وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
سڑکوں کی سیاست نے ملک کو جو نقصان پہنچایا وہ ہمارا بدترین دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا تھا۔
آئین و عدلیہ سے ماورا و بے نیاز سڑکوں کی سیاست نے ملک کو جو نقصان پہنچایا وہ ہمارا بدترین دشمن بھی نہیں پہنچا سکتا تھا۔ بھٹو دشمنی میں نو ستاروں کی کہکشاں نے جو اندھیرا ملک پر مسلط کیا وہ اب تک مکمل طور پر چھٹ نہیں سکا اور پوری قوم آج تک اس کے اثرات بھگت رہی ہے۔ کئی جمہوری دور آنے کے بعد بھی اس قومی خدمت (جو نو ستاروں نے بڑے خلوص سے ادا کی تھی) کے باعث ابھی تک جمہوریت مکمل طور پر پٹری پر نہیں آسکی، اور تماشا یہ کہ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہی ہوتا آرہا ہے۔
ملک کا دارالحکومت تقریباً اکیس روز تک محاصرے میں رہا ۔ جو جواز اس محاصرے کا تھا وہ اس کے آغاز سے قبل ہی دور کردیا گیا تھا اور حکومت نے اخبارات میں کئی بار اس کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ بھی کیا، مگر سیاسی و غیر سیاسی عناصر بھی دھرنے والوں کی حمایت میں دوسرے شہروں میں بھی شامل ہوتے گئے۔
دھرنا ایک معاہدے کے تحت اختتام پذیر ہوگیا، 28 نومبر منگل کے اخبارات پڑھ کر صورتحال واضح ہونے کے بجائے مزید غیر واضح ہوگئی، آخر یہ دھرنا سے کس کو فائدہ ہوا، کون نقصان میں رہا؟ دھرنے والوں کا مطالبہ وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ تھا ان کے مستعفی ہوتے ہی دھرنا ختم اور معاہدہ طے پاگیا۔ اگر یہی ہونا تھا تو پھر زاہد حامد صاحب کو بہت پہلے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا تاکہ جو جانیں ضایع ہوئیں ان کی نوبت نہ آتی۔
عدلیہ نے اس صورتحال پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ نے انتظامیہ اور پولیس کو ذلیل کرا دیا۔ ثالثی پر بھی ناگواری کا اظہار کیا گیا۔ سب سے عجیب بات یہ کہ خود وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ''معاہدہ افسوسناک ہے اس پر فخر نہیں کیا جاسکتا'' جب کہ معاہدے پر خود ان کے دستخط ثبت ہیں۔
وزیر داخلہ نے کئی بار زاہد حامد کے استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کیا ، سپریم کورٹ سے دھرنا ختم کرانے کے لیے کئی بار مہلت طلب کی گئی، عدلیہ کے استفسار پر چیف کمشنر اسلام آباد نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ آپریشن اس لیے نہیں کیا گیا کہ وزیر داخلہ نے روکا ہوا ہے، وزیر داخلہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جس کے بعد آپریشن کیا گیا۔ مگر وزیر داخلہ اس آپریشن کی ذمے داری بھی قبول نہیں کر رہے بلکہ اس کو افسوسناک قرار دے رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس آپریشن سے ان کا تعلق نہ تھا تو پھر انھوں نے عدالتی حکم کے باوجود اس کو روکا ہوا کیوں تھا؟ اس پورے معاملے میں سب سے اہم کردار خود وزیر داخلہ کا نظر آتا ہے کہ نہ وہ عدالتی حکم پر بروقت عمل کرسکے اور نہ جب آپریشن ہوگیا تو اس کی ذمے داری قبول کر رہے ہیں گویا وہ اس دھرنے کو نہ خود اپنی تدبیر سے اور نہ عدالتی حکم سے ختم کرنے میں ناکامی کو بھی کسی اور کاندھے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں تو وزیر دفاع کے بجائے خود وزیر داخلہ کو مستعفی ہونا چاہیے تھا۔ یہ تو حکومتی پوزیشن ہے۔
اب ذرا دھرنا والوں کے حالات پر بھی نظر ڈالی جائے۔ دھرنے سے ''خطاب'' کرنے والے اس اجتماع کے سرپرست اور نگران اعلیٰ نے اپنے فرضی یا حقیقی مخالفین کو جس انداز تکلم سے نوازا ، یہ طرز گفتگو مقاصد دھرنا کو جائز تسلیم کیے جانے کے لائق ہے۔
جب ختم نبوتؐ کا معاملہ فوراً درست ہوگیا تھا تو قوم کے جذبات کو مشتعل کرنے سے کس کو فائدہ پہنچا۔ اگر مبینہ کوشش (ختم نبوتؐ کی شق میں) جان بوجھ کر بھی کی گئی مگر اس کا تدارک فوراً ہوگیا تو وہ عفو و درگزر جو اللہ و رسولؐ کی خصوصیات میں اہم ہیں اس کا پاس کرتے ہوئے اس معاملے کو اتنا طول دینا نہیں چاہیے۔ ہم خطا کے پتلے انسان اپنے جیسے انسانوں کی کوئی خطا معاف کرنا کسی کوتاہی کو درگزر کرنا شاید خود اپنی توہین سمجھتے ہیں، اگر اللہ رب العزت ہماری خطاؤں سے درگزر نہ فرمائیں ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی نہ فرمائیں تو کیا قرآن میں ایسی قوموں کے قصے موجود نہیں جن کو ناپ تول میں کمی کرنے، بدکاری پر نشان عبرت نہیں بنایا گیا۔ اور پھر ان قصوں کو بیان کرنے پر بار بار تاکید ہے کہ تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟
عام مشاہدہ ہے کہ ہمارے علما اپنے اپنے مکتب فکر اپنے فرقے اور عقیدے کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہیں اسلامی اخوت و اتحاد سے ان کا لینا دینا نہیں۔ احکامات خداوندی پر اپنے اپنے نکتہ نظر سے اظہار خیال کرکے امت میں تفرقہ، تعصب اور دوریاں پیدا کرنے کی کوشش جاری ہے۔ ہمیں اتحاد و اتفاق کی کوشش کرتے ہوئے خود کوتفرقہ بازی سے محفوظ رکھنا ہوگا۔ آج دین امن پوری دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے پہچانا جا رہا ہے۔ مذہب کے لبادے میں سیاست گروں کو قوم نے ہمیشہ کوئی اہمیت نہیں دی۔ سچا مذہبی رہنما وہی ہے جو تمام فقہی و مسالکی اختلاف کو کم کرنے اور تمام مسلمانوں کے درمیان فاصلوں کی خلیج پاٹنے کی کوشش کرے۔ خدا اس قوم پر اپنا کرم فرمائے اور ہمیں حقیقی مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین۔)
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفویؐ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
اس مبارک ماہ ربیع الاول میں ہمیں خود سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم کسی کے نفاق پیدا کرکے اپنی سیاست چمکانے کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ اسوہ حسنہؐ، قرآن مجید، احادیث مبارکہ ہم سب کی دسترس میں ہیں، اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہم واقف ہیں، حکم خداوندی کے مطابق ان سب میں وسیع القلبی، وسعت نظر سے ازخود غور و فکر کریں گے اور نیت امت مسلمہ میں نفاق نہیں اتحاد پیدا کرنے کی ہوگی۔
ملک کا دارالحکومت تقریباً اکیس روز تک محاصرے میں رہا ۔ جو جواز اس محاصرے کا تھا وہ اس کے آغاز سے قبل ہی دور کردیا گیا تھا اور حکومت نے اخبارات میں کئی بار اس کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ بھی کیا، مگر سیاسی و غیر سیاسی عناصر بھی دھرنے والوں کی حمایت میں دوسرے شہروں میں بھی شامل ہوتے گئے۔
دھرنا ایک معاہدے کے تحت اختتام پذیر ہوگیا، 28 نومبر منگل کے اخبارات پڑھ کر صورتحال واضح ہونے کے بجائے مزید غیر واضح ہوگئی، آخر یہ دھرنا سے کس کو فائدہ ہوا، کون نقصان میں رہا؟ دھرنے والوں کا مطالبہ وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ تھا ان کے مستعفی ہوتے ہی دھرنا ختم اور معاہدہ طے پاگیا۔ اگر یہی ہونا تھا تو پھر زاہد حامد صاحب کو بہت پہلے استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا تاکہ جو جانیں ضایع ہوئیں ان کی نوبت نہ آتی۔
عدلیہ نے اس صورتحال پر سخت ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر داخلہ نے انتظامیہ اور پولیس کو ذلیل کرا دیا۔ ثالثی پر بھی ناگواری کا اظہار کیا گیا۔ سب سے عجیب بات یہ کہ خود وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ''معاہدہ افسوسناک ہے اس پر فخر نہیں کیا جاسکتا'' جب کہ معاہدے پر خود ان کے دستخط ثبت ہیں۔
وزیر داخلہ نے کئی بار زاہد حامد کے استعفیٰ نہ دینے کا اعلان کیا ، سپریم کورٹ سے دھرنا ختم کرانے کے لیے کئی بار مہلت طلب کی گئی، عدلیہ کے استفسار پر چیف کمشنر اسلام آباد نے ہائی کورٹ کو بتایا کہ آپریشن اس لیے نہیں کیا گیا کہ وزیر داخلہ نے روکا ہوا ہے، وزیر داخلہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جس کے بعد آپریشن کیا گیا۔ مگر وزیر داخلہ اس آپریشن کی ذمے داری بھی قبول نہیں کر رہے بلکہ اس کو افسوسناک قرار دے رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس آپریشن سے ان کا تعلق نہ تھا تو پھر انھوں نے عدالتی حکم کے باوجود اس کو روکا ہوا کیوں تھا؟ اس پورے معاملے میں سب سے اہم کردار خود وزیر داخلہ کا نظر آتا ہے کہ نہ وہ عدالتی حکم پر بروقت عمل کرسکے اور نہ جب آپریشن ہوگیا تو اس کی ذمے داری قبول کر رہے ہیں گویا وہ اس دھرنے کو نہ خود اپنی تدبیر سے اور نہ عدالتی حکم سے ختم کرنے میں ناکامی کو بھی کسی اور کاندھے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں تو وزیر دفاع کے بجائے خود وزیر داخلہ کو مستعفی ہونا چاہیے تھا۔ یہ تو حکومتی پوزیشن ہے۔
اب ذرا دھرنا والوں کے حالات پر بھی نظر ڈالی جائے۔ دھرنے سے ''خطاب'' کرنے والے اس اجتماع کے سرپرست اور نگران اعلیٰ نے اپنے فرضی یا حقیقی مخالفین کو جس انداز تکلم سے نوازا ، یہ طرز گفتگو مقاصد دھرنا کو جائز تسلیم کیے جانے کے لائق ہے۔
جب ختم نبوتؐ کا معاملہ فوراً درست ہوگیا تھا تو قوم کے جذبات کو مشتعل کرنے سے کس کو فائدہ پہنچا۔ اگر مبینہ کوشش (ختم نبوتؐ کی شق میں) جان بوجھ کر بھی کی گئی مگر اس کا تدارک فوراً ہوگیا تو وہ عفو و درگزر جو اللہ و رسولؐ کی خصوصیات میں اہم ہیں اس کا پاس کرتے ہوئے اس معاملے کو اتنا طول دینا نہیں چاہیے۔ ہم خطا کے پتلے انسان اپنے جیسے انسانوں کی کوئی خطا معاف کرنا کسی کوتاہی کو درگزر کرنا شاید خود اپنی توہین سمجھتے ہیں، اگر اللہ رب العزت ہماری خطاؤں سے درگزر نہ فرمائیں ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی نہ فرمائیں تو کیا قرآن میں ایسی قوموں کے قصے موجود نہیں جن کو ناپ تول میں کمی کرنے، بدکاری پر نشان عبرت نہیں بنایا گیا۔ اور پھر ان قصوں کو بیان کرنے پر بار بار تاکید ہے کہ تم غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟
عام مشاہدہ ہے کہ ہمارے علما اپنے اپنے مکتب فکر اپنے فرقے اور عقیدے کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہیں اسلامی اخوت و اتحاد سے ان کا لینا دینا نہیں۔ احکامات خداوندی پر اپنے اپنے نکتہ نظر سے اظہار خیال کرکے امت میں تفرقہ، تعصب اور دوریاں پیدا کرنے کی کوشش جاری ہے۔ ہمیں اتحاد و اتفاق کی کوشش کرتے ہوئے خود کوتفرقہ بازی سے محفوظ رکھنا ہوگا۔ آج دین امن پوری دنیا میں دہشت گردی کے حوالے سے پہچانا جا رہا ہے۔ مذہب کے لبادے میں سیاست گروں کو قوم نے ہمیشہ کوئی اہمیت نہیں دی۔ سچا مذہبی رہنما وہی ہے جو تمام فقہی و مسالکی اختلاف کو کم کرنے اور تمام مسلمانوں کے درمیان فاصلوں کی خلیج پاٹنے کی کوشش کرے۔ خدا اس قوم پر اپنا کرم فرمائے اور ہمیں حقیقی مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے (آمین۔)
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفویؐ
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
اس مبارک ماہ ربیع الاول میں ہمیں خود سے عہد کرنا ہوگا کہ ہم کسی کے نفاق پیدا کرکے اپنی سیاست چمکانے کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ اسوہ حسنہؐ، قرآن مجید، احادیث مبارکہ ہم سب کی دسترس میں ہیں، اسلام کے بنیادی اصولوں سے ہم واقف ہیں، حکم خداوندی کے مطابق ان سب میں وسیع القلبی، وسعت نظر سے ازخود غور و فکر کریں گے اور نیت امت مسلمہ میں نفاق نہیں اتحاد پیدا کرنے کی ہوگی۔