوں کے ذہنوں سے خوف کے اثرات کم کرنے پرلگادیا۔اس بحرانی کیفیت میں بھی جاپانی قوم نے بہترین نظم وضبط کامظاہرہ کیا۔ذرایع آمدورفت کے بندہوجانے کی وجہ سے غذائی اشیاء کی شدید قلت ہوگئی تھی۔دودو ہزارآدمی قطاربناکراسٹورسے محض چند چیزیں حاصل کرنے کے لیے بغیر دھکم پیل کے آٹھ آٹھ گھنٹے انتظار کرتے تھے۔ جن لوگوں کے گھروں میں زائد پانی تھا انھوں نے گھرکے باہرلکھ کرلگادیا کہ یہاں سے پانی حاصل کریں لوٹ مارکاتوکوئی تصورہی نہیں تھا۔
اس زلزلے اور سونامی سے گزرنے کے بعد جاپانی لوگ چاہتے ہیں کہ دنیاان کے تجربے سے سیکھے اور کچھ ایسے اقدامات کرے جس سے اس طرح کی آفات سے ہونے والی تباہی کوکم کیاجاسکے۔ یہ بات بھی اس قوم کی انسانیت کامظہر ہے۔ کچھ سبق آموزجاپانی ہدایات درج ذیل ہیں۔
٭اگرآپ سمندرکے قریب ہیں اور بڑازلزلہ محسوس کیاگیا ہے تو فوراً سمندرسے دوراونچے مقامات پرپہنچنے کی کوشش کریں۔
٭ اگرٹریفک جام ہوتو کارکو چھوڑدیں اور کارکی چابی کارمیں لگی رہنے دیں،تاکہ بوقت ضرورت آگے پیچھے کیاجاسکے اور خودپیدل ہی ممکنہ تیزرفتاری سے سمندر سے دور اونچے مقام پرپہنچنے کی کوشش کریں۔
٭بعض لوگ ابتدائی زلزلے اور سونامی سے تو بچ جاتے ہیں لیکن جب وہ اپنی اشیاء وغیرہ بچانے کے لیے دوبارہ پلٹتے ہیں توجان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
٭ سونامی انتہائی طاقتور ہوتاہے اور کوئی انسان اس کی آدھا میٹراونچی لہرکابھی مقابلہ نہیں کرسکتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سونامی کی لہرکی لمبائی(Wave Length)کئی سوکلومیٹر تک ہوسکتی ہے جب کہ عام حالات میں سمندرمیں بننے والی اونچی سے اونچی لہرکی لمبائی (Wave Length) صرف چندمیٹرہوتی ہے ۔لہٰذا واحد حل فراراور اونچے مقام تک رسائی ہے۔
٭جب بڑازلزلہ محسوس ہوتو فوراً اپنے سرکی حفاظت کریں ،چاہے آپ عمارت کے اندرہوں یا باہر۔بھاری چیزیں آپ کی طرف تیزی سے آسکتی ہیں۔ اس کے لیے تکیہ ،بیگ،بریف کیس اورکچھ نہ ملے تو اپنے ہاتھوں سے سرکومحفوظ کریں۔
٭سب سے پہلے اپنی جان بچائیں ،پھراپنے گھروالوں کی اور پھر پڑوسی وغیرہ کی۔
٭اپنے موبائل فون کارکی چابی،فلیش لائٹ اور دوسرے ضروری سامان کواپنی آسان پہنچ میں رکھیں۔ اس کے علاوہ فرسٹ ایڈ کٹ پیکٹ میں محفوظ وغیرہ بھی ایسے حالات کے پیش نظرگھرمیں رکھیں۔
٭دوسرے ذرایع ابلاغ کے مقابلے میں ریڈیو کی نشریات اس طرح کی آفات میں لوگوں کوباخبر رکھنے میں زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہیں۔
٭اہم اداروں کے پاس سیٹلائیٹ فون جیسے آلات لازمی ہوں تاکہ بحران کی صورت اپناکردارصحیح طور پر ادا کرسکیں میری مراد یہاں ریسکیو ،سول ڈیفنس اور فائربریگیڈ وغیرہ ہیں۔
٭دنیاوی لحاظ سے زلزلے آنے کی سائنٹیفک وجوہات تو اپنی جگہ مستندہیں لیکن بحیثیت مسلمان ہمیں یہ معلوم ہوناچاہے کہ یہ زلزلے اللہ تعالیٰ کے غضب کے مظاہرمیں سے ہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے غضب کودعوت نہ دیں۔ یعنی اپنی بداعمالیوں سے اللہ تعالیٰ کوغضب ناک نہ کریں۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم بھی کسی ایسی آفت کاشکار ہو جائیں۔