برما کے مسلمانوں کی نسل کشی
میانمار کی حکومت ملک کو مسلم اقلیت سے پاک کرنے پر تلی ہوئی ہے
برما میںمسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ انسانی حقوق کی چیمپئن کہلانے والی برمی خاتون رہنما آنگ سان سوچی بھی ان وحشیانہ مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے بجائے اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں کہ روہنگیز مسلمان میانمار کے شہری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ یہاں کے محض رہایشی ہیں۔ برما کی غالب اکثریت بدھ مت کی پیروکار ہے۔ افسوس صد افسوس کے گوتم بدھ کے ماننے والوں نے برما میںقتل و غارت کی ہے۔
برما میں مسلمانوں کی سیاسی تنظیم جو 1857 کی جنگِ آزادی سے بھی پہلے سے یعنی 1845 سے قائم ہے، 1955 میں برما کی حکومت نے اس پر پابندی عاید کردی تھی۔ برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد ریڈیو پاکستان کے بیرونی نشریات کے شعبے میں برمی سروس کا اضافہ بھی کردیا گیا تھا جس کی برمی زبان کی نشریات کو برما میں بڑی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی تھی لیکن سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بوجوہ نشریات کا یہ سلسلہ حکومتی پالیسی کے تحت منقطع کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں برما کے ساتھ پاکستان کے رابطے کی ایک اہم کڑی ایک غلط سرکاری فیصلے کی وجہ سے ٹوٹ گئی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کے بعض سفارت کاروں نے جن میں سینئر سفارت کار افضال محمود کا نام قابلِ ذکر ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کے فروغ میں نہایت اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ افسوس کہ ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے تعیّن میں کافی عرصے سے میانمار سابقہ برما کو یکسر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ برما کے مسلمان آج کسمپرسی کی حالت میں بے یارومددگار ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برما کے مسلمانوں نے اس ملک کی فلاح و بہبود کے لیے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کی خدمات کو نظرانداز کرنا ان کے ساتھ سراسر ناانصافی کے مترادف ہوگا۔برما کے مسلمان اس وقت سخت عذاب میں مبتلا ہیں۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ ہے۔ ان کی شہری آزادیاں مکمل طور پر سلب ہیں۔
حکومت نے ذبیحے پر پابندی عاید کردی ہے، جس کے باعث انھیں حلال گوشت بھی میسر نہیں ہے۔ انھیں حج پر جانے کی بھی اجازت نہیں ہے اور وہ اپنی زندگی شریعت کے مطابق گزارنے سے قاصر ہیں۔ برما کے کلمہ گو 1962 سے صوبہ اراکان میں مقامی آبادی اور افواج برما کے ہاتھوں مسلسل بربریت اور ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ او آئی سی کا ادارہ بھی برما کے اپنے بھائیوں کے ساتھ بے اعتنائی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ برطانیہ کے مسلمان رکنِ پارلیمان لارڈ نذیر احمد پہلی بین الاقوامی شخصیت ہیں جنھوں نے اپنے برمی بھائیوں کے ساتھ نہایت جرأت مندانہ انداز میں اظہارِ ہمدردی اور یکجہتی کرتے ہوئے برمی سفیر کو خط لکھا جس میں ان سے مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کا بھرپور مطالبہ کیا گیا ہے۔
برما کی کل آبادی تقریباً چھ کروڑ افراد پر مشتمل ہے، جن میں مسلمانوں کا تناسب چار فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت برما میں مسلمانوں کی تعداد 24 لاکھ کے قریب ہے۔ برما میں مسلم کش فسادات کی حالیہ لہر 3 جون سے آئی ہوئی ہے۔ آزاد ذرایع کا اس بارے میں کہنا یہ ہے کہ ایک بدھ لڑکی نے اسلام قبول کرلیا جس پر یہ قیامت برپا ہوگئی۔ بدھوں نے شدید غیظ و غضب کی کیفیت میں اس لڑکی کو قتل کردیا اور الٹا چورکوتوال کو ڈانٹے کے مصداق سارا الزام بے چارے مسلمانوں پر منڈھ دیا۔ یہ واقعہ 28 مئی کو پیش آیا تھا۔ 3 جون کو بدھوں نے ایک بس کو روکا اور اس میں سوار تبلیغی جماعت کے لوگوں کو بس سے جبراً اتار کر قتل کردیا۔ اس کے بعد بدھوں نے فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قتل عام کا بازار گرم کردیا۔
لاکھوں مسلمانوں کی جھونپڑیاں نذرِ آتش کردی گئیں۔ برما کی حکومت نے عرصہ دراز سے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ مسلمان تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، علاج معالجہ نہیں کراسکتے اور سفر بھی نہیں کرسکتے۔ خیمہ بستیوں میں صفائی کے فقدان کی وجہ سے ملیریا اور دست جیسے وبائی امراض بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ ماگ ملیشیا نامی برما کی مسلم کش تنظیم نے مسلمانوں کے 20 دیہات اور 1600 مکانات صفحۂ ہستی سے مٹادیے۔ مسلمانوں کی املاک کو پٹرول چھڑک کر آگ لگادی۔ 15 سال کی عمر سے بڑے مسلمان بچّوں کو فوج زبردستی اٹھا کر خرکار کیمپ لے جاتی ہے جہاں خرکار ان سے جبراً مشقت لیتے ہیں۔
برما مسلم کش فسادات میں وہاں کا مسلم اکثریتی صوبہ اراکان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مظلوم برمی مسلمان سرحد پار کرکے پڑوسی برادر مسلم ملک بنگلہ دیش جانے پر مجبور ہوگئے، مگر المیہ ہے کہ بنگلہ دیش نے بھی اپنے ان ستم رسیدہ بھائیوں کے داخلے کے لیے اپنی سرحدیں بند کردی ہیں۔ تنگ آکر ان مظلوموں نے جب پڑوسی ملک تھائی لینڈ کا رخ کیا تو وہاں کی فوج نے پہلے تو ان بے چاروں کو تختۂ مشق بنایا اور اس کے بعد کشتیوں میں بٹھا بٹھا کر کھلے سمندر میں دھکیل دیا اور امواجِ حوادث کے سپرد کردیا۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی حکومت ملک کو مسلم اقلیت سے پاک کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ برمی مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر بارودی سرنگوں کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ لٹے پٹے چودہ ہزار برمی مسلمان تھائی لینڈ کے غیر سرکاری کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ بنگلہ دیش کے سرکاری کیمپوں میں پناہ لینے والے فساد زدہ برمی مسلمانوں کی تعداد 28 ہزار تک جاپہنچی ہے۔ تھائی لینڈ اور برما کی سرحدوں پر لاکھوں برمی مہاجرین کھلے آسمان کے نیچے کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں بوڑھے اور شیر خوار بچّے اور مریض افراد بھی شامل ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بنگلہ دیش اسلامی بھائی چارے کے ناتے ان مظلومین پر اپنے دروازے وا کردیتا جس طرح پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا مگر افسوس کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے اس معاملے میں انسانیت سوز سردمہری کا مظاہرہ کیا ہے۔ البتہ پاکستان نے اپنی ماضی کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اس صورت حال پر گہری تشویش اور غم و غصّے کا اظہار کیا اور ملک کے طول و عرض میںبرما کے مسلمان بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے یومِ احتجاج بھی منایا گیا۔ نیز بعض حلقوں کی جانب سے یہ پرزور مطالبہ بھی کیا گیا کہ حکومتِ پاکستان اسلام آباد میں برما کے سفیر کے ذریعے برما کی حکومت کو عوام کے جذبات سے بھی آگاہ کرے۔ اس کے علاوہ وکلاء برادری نے بھی احتجاجی ریلیاں نکالیں۔
تمام بین الاقوامی تنظیموں اور مسلم ممالک پر لازم ہے کہ وہ اس انسانی مسئلے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور عالمی برادری کو اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے متحرک کریں۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ برما کے اپنے بھائیوں کی مشکل کی اس گھڑی میں دامے، درمے اور سخنے بھرپور ساتھ دیں اور برما کی حکومت پر زیادہ سفارتی دبائو ڈالیں۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مصداق او آئی سی میں برما کے مسلمانوں کے قتلِ عام کا نوٹس لے لیا ہے، مگر بات محض نوٹس لینے تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ ٹھوس عملی قدم بھی جلد از جلد اٹھائے جانے چاہئیں۔
برما میں مسلمانوں کی سیاسی تنظیم جو 1857 کی جنگِ آزادی سے بھی پہلے سے یعنی 1845 سے قائم ہے، 1955 میں برما کی حکومت نے اس پر پابندی عاید کردی تھی۔ برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے بعد ریڈیو پاکستان کے بیرونی نشریات کے شعبے میں برمی سروس کا اضافہ بھی کردیا گیا تھا جس کی برمی زبان کی نشریات کو برما میں بڑی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی تھی لیکن سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد بوجوہ نشریات کا یہ سلسلہ حکومتی پالیسی کے تحت منقطع کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں برما کے ساتھ پاکستان کے رابطے کی ایک اہم کڑی ایک غلط سرکاری فیصلے کی وجہ سے ٹوٹ گئی۔
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کے بعض سفارت کاروں نے جن میں سینئر سفارت کار افضال محمود کا نام قابلِ ذکر ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کے فروغ میں نہایت اہم بلکہ کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ افسوس کہ ہماری خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے تعیّن میں کافی عرصے سے میانمار سابقہ برما کو یکسر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔
یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ برما کے مسلمان آج کسمپرسی کی حالت میں بے یارومددگار ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ برما کے مسلمانوں نے اس ملک کی فلاح و بہبود کے لیے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کی خدمات کو نظرانداز کرنا ان کے ساتھ سراسر ناانصافی کے مترادف ہوگا۔برما کے مسلمان اس وقت سخت عذاب میں مبتلا ہیں۔ ان پر عرصۂ حیات تنگ ہے۔ ان کی شہری آزادیاں مکمل طور پر سلب ہیں۔
حکومت نے ذبیحے پر پابندی عاید کردی ہے، جس کے باعث انھیں حلال گوشت بھی میسر نہیں ہے۔ انھیں حج پر جانے کی بھی اجازت نہیں ہے اور وہ اپنی زندگی شریعت کے مطابق گزارنے سے قاصر ہیں۔ برما کے کلمہ گو 1962 سے صوبہ اراکان میں مقامی آبادی اور افواج برما کے ہاتھوں مسلسل بربریت اور ظلم و تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ او آئی سی کا ادارہ بھی برما کے اپنے بھائیوں کے ساتھ بے اعتنائی کا مظاہرہ کررہا ہے۔ برطانیہ کے مسلمان رکنِ پارلیمان لارڈ نذیر احمد پہلی بین الاقوامی شخصیت ہیں جنھوں نے اپنے برمی بھائیوں کے ساتھ نہایت جرأت مندانہ انداز میں اظہارِ ہمدردی اور یکجہتی کرتے ہوئے برمی سفیر کو خط لکھا جس میں ان سے مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کا بھرپور مطالبہ کیا گیا ہے۔
برما کی کل آبادی تقریباً چھ کروڑ افراد پر مشتمل ہے، جن میں مسلمانوں کا تناسب چار فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت برما میں مسلمانوں کی تعداد 24 لاکھ کے قریب ہے۔ برما میں مسلم کش فسادات کی حالیہ لہر 3 جون سے آئی ہوئی ہے۔ آزاد ذرایع کا اس بارے میں کہنا یہ ہے کہ ایک بدھ لڑکی نے اسلام قبول کرلیا جس پر یہ قیامت برپا ہوگئی۔ بدھوں نے شدید غیظ و غضب کی کیفیت میں اس لڑکی کو قتل کردیا اور الٹا چورکوتوال کو ڈانٹے کے مصداق سارا الزام بے چارے مسلمانوں پر منڈھ دیا۔ یہ واقعہ 28 مئی کو پیش آیا تھا۔ 3 جون کو بدھوں نے ایک بس کو روکا اور اس میں سوار تبلیغی جماعت کے لوگوں کو بس سے جبراً اتار کر قتل کردیا۔ اس کے بعد بدھوں نے فوج کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے قتل عام کا بازار گرم کردیا۔
لاکھوں مسلمانوں کی جھونپڑیاں نذرِ آتش کردی گئیں۔ برما کی حکومت نے عرصہ دراز سے مسلمانوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ مسلمان تعلیم حاصل نہیں کرسکتے، علاج معالجہ نہیں کراسکتے اور سفر بھی نہیں کرسکتے۔ خیمہ بستیوں میں صفائی کے فقدان کی وجہ سے ملیریا اور دست جیسے وبائی امراض بڑی تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ ماگ ملیشیا نامی برما کی مسلم کش تنظیم نے مسلمانوں کے 20 دیہات اور 1600 مکانات صفحۂ ہستی سے مٹادیے۔ مسلمانوں کی املاک کو پٹرول چھڑک کر آگ لگادی۔ 15 سال کی عمر سے بڑے مسلمان بچّوں کو فوج زبردستی اٹھا کر خرکار کیمپ لے جاتی ہے جہاں خرکار ان سے جبراً مشقت لیتے ہیں۔
برما مسلم کش فسادات میں وہاں کا مسلم اکثریتی صوبہ اراکان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں مسلمانوں کے اجتماعی قتل عام کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مظلوم برمی مسلمان سرحد پار کرکے پڑوسی برادر مسلم ملک بنگلہ دیش جانے پر مجبور ہوگئے، مگر المیہ ہے کہ بنگلہ دیش نے بھی اپنے ان ستم رسیدہ بھائیوں کے داخلے کے لیے اپنی سرحدیں بند کردی ہیں۔ تنگ آکر ان مظلوموں نے جب پڑوسی ملک تھائی لینڈ کا رخ کیا تو وہاں کی فوج نے پہلے تو ان بے چاروں کو تختۂ مشق بنایا اور اس کے بعد کشتیوں میں بٹھا بٹھا کر کھلے سمندر میں دھکیل دیا اور امواجِ حوادث کے سپرد کردیا۔
متاثرین کا کہنا ہے کہ میانمار کی حکومت ملک کو مسلم اقلیت سے پاک کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ برمی مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر بارودی سرنگوں کا استعمال کیا جارہا ہے ۔ لٹے پٹے چودہ ہزار برمی مسلمان تھائی لینڈ کے غیر سرکاری کیمپوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ بنگلہ دیش کے سرکاری کیمپوں میں پناہ لینے والے فساد زدہ برمی مسلمانوں کی تعداد 28 ہزار تک جاپہنچی ہے۔ تھائی لینڈ اور برما کی سرحدوں پر لاکھوں برمی مہاجرین کھلے آسمان کے نیچے کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں بوڑھے اور شیر خوار بچّے اور مریض افراد بھی شامل ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بنگلہ دیش اسلامی بھائی چارے کے ناتے ان مظلومین پر اپنے دروازے وا کردیتا جس طرح پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا تھا مگر افسوس کہ بنگلہ دیش کی حکومت نے اس معاملے میں انسانیت سوز سردمہری کا مظاہرہ کیا ہے۔ البتہ پاکستان نے اپنی ماضی کی روایت کو زندہ رکھتے ہوئے اس صورت حال پر گہری تشویش اور غم و غصّے کا اظہار کیا اور ملک کے طول و عرض میںبرما کے مسلمان بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے یومِ احتجاج بھی منایا گیا۔ نیز بعض حلقوں کی جانب سے یہ پرزور مطالبہ بھی کیا گیا کہ حکومتِ پاکستان اسلام آباد میں برما کے سفیر کے ذریعے برما کی حکومت کو عوام کے جذبات سے بھی آگاہ کرے۔ اس کے علاوہ وکلاء برادری نے بھی احتجاجی ریلیاں نکالیں۔
تمام بین الاقوامی تنظیموں اور مسلم ممالک پر لازم ہے کہ وہ اس انسانی مسئلے کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور عالمی برادری کو اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے متحرک کریں۔ اس کے علاوہ اسلامی ممالک کو چاہیے کہ وہ برما کے اپنے بھائیوں کی مشکل کی اس گھڑی میں دامے، درمے اور سخنے بھرپور ساتھ دیں اور برما کی حکومت پر زیادہ سفارتی دبائو ڈالیں۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے کے مصداق او آئی سی میں برما کے مسلمانوں کے قتلِ عام کا نوٹس لے لیا ہے، مگر بات محض نوٹس لینے تک ہی محدود نہیں رہنی چاہیے بلکہ ٹھوس عملی قدم بھی جلد از جلد اٹھائے جانے چاہئیں۔