کیا ذلت آمیز نظام خود گرتے ہیں

ہماری اکثریت ساری عمر زندگی کے اصل معنیٰ کو سمجھ ہی نہیں پاتی ہے، اس میں سب سے بڑا کردار جہالت کا ہوتا ہے۔


Aftab Ahmed Khanzada December 01, 2017

کیا ذلت و نفرت آمیز، بوسیدہ، لوٹ کھسوٹ اور دیمک زدہ نظام خود بخود گرتے ہیں یا انھیں گرانے کے لیے ہم میں ہی سے کچھ لوگ آگے بڑھتے ہیں اورگرا دیتے ہیں اس گرا دینے میں وہ اپنا سب کچھ قربان کردیتے ہیں حتیٰ کہ اپنی جان تک بھی ۔ آیا وہ لوگ زیادہ سمجھدار ہوتے ہیں جو خاموشی سے ہر ذلت ، توہین ، خواری ، بے عزتی ،گالیاں برداشت کرتے رہتے ہیں کہ یہ ہی ہمارا نصیب اور مقدر ہے اور کبھی نہیں اٹھتے اور ایک روز اس کے اپنے اسے اٹھا رہے ہوتے ہیں یا وہ لوگ زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں جو اپنی کسی چیز کی اور اپنوں کی پروا نہ کرتے ہوئے باقی لوگوں کو ذلت ، توہین اور بے عزتی کی زندگی سے نجات دلوانے کے لیے اپنا سب کچھ گنوا دیتے ہیں۔

آئیں! دونوں باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ہماری اکثریت ساری عمر زندگی کے اصل معنیٰ کو سمجھ ہی نہیں پاتی ہے، اس میں سب سے بڑا کردار جہالت کا ہوتا ہے جہالت سے مراد صرف لکھنا پڑھنا نہ آنا نہیں ہوتا ہے۔ جہالت کی ہزاروں قسمیں ہیں ہر قسم آپ کو بے حس بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتی ہے، جاہلوں کے نزدیک ساری زندگی صرف اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے روٹی، کپڑا اور مکان کی جدو جہد اور حصول تک محدود ہوتی ہے وہ ساری عمر صرف ان کے لیے ہی مارے مارے پھرتے رہتے ہیں اور بچے پہ بچہ پیدا کرتے رہتے ہیں وہ ساری عمر طاقتوروں، بااختیاروں اور امیروں کی ساری ذلتیں ، بے عزتی، گالیاں، توہین اس لیے برداشت کرتے رہتے ہیں کہ ایک تو کمزور پیدا ہوتے ہیں اور اسی کو اپنا مقدر مان لیتے ہیں وہ اپنی غربت اور طاقتوروں کی عزت کرنا اپنا فرض اور دینی فریضہ سمجھتے ہیں اور یہ کہ ہر ذلت کو برداشت کرنا ان کے لیے ان کا نصیب ہے اور وہ اسی لیے پیدا کیے گئے ہیں وہ اپنا سارا غصہ اپنے آپ اور اپنے گھر والوں پر اتارتے رہتے ہیں لیکن وہ ان طاقتوروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور دوسرا یہ بھی کہ وہ اپنا بچا کچا داؤ پر لگانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتے ہیں ۔ وہ اس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ ان کے کھڑے ہونے سے اس نظام یا طاقتور لوگوں کا کچھ نہیں بگڑنے والا ہے یہ نظام سال ہا سال سے اسی طرح سے چلتا آرہا ہے اور آیندہ بھی اسی طرح ہی سے چلتا رہے گا۔ میرے دادا نے بھی یہی سب کچھ برداشت کیا تھا میرے والد نے بھی ایسا ہی کیا لہذا اب مجھے بھی ایسا ہی سب کچھ برداشت کرتے جانا ہے۔ وہ اپنے آپ کو روز بزدل پہ بزدل کرتا چلا جاتا ہے اور اپنے آپ کو تھوڑا تھوڑا قتل بھی کرتا جاتا ہے ۔ اس کے اس عقیدے کو پختہ کرنے میں اس کے گھر والے ، رشتے دار، دوست احباب بہت مدد کرتے ہیں وہ بھی اسی کی طرح بزدل ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ بزدلوں کی فوج میں کسی بہادرکو دیکھنا نہیں چاہتے ہیں کیونکہ کسی بہادرکے پیدا ہونے سے ان کی اپنی انا کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوجائے گا۔اس لیے وہ ساری عمر کسی بہادرکو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے ہیں۔

آئیں ! اب بات کرتے ہیں ان لوگوں کی جنہوں نے لوگوں کے کل کے سکھ کے لیے اپنے آج کے سکھ کو قربان کردیا ،اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیا حتیٰ کہ اپنی زندگی تک ۔ اگر ہم انھیں عام نظر سے دیکھیں تو وہ کہی گئی کہ انھیں کیا ملا وہ ساری زندگی جدوجہد کرتے رہے قربانیوں پہ قربانیاں دیتے رہے سختیاں اور مصیبتیں سہتے رہے اور آخر میں ان کے نصیب میں بے وقت موت ہی آئی یہ تو ہوئی عام نظرکی بات، لیکن اگر ہم انھیں الگ نظر سے دیکھیں تو ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ وہ صدیوں بعد بھی آج زندہ ہیں۔ ان کے ملکوں ، شہروں میں ان کی پوجا کی جاتی ہے، ان کے نام اور ان کی قربانیوں سے دنیا کا ہر شخص واقف ہے ان ہی کی قربانیوں کی وجہ سے آج ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ سکھی ، آزاد، خوشحال اور خو ش وخرم زندگی گذار رہے ہیں ۔ فلور نس ایک یادگار تاریخی شہر ہے یہ بڑے بڑے شاعروں ، فنکاروں اور مفکروں کا مسکن رہ چکا ہے۔ دانتے ،گلیلیو ، لیونارڈوڈی، مائیکل اینجلو، رافیل ، میکاولی سب اس خاک سے اٹھے گلیلیوکی رصد گاہ ، دانتے کی ولادت گاہ، مائیکل اینجلو کا گھر اور مقبرہ یہ سب آج بھی محفوظ ہیں مگر ان سب سے مقدس کلیسیائے سینٹ مارک اور ڈوموکی عبادت گاہ ہے جہاں سیو نا رولا اپنی پر جوش فصاحت کے ساتھ لوگوں کو وعظ و نصیحت سے راہ حق دکھانے میں مصروف رہا۔ وہ عدالت بھی آج تک قائم ہے جہاں اسے بادشاہ اور مذہب کے مدعیوں کے مظالم کے خلاف جدو جہد کرنے پر 22 مئی1498 کو اس کے دو ساتھیوں سمیت پھانسی کی سزا سنائی گئی اور کہا گیا کہ ان کے مرنے کے بعد ا ن کی لاشیں زنجیروں کے ذریعے بھڑکتی ہوئی آگ پر لٹکا دی جائیں ۔ پہلے اس کے دونوں ساتھیوںکو پھانسی دی گئی ان کے بعد سیونا رولا کی باری آئی وہ بڑے اطمینان کے ساتھ تختے پر چڑھا او رپھانسی کا رسہ چوم کراپنے گلے میں ڈال لیا پھر ان تینوں کی لاشوں کو زنجیروں سے کس کر آگ پر لٹکا دیاگیاجب وہ جل کر راکھ ہوگئیں تو ان کی راکھ دریا آرنو میں پھینک دی گئی۔ یہ واقعہ 23 مئی1498 کو پیش آیا۔

آپ ہی بتائیں !کیا سیونا رولا پاگل یا دیوانہ تھا یا اپنی زندگی کا دشمن تھا یا سقراط، برونو ، ٹالسٹائی، ترگنیف ، بالزاک ، والٹیئر ، روسو ، سمرسٹ ماہم، ہنرک ابسن، ہرمن میلول ، ہاورڈ فاسٹ ، یوری پیڈیز،اسکائی لس، لانجائی نس، اووڈناسو،جیوفری چاسر، ولیم ورڈز ورتھ اپنے دشمن آپ تھے۔ کیا یہ سب کے سب پاگل اور دیوانے تھے کیا یہ سب اپنی اپنی زندگی سے تنگ تھے کیا انھیں اپنے سکھ، چین ، خوشیوں ، خوشحالی سے نفرت تھی اگر آپ کا جواب ہاں میں ہے تو پھر آپ اپنی بد حالی، غربت و افلاس ، گالیوں ، دھتکاروں میں اپنی بقیہ زندگی بھی ہنسی خوشی گذار دیں اور اگر آپ کا جواب نہ میں ہو تو پھر آپ سوچیں کہ اب آپ نے کیا کرنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں