جائزہ دو دھرنوں کا
موجودہ لڑائی کوئی حکومتی اور مولوی حضرات کی جنگ نہ تھی، یہ سیاسی الجھاؤ کا ایک دنگل تھا۔
ابھی اتنا وقت بھی نہیں گزرا کہ آپ بھول گئے ہوں کہ ماڈل ٹاؤن سے علامہ طاہر القادری نے منہاج القرآن کے دفتر سے اپنی تحریک کا آغاز کرنا چاہا تھا تو حکومت پنجاب کی طرف سے اس تحریک کو کس طرح دبایا گیا۔
غالباً پاکستان کی تاریخ میں بیدردی سے کسی تحریک کو دبانے کی ایسی کوشش نہیں کی گئی جو اس وقت کی گئی تھی۔ جہاں خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا اور چند فٹ کے فاصلے سے گولیاں داغی گئیں۔ جس کی رپورٹ جسٹس باقر نجفی نے بنائی ہے۔ مگر وہ ہنوز منظر عام پر نہ آسکی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر وہ کیا وجوہات تھیں کہ ان پر اس قدر سخت قدم اٹھایا گیا جب کہ عقائد اور نظریات میں علامہ طاہر القادری اور تحریک لبیک کے رہنما خادم حسین رضوی میں کوئی واضح فرق نہیں، البتہ علامہ قادری کی زبان اور بیان مرصع اور مسجع ہے۔
اب عقائد اور نظریات حقیقتاً اللہ اور بندے کا اندرونی روحانی معاملہ ہے۔ یہ کسی پر واضح نہیں ہوسکتا، ہم تک تو وہی نقش آتے ہیں جو الفاظ سے ادا ہوتے ہیں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ طاہر القادری کے جلوس پر اس قدر سفاکی کہ گلو بٹ کی اصطلاح وہیں سے رائج ہوگئی جب کہ تحریک لبیک کو 18 صفر سے جمع ہونے کی اجازت تھی اور لوگ بتدریج جمع ہو رہے تھے مگر یہاں کوئی سخت گیر پالیسی (ن) لیگ کی قیادت نے نہ کی، جوکہ علامہ طاہر القادری کے ساتھ کی گئی۔ مگر تحریک لبیک اور علامہ طاہر القادری میں واضح فرق ہے، کیونکہ تحریک لبیک محض ایک نکاتی دھرنا تھا جو ختم نبوت کے طے شدہ مسئلے کو چھیڑنے کے خلاف تھا، اس کا ریاستی سیاست اور نظریہ سے کوئی تصادم نہ تھا مگر ملک کی کثیر آبادی مشکوک ہوگئی تھی کہ یہ سب کچھ مغربی شرارت ہے۔
حکومت یہ سمجھتی رہی کہ وہ مقبول جماعت ہے، ہر مسئلے سے نمٹ لے گی، اور اس کی جماعت بڑے دم خم والی ہے۔ مگر اس نے فوج کو طاقت کے استعمال کے لیے بلانے کو کہا مگر کمانڈر انچیف نے ایسے نازک مسئلے پر عوام کے خلاف فوج کو استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ یہاں پر مرکزی حکومت منہ کے بل گر پڑی، لیکن پہلے یعنی طاہر القادری کے کیس میں ایسا کیوں نہ ہوا۔ محض اس لیے کہ علامہ طاہر القادری نے اپنے سیاسی پتے کھول کر رکھ دیے تھے۔
ان کے خیالات متحدہ پاکستان کے نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما مولانا بھاشانی کے فکری خیالات سے قریب تر تھے، حالانکہ انھوں نے اسلامی سوشلزم کا نام نہ لیا تھا مگر ان کا پہلا دھرنا جو پیپلز پارٹی کے دور میں ہوا تھا انھوں نے اپنی تنظیم کی معاشی پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کو آپ اسلامی سوشلزم بھی کہہ سکتے ہیں، انھوں نے مزدوروں، کسانوں اور غریب رعایا کے لیے متوازی راہ کو اختیار کرنے کو کہا تھا اور اپنی تقریر میں مارکس اور لینن کا نام استعمال کیا تھا اور حضرت ابوذر غفاری کا انداز ریاست قائم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
ظاہر ہے یہ انداز ملک کی مضبوط سرمایہ دار حکومت کو پسند نہ تھا جب کہ علامہ طاہر القادری یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ اس حکومت کو زک پہنچا کے ہی دم لیں گے۔ مگر ایسا نہ ہوسکا پہلے پیپلز پارٹی نے چکمہ دے دیا اور رفتہ رفتہ عمران خان نے بھی راستہ بدل لیا، کیونکہ عمران خان کا معاشی نظام وہی پسندیدہ ہوگا جو برطانیہ کا ہے۔ مگر یہاں وہ نظام رائج نہ ہوسکے گا جیسا برطانیہ میں ہے کیونکہ ملکہ برطانیہ آج بھی غیر منقسم ہندوستان کی دولت کے بل بوتے پر پرسکون ہے، جب کہ پاکستان کے لیڈروں نے پاکستان کو امپورٹڈ اسٹیٹ بنادیا ہے یعنی ایسا ملک جہاں لپ اسٹک سے لے کر فرنیچر تک امپورٹڈ آئٹم مارکیٹ میں بھرا پڑا ہے۔
موجودہ لڑائی کوئی حکومتی اور مولوی حضرات کی جنگ نہ تھی، یہ سیاسی الجھاؤ کا ایک دنگل تھا جو لوگ حکومت کے خلاف گھیرا ڈالے تھے ان کے پاس ہر قسم کی زندگی کی سہولت موجود تھی پھر بھی9 افراد نے اپنا خون اس تحریک کو پلایا۔ اب یہ بات تو میرے علم میں نہیں شہدا کے لواحقین کو کوئی مالی امداد دی گئی یا نہیں، ممکن ہے یہ بات چند دنوں بعد سامنے آئے اور تحریک کے محرکین کو اس کا اندازہ بھی ہے یا نہیں یا یہ بھی گمنام لوگوں کی طرح ناپید ہوگئے۔
مگر پاکستان کے لوگوں اور خصوصاً سیاسی کارکنوں کے لیے یہ دھرنا ایک سیاسی سبق ہے کہ اب اس دھرنے کے نتائج نے پاکستان کے کئی ریاستی پہلوؤں کو واضح کردیا کہ سب الگ الگ پیج پر ہیں، کیونکہ اگر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بیان کا متن جو 28 نومبر کو شایع ہوا ہے اس کو پڑھیں تو حیرت ہوتی ہے جس سے ملک کی انتظامی حیثیت نہایت مخدوش معلوم ہوتی ہے۔ اب ذرا غور فرمائیں ہائیکورٹ کا جسٹس جب تلخ جملے ادا کرے تو ہماشما کی کیا حیثیت۔ گویا ہر طرف ایک لاقانونیت کا دور دورہ ہے۔
تو یہ خدا ئے بزرگ و برتر ہے جو اس ملک کو بچائے ہوئے ہے، نہ حکمراں عوام کی فلاح میں کوشاں ہیں اور نہ ان کے زیر اثر کام کرنے والے۔ ہر ادارہ ازخود اپنا رہنما ہے، مرکزیت اور نظم و ضبط سے عاری۔ ایک اور افواہ جو خبر کی شکل میں لوگوں تک پہنچی کہ فیض آباد کے دھرنے والوں کے پاس آنسو گیس کے شیل اور ان کو فائر کرنے کی مشین بھی موجود تھی اور گیس سے بچاؤ کے ماسک بھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگر ایسا ہے تو پھر اس کا جواب خود حکمراں جماعت ہی دے سکتی ہے۔
اب بات رہ گئی ہے الیکٹرانک میڈیا کی تو یہ بھی دماغ سازی اور ذوق کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ یہاں پر ہمہ وقت مذہبی گفتگو ہوتی ہے، چلیے مذہبی اخلاقیات اور ہر مذہب اور فرقے کا احترام لازم ہے مگر جو اسلامی ریاست کے سیاسی موضوعات ہیں ان کو بالکل رد کردیا گیا ہے اور انسانی ضروریات زندگی میں جو اسلامی فلاحی تصورات ہیں ان کو ٹی وی بدر کردیا گیا ہے۔
لوگوں کی رہائش کی ضروریات، کھانے پہننے پڑھنے رہنے کا اسلام سے کیا کوئی تعلق نہیں، اس مسئلے پر ٹی وی پر مباحثہ نہیں، ہر ماہ یا دوسرے ماہ ڈیزل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ۔ جن جگہوں پر گوشت یا سبزی فروخت ہوتی ہے، چھوٹی جگہ ہوتی ہے، ان کے کرائے 30 یا 40 ہزار روپیہ ماہانہ یہ کیا انسانوں کا مسئلہ نہیں، اس پر لوگ کب کھڑے ہوں گے۔ مگر انسان کا بچاؤ تو اول ہے مگر کسی لیڈر کو فرصت نہیں کہ وہ عوام کی ضروریات کو مدنظر رکھے۔ جب کہ مذہبی لیڈروں کی بنیادی سوچ میں کوئی فرق نہیں، البتہ تحریک لبیک کے رہنما محض ایک راہ ختم نبوت کا چراغ تھامے ہیں، جب کہ علامہ طاہر القادری دین و دنیا کے راستوں کو لے کر چل رہے تھے، البتہ تحریک لبیک میں زاہد حامد کی سست روی اور ختم نبوت کی دستاویزات پر لیت و لعل، تجاہل اور تغافل نے دھرنے کو ایندھن فراہم کیا اور نتائج حکومت کی زوال پذیری رہی، جو کہاں جا کے رکے گی کہا نہیں جاسکتا۔
پنجاب جو (ن) لیگ کا قلعہ تھا اس کا بڑا دروازہ ٹوٹ چکا ہے اور حکومت میں دراڑیں پڑ چکی ہیں جیساکہ آپ نے خود دیکھ لیا کہ ہر شخص اپنی منطق کا غلام ہے۔ ہاں یہ بات ضرور سامنے آچکی ہے کہ جو شخص نظام حکومت بدلنے کی کوشش کرے گا وہاں سارے فریق اکٹھے ہوجائیں گے ان لوگوں کو رحمت اللعالمینؐ کی محبت تو دل میں موجود ہے مگر فرمودات نبی اکرمﷺ پر عمل یاد نہیں، مساوات محمدی کا راستہ بڑا مسدود کردیا گیا ہے وہ جو اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا تھا اور نسخہ کیمیا ساتھ لایا تھا، وہ ہم بھلا بیٹھے ہیں، غریب بستیوں میں سے رات گئے بھوکے بچوں کے رونے کی آوازیں آتی ہیں اور حکمراں چین کی بنسری بجا رہے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا اپنے جعلی مباحثوں میں عوام کو الجھائے ہوئے ہے، جس نے سیاسی سوچ اور عوامی مسائل کو پس پشت ڈال دیا ہے۔