اسلام آباد دھرنا اور ثالثی کا مقدمہ

اگر وزیر داخلہ گولی ہی چلوانا چاہتے تھے تو سول اداروں سے بھی چلوا سکتے تھے۔ فوج سے گولی چلوانا کیوں ضروری تھا۔

msuherwardy@gmail.com

لاہور:
ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ کیا سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں عدلیہ بحال تحریک کے نتیجے میں اس وقت کے سپہ سالار جنرل کیانی نے ثالث کا کردار ادا نہیں کیا تھا؟ نواز شریف کا عدلیہ بحالی لانگ مارچ جب گوجرانوالہ پہنچا تھا تو اس وقت کس نے فون کرکے اس لانگ مارچ کو ختم کرایا تھا اور ثالث کا کردار ادا کیا تھا؟ اگر اس وقت اسٹیبلشمنٹ کا ثالثی کردار منظور تھا توآج اعتراض کیوں؟بہرحال پاکستان میں جمہوریت کے علمبردار پتہ نہیں یہ کیوں چاہتے ہیں کہ جمہوریت کے سارے اصول اسٹیبلشمنٹ پر ہی نافذ کر دیے جائیں جب کہ پارلیمنٹ سیاسی جماعتیں اور سیاستدان بے شک اپنے فرائض سے غفلت برتتے رہیں۔

مجھے اندازہ ہے کہ میری تحریر کو ایک خاص دائرہ کے اندر رہنا ہے۔ میرا خیال ہے کہ حکومت کی نا اہلی' فوج کی ثالثی اور آپریشن کی نا کامی سمیت دیگر اہم امور اپنی جگہ ہے لیکن تحریک لبیک کے لیڈروں کو بھی عدالت میں طلب کیا جانا چاہیے تھا۔

اگر وزیر داخلہ کو پندرہ منٹ میں طلب کیا جا سکتا ہے تو پھر مولانا خادم رضوی کو کیوں نہیں طلب کیا جا سکتا تھا۔میرا خیال ہے کہ انھیں براہ راست دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا جانا چاہیے تھا۔ وہ اس کے بعد نہ ختم کرتے تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہونی چاہیے تھی۔ اگر ایسا ہو جاتا تو شائد فوج کو ثالثی کی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔

فوج کی ثالثی پر اعتراض کرنے کا کیا جواب دیا جائے۔ کیا فوج کو بلوچستان میں ناراض بلوچوں کو منانے کے حوالے سے بھی ثالثی ختم کر دینی چاہیے۔ کیا فاٹا میں بھی اپنا آپریشن ختم کر دینا چاہیے۔ کیا کراچی میں رینجرز جو کام کر رہی ہے وہ بھی ختم کر دینا چاہیے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم فوج کو واقعی بیرکوں میں بھیج کر صرف سرحدوں تک محدود کر دیں تو کیا ہو گا۔ جمہوریت اپنی جگہ۔ لیکن جمہوریت کے علبرداروں سے کیا کوئی سوال کر سکتا ہے کہ اگر کسی مہذب جمہوری ملک میں ایسا بھونڈا پولیس آپریشن ناکام ہو جاتا تو کیا وزیر داخلہ استعفیٰ نہیں دے دیتے۔ کیا وزیر داخلہ کوا س کی ذمے داری نہیں قبول کرنی چاہیے تھی۔

اس وقت عجیب صورتحال ہے کہ فوج کے بغیر ہمارا کام بھی نہیں چلتا اور ہم نے فوج کو برا بھلا بھی کہتے رہنا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج جہاں فوج ملک میں امن و امان کے لیے کردار ادا کر رہی ہے۔ دراصل جمہوریت کی خدمت کر رہی ہے۔ اس لولے لنگڑے جمہوری نظام کو چلانے میں مدد کر رہی ہے۔ سول حکومت کی نااہلیوں پر پردہ ڈال رہی ہے۔ ملک دشمنوں کو ناکام کر رہی ہے۔ نظام کو چلانے میں مدد کر رہی ہے۔اس لیے انھوں نے اٹھنا بھی ان کے کہنے پر ہی تھا۔


کتنے بھولے ہیں میرے یہ دوست۔ بھائی اگر انھوں نے بٹھایا تھا تو پھر اٹھانے کی کیا ضرورت تھی۔ گیم تو بن گئی تھی۔ ملک بھر میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا۔ وزرا کے گھروں پر حملے شروع ہو گئے تھے۔ بات تو ہاتھ سے نکل گئی تھی۔ اگر معاملہ دو تین دن اور چلتا تو نظام کو لپیٹنے کی بھی ضرورت نہیں تھی نظام خود ہی زمین بوس ہو جاتا۔ کتنی بیوقوف ہے یہ اسٹیبلشمنٹ کے اس نے اس نظام کو ایک دفعہ پھر بچا لیا ہے۔

ایک طرف میرے یہ دوست کہتے ہیں کہ فوج نظام کو لپیٹنے کے اسکرپٹ پر کام کر رہی ہے۔ اور میرے یہ دوست اس اسکرپٹ کوناکام کرنے کے لیے پورا زور لگا دیا ہے۔ تو پھر فوج نے یہ سنہری موقع کیوں ہاتھ سے جانے دیا۔ یہ تو ٹیک اوور کا بہترین موقع تھا۔ پتہ نہیں کیوں جانے دیا۔ اگر بٹھا یا تھا تو پھر کوئی مقصد تو ہو گا۔ اسی لیے نواز شریف زاہد حامد سے استعفیٰ کے خلاف تھے۔

کیا یہ حقیقت نہیں جب زاہد حامد خود مستعفیٰ ہونے کے لیے نواز شریف کے پاس گئے تو نواز شریف نے انھیں نہ صرف مستعفیٰ ہونے سے منع کر دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ زاہد حامد ہر گز استعفیٰ نہیں دینا۔ بلکہ انھیں یہ یقین دہانی کرائی کہ اگر کسی موقع پر زاہد حامد کا استعفیٰ نا گزیر ہوا بھی تو صرف زاہد حامد مستعفیٰ نہیں ہو ںگے بلکہ پوری حکومت مستعفیٰ ہو گی۔ نواز شریف پوری حکومت کے مستعفیٰ ہونے کے حق میں تھے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ نوازشریف اس لیے ناراض ہیں کہ ان کا پلان ناکام ہو گیا۔لیکن ہمیں یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ فوج کو درمیان لایا کون۔ فوج خود نہیں آئی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے آرمی چیف کو قائل کیا کہ وہ اس معاملے کو سنبھالنے میں کردار ادا کریں۔ ورنہ فوج تو اس معاملے میں آنے کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔ شہباز شریف کی ذاتی درخواست پر آرمی چیف فوج کی مداخلت پر مانے۔ جہاں تک فوج کی جانب سے گولی نہ چلانے کا معاملہ ہے تو کیا سول ادارے گولی نہیں چلا سکتے تھے۔ کیا پولیس کے پاس بندوق نہیں ہے۔

اگر وزیر داخلہ گولی ہی چلوانا چاہتے تھے تو سول اداروں سے بھی چلوا سکتے تھے۔ فوج سے گولی چلوانا کیوں ضروری تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ شہباز شریف نے ہی آخر میں زاہد حامد کو مستعفیٰ ہونے پر قائل کیا۔فوج نے تو انھیں بھی نہیں کہا کہ وہ مستعفیٰ ہو جائیں۔ وزارت داخلہ کے آپریشن کے بعد حالات اس نہج پر پہنچ گئے تھے کہ اب مستعفیٰ ہونے کیسوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ کیا یہ سوال اہم نہیں کہ جب شہباز شریف نے مشورہ دیا تھا کہ جس نے بھی غلطی کی ہے مسلم لیگ (ن) کو بطور پارٹی اور اس کی حکومت کو اس کے خلاف ا یکشن لینا چاہیے۔ اگر تب شہباز شریف کے مشورہ کے تحت ایکشن لے لیا جاتا تو شائد اس دھرنے کی کوئی وقعت ہی نہ رہتی۔

اب بھی میں سمجھتا ہوں کہ شہباز شریف نے اس مرتبہ پھر اس نظام اور ن لیگ کی حکومت کو بچا لیا ہے۔ انھوں نے ن لیگ کی حکومت اور فوج کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا۔ یہ درست ہے کہ شاہد خاقان عباسی بھی اس حق میں تھے۔ لیکن شائد نواز شریف اور وزیر داخلہ کا کیمپ اس حق میں نہیں تھا ۔ باقی یہ الگ بات ہے کہ اس ثالثی سے جن کی حکومت بچ گئی ہے۔وہ ہی اب اس ثالثی پر اعتراض کر رہے ہیں۔ شائد وہ مستقبل کے دروازے بند کر رہے ہیں تا کہ مستقبل میں ایسی صورتحال ہو تو نظام نہ بچ سکے۔ باقی جب نظام کو لپیٹنا ہو گا۔تو اور بات ہو گی۔ لیکن نظام کو بچانے کے راستے بند کیے جا رہے ہیں۔
Load Next Story