پیپلز پارٹی کے 50 سال

پیپلز پارٹی اپنے قیام کے ایک سال کے اندر اندر ایک ملک گیر تحریک بن گئی۔



آج سے 50 برس قبل لاہور میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں ڈاکٹر مبشر حسین کے گھر پر ایک اہم اجلاس منعقد ہوا، جس میں سامراجی نظام کے خاتمہ اور عوام کو آمروں اور کرپٹ حکمرانوں کے جبر و استحصال سے بچانے کے لیے عوامی سیاسی پارٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد لاہور میں ڈالی گئی تھی مگر پارٹی کا پہلا کنونشن ہالا میں ہوا، جس کی میزبانی سندھ کی عظیم روحانی و سیاسی شخصیت مخدوم طالب المولیٰ نے کی تھی۔ مخدوم طالب المولیٰ کے گھر ہالا شریف میں پیپلز پارٹی کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اجلاس کے دوران شرکا میں سے جن باقاعدہ مندوبین کا اعلان کیا گیا، ان میں ایسے بہت سے نام تھے جن کا اس سے پہلے کوئی نمایاں سیاسی پس منظر نہیں تھا، لیکن انھوں نے پاکستان کی تاریخ میں اسٹیٹس کو کے متصادم نئے سیاسی کلچر کی بنیاد رکھ دی۔

ان میں جے اے رحیم (وفاقی وزیر)، خورشید حسن میر (وفاقی وزیر)، ملک معراج خالد (پنجاب کے وزیراعلیٰ)، غلام مصطفیٰ خان جتوئی (سندھ کے وزیراعلیٰ و وفاقی وزیر مواصلات)، غلام مصطفیٰ کھر (پنجاب کے گورنر و وزیراعلیٰ رہے) ڈاکٹر مبشر حسن (وفاقی وزیر خزانہ)، عبدالحفیظ پیرزادہ (وزیر تعلیم و وزیر قانون)، ڈاکٹر غلام حسین (وفاقی وزیر)، شیخ رفیق احمد (صوبائی اسمبلی کے اسپیکر) شیخ محمد رشید بابائے سوشلزم (وفاقی وزیر صحت) رسول بخش تالپور (29 اپریل 1972 سے 14 فروری 1973 تک سندھ کے 10 ویں گورنر رہے) میر علی احمد تالپور (ضیا دور میں وزیر دفاع رہے) معروف دانشور، ادیب، صحافی، محمد حنیف رامے (پنجاب کے وزیراعلیٰ)، صحافی، دانشور مولانا کوثر نیازی (وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات) معروف مزدور رہنما مختار رانا، اور معروف ترقی پسند رہنما معراج محمد خان سمیت بہت سے ترقی پسند رہنماؤں کے نام قابل ذکر و فخر ہیں۔ کم و بیش ڈھائی سو کے قریب کارکنوں، رہنماؤں، ادیبوں اور شاعروں نے اس تاریخی کنونشن میں شرکت کی۔ 30 نومبر سے یکم دسمبر مندوبین اور دیگر شرکاء کے اجلاس ہوئے، جن میں اس نئی پارٹی کی تشکیل و ساخت کے خدوخال طے کیے گئے اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔

اس سال پاکستان پیپلز پارٹی کا 50 واں یوم تاسیس منایا جارہا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ملک بھر میں تقریبات کا انعقاد کیا جارہا ہے جس میں پارٹی کے یوم تاسیس کے سلسلے میں کیک کاٹنے کے ساتھ مرکزی و صوبائی تنظیموں کی جانب سے سیمینارز اور کانفرنسز کا بھی انعقاد کیا جارہا ہے، جس سے مرکزی و صوبائی قائدین نے خطاب کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی یوم تاسیس کی تقریبات کو گولڈن جوبلی تقریبات کے طور پر منائے گی جس میں قربانیاں دینے والے کارکنوں کو ایوارڈ بھی دیے جائیں گے۔

پیپلزپارٹی کی طرف سے 5 دسمبر کو اسلام آباد کی پریڈ گراؤنڈ میں بڑے عظیم الشان جلسہ کا انعقاد کرے گی، جس سے بلاول بھٹو زرداری اور دیگر مرکزی قیادت خطاب کرے گی۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی و صوبائی رہنما اور کارکنان اپنی شہید قیادت کی قبروں پر حاضری دے کر فاتحہ خوانی بھی کریں گے۔ اس میں کراچی سے لے کر آزاد کشمیر تک کے کارکنان قافلوں کی صورت میں اسلام آباد میں پہنچیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی ایک سوشلسٹ پارٹی ہے۔ یہ مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کی پارٹی ہے۔ یہ پارٹی سرمایہ دارانہ اور سامراجی نظام کے خاتمہ کے لیے بنائی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں یہ وہ واحد پارٹی ہے کہ جسے کسی ڈکٹیٹر نے نہیں بنایا۔ جس کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ نہیں تھا۔ یہ صرف ایک عوامی انقلابی پارٹی ہے۔ ہمیشہ سے اس کی طاقت معاشرے کے غریب، محنت کش، مزدور اور کسان رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی اپنے قیام کے ایک سال کے اندر اندر ایک ملک گیر تحریک بن گئی۔ 6 نومبر 1968 سے لے کر 25 مارچ 1969 تک کے 139 دنوں میں عملی طور پر طاقت حکمران ایوانوں سے نکل کر گلیوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، کھیتوں اور فیکٹریوں میں امڈ آئی۔ اس انقلابی تحریک کی تمام تر توانائی طلبا، نوجوانوں اور محنت کشوں پر مشتمل تھی۔ عوام کی پکار کو سیاسی اظہار دینے والے پیپلز پارٹی کی تاسیسی دستاویز کے انقلابی نکات ہی تھے جن کی بنیاد پر تحریک کی قیادت پارٹی کے ہاتھ آئی۔

پیپلز پارٹی کا تاسیسی منشور ایک انقلابی دستاویز ہے، جس نے 1968-69 کا انقلاب جیت کر ذوالفقار علی بھٹو کی جھولی ڈال دیا اور پیپلز پارٹی کو راتوں رات ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت میں تبدیل کردیا۔ ان 50 برسوں میں پیپلز پارٹی کو کئی مرتبہ محنت کش عوام نے اقتدار دلوایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی کرشماتی اور انقلابی شخصیت کی کشش سے عوام جوق در جوق انقلاب کا نعرہ لگاتے ہوئے پیپلز پارٹی کی طاقت بنتے رہے اور یہ طاقت آج تک قائم ہے۔

جمہوریت کے لیے پیپلز پارٹی کی قربانیاں بے مثال ہیں۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو، ان کی لخت جگر شہید بے نظیر بھٹو، شاہ نواز بھٹو، مرتضیٰ بھٹو اور بے شمار کارکنان نے بھٹوکی پارٹی کو زندہ رکھنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ انہی قربانیوں کی بدولت پارٹی آج بھی محنت کشوں کی امنگوں کی ترجمان ہے۔ آج بھی زندہ ہے بھٹو زندہ ہے، کے نعرے لگتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس ملک کے غریب عوام کے جبری استحصال کے خلاف آواز اٹھائی، آمروں کی جارحیت کے آگے سینہ سپر رہی۔

سب سے بڑھ کراسلامی جمہوریہ پاکستان کو دو ایسے تحفے دیے کہ جس کی بنیاد پر آج پاکستان قائم و دائم ہے اور ان کا کریڈٹ صرف پیپلز پارٹی کو جاتا ہے۔ ایک چیز جس کا نام ہے آئین پاکستان، جس کی بنیاد پر ملک کا اندرونی ڈھانچہ قائم ہے اور دوسری چیز کا نام ہے ایٹم بم، جس کے خوف سے دشمن ہم پر حملہ آور نہیں ہوسکتا۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ اگر آج پاکستان قائم ہے تو پیپلز پارٹی کے انہی دو کارناموں کی بدولت قائم ہے، وگرنہ دشمن کب کا ہمارا وجود مٹا چکا ہوتا۔

وقت کڑا امتحان لیتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ تقاضے بدلتے رہتے ہیں۔آمروں سے بھی مصالحت کرنی پڑتی ہے۔ مشرف دور میں ملک سے آمریت کے خاتمہ کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو مرحومہ نے میثاقِ جمہوریت کے ذریعے مفاہمت کا آغاز کیا اور آج اسی مفاہمت کی بدولت جمہوریت کا شجر قائم ہے۔ اسی مفاہمت کی پالیسی کو پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت آگے لے کر چل رہی ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی کا نعرہ ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہے۔

آصف علی زرداری کی بطور ایک سیاست دان قابلیت کو پوری دنیا مان چکی ہے، جبکہ نوجوان بلاول اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں جن کے پاس ان کے نانا کی قربانیوں کی وراثت اور ایک نیا وژن ہے۔ امید ہے کہ وہ پارٹی کو دوبارہ ملک بھر میں فعال کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں