دھرنے کے آفٹر شاکس اور احسن اقبال کا حلقہ

نارووال میں وزیر داخلہ احسن اقبال کا اپنا گھر اور ڈیرہ بھی دھرنا دینے والوں کے محاصرے میں آگیا تھا۔

tanveer.qaisar@express.com.pk

اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اسلام آباد، راولپنڈی کے سنگم (فیض آباد) پر دیے گئے 22 روزہ جانگسل اور صبر آزما دھرنے کے بعد قوم کو درپیش بحران ختم ہو گیا ہے۔ دھرنے کی مرکزی شخصیت حضرت مولانا خادم حسین رضوی صاحب مد ظلہ العالی، پیر محمد افضل قادری صاحب دامت برکاتہ اور اُن کے جملہ معتقدین کے ساتھ ساتھ ساری ملّتِ پاکستان سُرخرو رہی کہ کوئی مزید بڑا سانحہ رُونما نہ ہو سکا۔جو چھ سات لوگ شہادت پا گئے، اللہ کریم اُن کی مغفرت فرمائے۔

یہ شہادتیں دراصل اس امر کی بھی غماز ہیں کہ مسلمان خواہ عمل کے میدان میں کتنے ہی غافل اور خطا کارہوں، وہ حرمتِ رسول صلّی اللہ علیہ وسلّم پر ہمہ وقت کٹ مرنے کوتیار رہتے ہیں: ''نہ جب تک کٹ مروں مَیں خواجہ یثرب کی عزت پر؍ خدا شاہد ہے کامل میرا ایماں ہو نہیں ہو سکتا۔'' وزیر قانون زاہد حامد کے مطلوبہ استعفے سے اگر سارا معاملہ ٹل جانا تھا تو یہ قدم پہلے اٹھا لیا جاتا تو بہتر ہوتا۔

ماضی قریب میں اگر مسلم لیگ نون کی حکومت پرویز رشید، طارق فاطمی، مشاہد اللہ، رانا ثناء اللہ، رانا مشہود ایسے وزراء سے استعفے لے کر پیدا شدہ بحرانوں کو ٹال سکتی تھی تو زاہد حامد کو بھی ''تحریکِ لبیک'' کے مطالبے پر فارغ کرکے امن وامان کی فضا قائم رکھی جاسکتی تھی۔ افسوس، ایسا بروقت اور جَلد نہ ہو سکا۔ الحمد للہ، جشنِ عیدِ میلاد النبیؐ شایانِ شان طریقے سے منانے سے قبل ہی یہ متنازع معاملہ نمٹا دیا گیا۔ اب تو بس معاہدے میں لکھے گئے بقیہ وعدوں کو پورا کیا جانا باقی رہ گیا ہے۔

البتہ زاہد حامد کا سیاسی کیرئر انجام کو پہنچتا نظر آ رہا ہے۔ انھیں کہیں سفیر بنائے جانے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ وہ اپنے ایک بیٹے کو بھی 2018ء کے الیکشن میں اتارنے کی بھرپور تیاریاں کررہے تھے۔ لگتا مگر یوں ہے کہ یہ خواہش اب دل ہی میں رہ جائے گی۔ مجھے زاہد حامد کے انتخابی حلقے(پسرور، ضلع سیالکوٹ)کے دوتین اہم سیاستدانوں سے گفتگو کا موقع ملا ہے۔سب نے کہا:''اللہ تعالیٰ نے زاہد حامد کا کانٹا نکال دیا ہے۔'' پچھلے دس برسوں سے یہ لوگ زاہد حامد سے مسلسل ہارتے آرہے ہیں۔

محترم مولانا خادم حسین رضوی صاحب کی قیادت میں دیے گئے دھرنے کی حساسیت اور نزاکت اپنی جگہ اہم تھی۔ کئی صوبائی اور وفاقی وزرا کے گھرحملوں کی زَد میں آئے۔ اس مسئلے کی ہینڈلنگ کے دوران سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور موجودہ وزیر داخلہ جناب احسن اقبال، دونوں ہی احتجاج کنندگان کے ہاتھوں متاثر ہُوئے ہیں۔

فیض آباد (راولپنڈی) میں بروئے کار چوہدری نثار کا گھر حملے اور تشدد کی زَد میں آیا۔ خدا کا شکر ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہُوا۔ چوہدری صاحب کے گھر کو ٹارگٹ کرنا غیر مناسب تھا کہ وہ تو اب حکومت ہی میں نہیں ہیں؛ چنانچہ چوہدری صاحب غصے اور طیش میں احسن اقبال صاحب پر برس پڑے ہیں۔انھیں ''نااہل اور بے خبر وزیرداخلہ'' بھی کہا ہے۔

احسن اقبال صاحب نے مگر اِس کا بُرا نہیں منایا ہے کہ چوہدری نثار ہر لحاظ سے اُن سے سینئر ہیں اور جناب احسن اقبال کی خاندانی تربیت نے انھیں یہ راستہ دکھایا کہ اس وقت شائد انھیں یاد نہیں رہا تھا کہ وہ خود وفاقی وزیر داخلہ تھے جب ایک کلاشنکوف بردار تنہا شخص( سکندر) نے (اگست2013ء کے وسط میں) سارے اسلام آباد کو یر غمال بنا لیا تھا لیکن چوہدری صاحب کچھ بھی نہ کرسکے تھے۔ وہ تو بھلا ہو زمرد خان کا جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اس مسلّح شخص کے ہاتھوں سے مہلک ہتھیار چھین لیے تھے اور یوں اسلام آبادیوں کی جان میں جان آئی تھی۔


نارووال میں وزیر داخلہ احسن اقبال کا اپنا گھر اور ڈیرہ بھی دھرنا دینے والوں کے محاصرے میں آگیا تھا۔ تحریکِ لبیک کے مرکزی قائد حضرت مولانا خادم حسین رضوی صاحب کی آواز پر لبیک کہتے ہُوئے نارووال شہرسے متصل علی پور شریف کے معروف گدی نشین قبلہ پیر کرامت شاہ صاحب اپنے بیشمار مریدین کے ساتھ نکلے اور جسّڑ بائی پاس پر دھرنا دے دیا۔ یہ مقام احسن اقبال صاحب کے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ہے۔

مظاہرین کا وہاں دھرنا دینا براہ راست وزیر داخلہ کو چیلنج دینے کے مترادف تھالیکن مقامی انتظامیہ نے احسن اقبال کے کہنے پر صبر اور اعراض ہی سے کام لیا۔ بس ٹوکن کے طور پر چند گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ پیر کرامت شاہ صاحب کا دھرنا مگر مقامی انتظامیہ پر گراں گزر رہاتھا؛ چنانچہ اِس دوران پیر صاحب کے دو قریبی اور معتمد دوستوں (اقبال اختر اور سعید الحق ملک) کو تلاش کیا گیا۔

نارووال کی ضلعی انتظامیہ نے دونوں صاحبان کو درخواست کی کہ وہ اپنا اثرو رسوخ بروئے کار لاتے ہُوئے قبلہ پیر کرامت شاہ صاحب کو دھرنا ختم کرنے پر قائل اور مائل کریں۔ محبت اور اعتماد کا یہ وسیلہ ثمر آور ثابت ہُوا۔ مقامی سینئر پولیس افسر نے دھرنے میں آکر جذباتی نعرے بھی لگا دیے تاکہ مظاہرین خوش اور مطمئن ہو جائیںاور یہ اعلان بھی کیا کہ گرفتار کارکنان رہا کر دیے جائیں گے۔ افسوس، علی پور شریف کے دوسرے پیر شجاعت حسین صاحب اس دوران بوجوہ گرفتار کر لیے گئے۔ یہ پولیس کی وعدہ خلافی اور زیادتی تھی لیکن انھیں بھی رات گئے عزت واحترام سے رہا کر دیا گیا۔

اس دوران جب حکومت مخالف ایک سیاسی جماعت کی مقامی قیادت نے دیکھا کہ معاملہ تو احسن اندازمیں حل ہو گیا ہے تو انھوں نے اشتعال انگیزی کرتے ہُوئے وزیر داخلہ احسن اقبال کے گھر پر یلغار کرنا چاہی لیکن پیر کرامت شاہ صاحب کا سخت ردِ عمل دیکھتے ہُوئے بہت سے لوگوں کے اُٹھے ہُوئے قدم وہیں رُک گئے۔ مَیں نے اِس ساری ہیجان خیز کہانی کا ذکر جب وزیر داخلہ کے حلقے میں ایک پریس کلب کے صدر، مشہور صحافی میاں اظہر عنائت صاحب سے کیا تو انھوں نے بھی حرف بہ حرف اس کی تصدیق کی۔

جناب احسن اقبال کے حلقے میں پھیلے اشتعال اور غصے کو ممتازمقامی عالمِ دین مولانا ابو حفص محمد غیاث الدین صاحب ٹھندا کر سکتے تھے۔ مولانا موصوف نون لیگی ایم پی اے ہیں اور اُن کا تعلق بھی ضلع نارووال ہی سے ہے لیکن وہ بوجوہ خاموش ہی رہے۔واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف کی جماعت اور شاہد خاقان عباسی و شہباز شریف کی حکومتوں میں جتنے بھی مقتدر علمائے دین شامل ہیں، وہ سب تازہ بحران کو پُر امن انداز میں حل کرنے اور نون لیگی حکومت کا دست وبازو بننے میں ناکام رہے ہیں۔

ان لوگوں میں مولانا امیر زمان صاحب (وفاقی وزیر پوسٹل سروسز) ، وفاقی وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین حسنات صاحب(بھیرہ شریف کی محترم ترین روحانی شخصیت جسٹس پیر کرم شاہ الازہری مرحوم کے صاحبزادے) اور وفاقی وزیر مواصلات مولانا حافظ عبدالکریم صاحب شامل ہیں۔چاہیے تو یہ تھا کہ یہ سب نون لیگی و مقتدر مذہبی شخصیات اپنا اپنا اثرو رسوخ استعمال کرتے ہُوئے تحریکِ لبیک کے سب محترم اور احتجاجی قائدین سے مذاکرات کرتے اور پُر امن طریقے سے حکومت کو شدید بحران سے نکلنے میں مدد فراہم کرتے مگر مذکورہ شخصیات میں سے کسی ایک حضرت کا بھی موثر کردار سامنے نہیں آسکا ہے۔

وزیر مذہبی امور سردار یوسف صاحب، جن کا کردار بحران حل کرنے میں سب سے نمایاں ہونا چاہیے تھا، بالکل ہی منظر سے غائب رہے۔ سب اپنی اپنی جانیں بچاکر وزیر داخلہ احسن اقبال کی صلاحیتوں کا امتحان لیتے رہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ مذہبی شخصیات حکومت کو درپیش کسی مذہبی و حساس مسئلے کے حل میں معاون ثابت نہیں ہو سکتیں تو ان کے سرکاری وجود کا فائدہ؟ انھیں کن مقاصد کے تحت بھاری سرکاری مراعات سے مسلسل نوازا جاتا ہے؟

حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب بھی سارے بحران سے کنارہ کش رہے، حالانکہ وہ بھی حکومت میں برابر کے شریک ہیں۔ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے سامنے ڈاکٹر اشرف جلالی صاحب کی شکل میں دھرنے کے آفٹر شاکس جاری ہیں۔ شنید ہے کہ اب نون لیگ کے کوئی درجن بھر ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی نے اپنے استعفے سیال شریف کے گدی نشین محترم پیر حمیدالدین صاحب سیالوی کے پاس جمع کروا دیے ہیں اور کچھ ایسے مسائل ہیں جن کا تعلق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ سے ہے۔ یہ بھی دھرنے کاایک آفٹر شاک ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ نون لیگ میں شامل کئی مقتدر مذہبی شخصیات شائستگی سے یہ مسائل حل کر لیں گی۔
Load Next Story