بھارتی حکمرانی کا کھوکھلا پن
بی جے پی کی حکومت بجائے اس کے کہ اس تاریخی مسجد کے انہدام کامداوا کرتی وہ الٹا مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر پر مصر ہے
6 دسمبر کو بابری مسجد کے انہدام کو25 سال ہو جائیں گے۔ یہ کام کانگریس کی حکومت کے دور میں 1992ء میں کیا گیا تھا جب پی وی نرسمہا راؤ وزیراعظم تھے۔ بی جے پی کی حکومت بجائے اس کے کہ اس تاریخی مسجد کے انہدام کا مداوا کرتی وہ الٹا مسجد کے مقام پر مندر کی تعمیر پر مصر ہے۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھگوت نے بیان جاری کیا ہے کہ ایودھیا میں صرف ایک عظیم الشان مندر تعمیر کیا جائے گا۔ یہ دراصل مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ روشن خیال لوگوں کے ساتھ بھی زیادتی ہے جو ملک کی رنگا رنگی کی حمایت کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسجد اور مندر بیشک ساتھ ساتھ قائم و دائم رہیں۔
بہرحال تاریخی بابری مسجد کا انہدام بھارت کے سیکولر چہرے پر ایک بدنما دھبہ ہے' اب اگر صرف مندر تعمیر کیا جائے تو یہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہو گا۔ مجھے یاد آتا ہے کہ مسجد کے انہدام کے نتیجے میں پورے ملک میں ہندو مسلم فسادات شروع ہو گئے تھے۔ اس وقت کے بھارتی وزیراعظم نرسمہا راؤ نے صورتحال کی وضاحت کے لیے سینئر صحافیوں کا ایک اجلاس طلب کیا تھا۔ انھوں نے حالات پر قابو پانے کے لیے میڈیا کا تعاون طلب کیا۔
انھوں نے کہا کہ مرکزی حکومت بے بس ہو چکی ہے کیونکہ مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ہزاروں کار سیوک اکٹھے ہو چکے ہیں۔ آنجہانی سوشلسٹ لیڈر مدھو لیمائے نے مجھے خود بتایا تھا کہ نرسمہا راؤ نے جو پوجا کا ڈھونگ رچایا تھا اس کا بنیادی مقصد ہی یہ تھا کہ مسجد کے انہدام کی طرف کسی کا دھیان ہی نہ جا سکے۔ اس نے آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ گویا پوجا میں اس کا دھیان نروان کی طرف لگا ہوا ہے لیکن جب اس کے ایک ساتھی نے اس کے کان میں سرگوشی کی کہ مسجد کو گرا دیا گیا ہے تو اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں۔
نرسمہا راؤ مسجد کے انہدام سے قبل اس کارروائی کو بہ آسانی روک سکتے تھے جہاں تک صدارتی حکم کے نفاذ کا تعلق ہے تو اس کا فیصلہ تو دو ہفتے قبل ہی کر لیا گیا تھا بس اس کے لیے کابینہ کی توثیق درکار تھی لیکن وزیراعظم نے کابینہ کا اجلاس ہی طلب نہ کیا۔ جب انہدام شروع ہو گیا تو وزیراعظم کے دفتر سے بڑے اضطراب بھرے فون آنے لگے۔ اگرچہ کانگریس نے نرسمہا راؤ کے خلاف الزام کی تردید کی ہے لیکن پارٹی ابھی تک اس بات کی وضاحت نہیں کر سکی کہ آخر مسجد کے انہدام کے ساتھ ہی اس جگہ راتوں رات ایک چھوٹا سا مندر کس طرح کھڑا ہو گیا۔
مرکزی حکومت اس وقت مکمل طور پر بااختیار تھی کیونکہ اتر پردیش پر صدارتی حکم کے نفاذ کے بعد صوبائی حکومت کو برخاست کر دیا گیا تھا۔ بہرحال بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعہ ریاست کی سرحدوں سے نکل کر پورے ملک میں پھیل گیا جب کہ مرکزی حکومت روز بروز کی پیشرفت کا بغور جائزہ لے رہی تھی۔ جسٹس من موہن سنگھ لائبرہن کمیشن کی نرسمہا راؤ کے طرز عمل پر خاموشی کانگریس کی پوزیشن پر پردہ ڈالنے کی غرض سے تھی۔
بابری مسجد کے انہدام کے بعد جب اٹل بہاری واجپائی سے اس مسئلہ پر بات کرنے کے لیے کہا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے مندر کو بن لینے دو۔ مجھے ان کے اس جواب پر بہت حیرت ہوئی کیونکہ میں انھیں بی جے پی میں آزاد خیال رہنما سمجھتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ عدالتی کمیشن نے واجپائی کو بھی مسجد کے انہدام میں قصور وار قرار دیا۔ آخر مسجد کے انہدام میں ملوث ہونے کے باوجود وہ اس الزام سے انکار کس بنا پر کر سکتے ہیں؟
6 دسمبر 1992ء کو بی جے پی کے دو لیڈروں ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر کو بھی مسجد کے انہدام کے جرم میں برابر کا ملوث قرار دیا گیا۔ واجپائی کا نام میرے لیے بہت حیرت انگیز تھا۔ جب واجپائی وزیر اعظم بنا تو وہ ایک بالکل بدلا ہوا شخص تھا۔ انھوں نے دانشوروں اور صحافیوں سے بھری ہوئی بس کو لاہور کے خیرسگالی دورے پر لے جانے کی قیادت کی، وہ پڑوسیوں کو امن اور صلح کا پیغام دینا چاہتے تھے۔ ان تینوں اہم شخصیات نے ملک کے اعلیٰ ترین مناصب پر متمکن ہو گئے ۔واجپائی وزیراعظم بن گئے۔ ایڈوانی وزیر داخلہ بن گئے اور جوشی انسانی وسائل کی ترقی کے وزیر بن گئے۔
اگر یہ تینوں بابری مسجد کے انہدام میں ملوث تھے تب اعلیٰ عہدوں کا حلف اٹھاتے وقت انھوں نے اس حلف کی صحیح معنوں میں پاسداری نہیں کی کیونکہ حلف میں یہ وعدہ بھی شامل تھا کہ وہ ملک کی یکجہتی کے لیے کام کریں گے اور آئین کی بالادستی کو مقدم خیال کریں گے جس کے دیباچے میں سیکولرزم کا لفظ لکھا گیا ہے۔ لائبرہن کمیشن نے کہا ہے کہ متذکرہ تینوں افراد بھی ان 68 لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کرانے کی کوشش کی۔
صرف یہی نہیں بلکہ متذکرہ تین لیڈروں نے سپریم کورٹ کے حکم کی بھی خلاف ورزی کی جس میں کہا گیا تھا کہ ''اسٹیٹس کو'' کو ہر صورت میں برقرار رکھا جائے۔ دوسرے الفاظ میں انھوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ اور ملک کے آئین و قانون کا مذاق اڑانے کی کوشش کی حالانکہ حلف اٹھانے سے قبل انھوں نے آئین اور قانون کی پابندی کی قسم کھائی تھی۔ اور ان تینوں نے چھ سال تک حکمرانی کی لیکن اس تمام عرصے کے دوران انھوں نے مکافات کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ کیا چھ سال تک ان کے ضمیر نے انھیں بے ضمیری کا احساس نہیں دلایا۔
یہ صرف قانون کا سوال نہیں بلکہ اخلاقیات کا سوال بھی ہے۔ آخر جب متذکرہ لیڈروں نے مسجد کو منہدم کرنے کا باقاعدہ طور پر منصوبہ بنا لیا تھا تو وہ اتنے اہم مناصب پر کس طرح فائز کیے جا سکتے تھے۔ یہ ایسا سوال ہے جس پر ملک میں کھلے عام بحث کرائی جانی چاہیے تاکہ اس کا درست جواب حاصل ہو سکے۔ جن لوگوں کے ہاتھ صاف نہ ہوں انھیں پارلیمنٹ کے مقدس ایوان میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں ہونی چاہیے۔ دریں اثناء شری شری روی شنکر اسٹیک ہولڈروں کو روحانی مشقیں کرا رہے ہیں۔
انھوں نے حال ہی میں ایودھیا کا دورہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس مسئلہ کا حل ایک دورسے پر الزام تراشیوں کے بجائے مذاکرات اور ایک دوسرے کی عزت و تکریم کے ذریعے نکالا جا سکتا ہے۔ شری شری روی شنکر کی ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی ادتیا ناتھ کے ساتھ بھی ملاقات ہوئی جنہوں نے شری شری روی شنکر کو ان کے نیک مقاصد میں ہر ممکن تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی جے پی اپنی انتخابی مہم ایودھیا سے شروع کر رہی ہے جس کی تعمیر و ترقی کا وعدہ بھی موجودہ حکومت نے کیا ہے۔
بی جے پی کے جنرل سیکریٹری رام مدھو نے رام مندر کے بارے میں سوال پوچھنے پر کہا کہ چونکہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اس لیے اس بارے میں کوئی سوال جواب نہیں ہو سکتا۔ بہتر یہی ہے کہ ہم قانونی عمل کے مکمل ہونے کا انتظار کریں۔ جہاں تک شری شری روی شنکر کا یہ معاملہ حل کرانے میں اپنی خدمات پیش کرنے کا تعلق ہے تو انھوں نے 2001ء میں بھی ایسا کرنے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہ ہو سکے تھے ان کی پیشکش کا ردعمل وہی ہوا جو آج ہو رہا ہے۔
ایک ہندو لیڈر سریندر جین کا کہنا ہے کہ اس مسئلہ میں اصل رکاوٹ آر ایس ایس کے چیف موہن بھگوت کے اس بیان کی وجہ سے پیدا ہوئی کہ ایودھیا میں صرف اور صرف مندر ہی بنے گا اور کچھ نہیں بن سکتا حالانکہ مسلمانوں نے تسلیم کر لیا تھا کہ مسجد کے پہلو میں مندر کی تعمیر پر انھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا اس حوالے سے آر ایس ایس کے سربراہ کا بیان آگ بھڑکانے کے سوا اور کچھ نہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)