کراچی رفاہی پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کرنیکا صائب حکم
چائنا کٹنگ کرکے رفاہی پلاٹوں اور پارکوں پر رہائشی اور کمرشل پلازے بنادیے گئے ہیں
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں رفاہی پلاٹوں پر قبضے سے متعلق سماعت میں فاضل عدالت نے کراچی میں چائنا کٹنگ کے پلاٹوں کو وا گزار کرانے، تجاوزات کے خاتمے اور رفاہی پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کرکے 2 ماہ میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کراچی کی اصل شکل اور حسن کو مسخ کرنے میں تجاوزات کی بھرمار اور ناجائز تعمیرات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ شہر جس کی کشادہ سڑکیں اور انفرا سٹرکچر کی مثالیں دی جاتی تھیں وہ آج شدید بدحالی، بدانتظامی اور بوسیدہ انفراسٹرکچر کا منظر پیش کررہا ہے، انتہا تو یہ ہے کہ وہ سڑکیں جہاں چوبیس گھنٹے حد درجہ ٹریفک رواں دواں رہتا ہے، تجاوزات کے باعث سکڑ کر دس فٹ کی رہ گئی ہیں، جہاں سے ایک بس ہی گزر سکتی ہے۔
سماعت میں جسٹس گلزار نے بالکل صائب کہا کہ کراچی کو چائنا کٹنگ اور قبضوں نے برباد کردیا، کوئی جگہ نہیں چھوڑی گئی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ نہ صرف چائنا کٹنگ کرکے رفاہی پلاٹوں اور پارکوں پر رہائشی اور کمرشل پلازے بنادیے گئے ہیں بلکہ نالوں اور فٹ پاتھوں پر بھی کیبن اور پتھارے بنا کر چلنے پھرنے کی جگہ تک ہتھیا لی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے کراچی کے اصل ماسٹر پلان کی روشنی میں رفاہی پلاٹوں کی تفصیل طلب کی ہے۔ جب کہ ڈائریکٹر ماسٹر پلان نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں 35 ہزار پلاٹوں کی چائنا کٹنگ ہوئی۔
ڈائریکٹر ماسٹر پلان نے بتایا کہ کراچی کے 6 ماسٹر پلان ہیں، 1953ء، 1965ء، 1974ء، 1985ء اور 2000ء میں ترمیم ہوئی، قانون میں 1992ء میں ترمیم کے بعد رفاہی پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ شروع ہوئی۔ آخر مذکورہ صورتحال کا ذمے دار کون ہے؟ اور جب یہ تجاوزات اور قبضے قائم کیے جارہے تھے تو متعلقہ ادارے آنکھیں موندے کہاں سو رہے تھے؟
جسٹس گلزار کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ شہر بھر سے تجاوزات ختم کردیں، کراچی کا مستقبل سوچیں، خدا کا خوف کریں، صدر ایوب خان کے زمانے میں تجاوزات کے خلاف آخری کارروائی ہوئی تھی، کراچی صاف ہوگیا تھا، یورپ کا شہر لگتا تھا، لوگ لندن جانے کے بجائے کراچی آتے تھے۔
جناب جسٹس کا کہنا بالکل صائب ہے، ساٹھ کی دہائی میں شہر قائد کی مثالیں دی جاتی تھیں اور آج یہ حال ہے کہ دنیا کے بدترین شہروں میں اس کا شمار کیا جانے لگا ہے۔ اس بدحالی و تباہی کے ذمے دار متعلقہ ادارے اور عوام سب ہی ہیں۔ صائب ہوگا کہ شہر قائد کو اس کی اصل پہچان واپس لوٹائی جائے اور تجاوزات و چائنا کٹنگ مافیا سے شہر کو نجات دلائی جائے۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ کراچی کی اصل شکل اور حسن کو مسخ کرنے میں تجاوزات کی بھرمار اور ناجائز تعمیرات نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ شہر جس کی کشادہ سڑکیں اور انفرا سٹرکچر کی مثالیں دی جاتی تھیں وہ آج شدید بدحالی، بدانتظامی اور بوسیدہ انفراسٹرکچر کا منظر پیش کررہا ہے، انتہا تو یہ ہے کہ وہ سڑکیں جہاں چوبیس گھنٹے حد درجہ ٹریفک رواں دواں رہتا ہے، تجاوزات کے باعث سکڑ کر دس فٹ کی رہ گئی ہیں، جہاں سے ایک بس ہی گزر سکتی ہے۔
سماعت میں جسٹس گلزار نے بالکل صائب کہا کہ کراچی کو چائنا کٹنگ اور قبضوں نے برباد کردیا، کوئی جگہ نہیں چھوڑی گئی۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ نہ صرف چائنا کٹنگ کرکے رفاہی پلاٹوں اور پارکوں پر رہائشی اور کمرشل پلازے بنادیے گئے ہیں بلکہ نالوں اور فٹ پاتھوں پر بھی کیبن اور پتھارے بنا کر چلنے پھرنے کی جگہ تک ہتھیا لی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے کراچی کے اصل ماسٹر پلان کی روشنی میں رفاہی پلاٹوں کی تفصیل طلب کی ہے۔ جب کہ ڈائریکٹر ماسٹر پلان نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں 35 ہزار پلاٹوں کی چائنا کٹنگ ہوئی۔
ڈائریکٹر ماسٹر پلان نے بتایا کہ کراچی کے 6 ماسٹر پلان ہیں، 1953ء، 1965ء، 1974ء، 1985ء اور 2000ء میں ترمیم ہوئی، قانون میں 1992ء میں ترمیم کے بعد رفاہی پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ شروع ہوئی۔ آخر مذکورہ صورتحال کا ذمے دار کون ہے؟ اور جب یہ تجاوزات اور قبضے قائم کیے جارہے تھے تو متعلقہ ادارے آنکھیں موندے کہاں سو رہے تھے؟
جسٹس گلزار کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ شہر بھر سے تجاوزات ختم کردیں، کراچی کا مستقبل سوچیں، خدا کا خوف کریں، صدر ایوب خان کے زمانے میں تجاوزات کے خلاف آخری کارروائی ہوئی تھی، کراچی صاف ہوگیا تھا، یورپ کا شہر لگتا تھا، لوگ لندن جانے کے بجائے کراچی آتے تھے۔
جناب جسٹس کا کہنا بالکل صائب ہے، ساٹھ کی دہائی میں شہر قائد کی مثالیں دی جاتی تھیں اور آج یہ حال ہے کہ دنیا کے بدترین شہروں میں اس کا شمار کیا جانے لگا ہے۔ اس بدحالی و تباہی کے ذمے دار متعلقہ ادارے اور عوام سب ہی ہیں۔ صائب ہوگا کہ شہر قائد کو اس کی اصل پہچان واپس لوٹائی جائے اور تجاوزات و چائنا کٹنگ مافیا سے شہر کو نجات دلائی جائے۔