کرکٹ کارنر کی ڈبل سنچری
آج اگرلوگ یہ کہتے ہیں کہ میں بہت بے باکی سے لکھتا ہوں تو آفس کی سپورٹ کے بغیر ایسا ممکن ہی نہیں تھا
SUKKUR:
'' کیا سوچ رہے ہو بھائی'' میں نے سرفراز احمد کے کان میں ہلکی سی سرگوشی کی
''سلیم بھائی اب تو ہر وقت دماغ میں یہی باتیں چل رہی ہوتی ہیں کہ ٹیم کو کیسے مزید آگے لے کر جانا ہے، ٹیسٹ میں کارکردگی کیسے بہتر بنانی ہے، مجھ پر پی سی بی نے اعتماد کرتے ہوئے قیادت کی ذمہ داری سونپی ہے، کوشش یہی ہے کہ کسی کو مایوس نہ کروں اور تینوں طرز میں پاکستان کو نمبر ون بنواؤں'' سرفراز نے یہ جواب دیا ہی تھا کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے اونر ندیم عمر بھی آ گئے، اس وقت بیچ لگژری ہوٹل میں ہم چائے نوش کرتے ہوئے بات چیت کر رہے تھے، فواد عالم، سابق ٹیسٹ کرکٹرز صلاح الدین صلو، اقبال قاسم، ظفر احمد اور عبدالرحمان رضا بھی ساتھ تھے، یہ سب یہاں میری ساتویں کتاب '' کرکٹ کارنر ٹو'' کی تقریب رونمائی کیلیے آئے تھے۔
سرفراز میں ویسے تو کئی خوبیاں ہیں مگر ان میں نمایاں ترین وقت کی پابندی ہے، ایک دن پہلے انھوں نے مجھ سے کہا کہ میں ساڑھے پانچ بجے تک آؤں گا مگر وقت سے پہلے سے پہنچ گئے اور کہا کہ ''میں نہیں چاہتا تھاکہ میری وجہ سے کسی کو انتظار کی زحمت اٹھانی پڑے'' ،20 سال سے زائد وقت صحافت میں گذار چکا اب شاہد آفریدی کے بعد سرفراز احمد کی صورت میں دوسرا ایسا کپتان دیکھا جس کا شہرت بھی کچھ نہ بگاڑ پائی، وہ اب بھی ماضی جیسا وہی نوجوان ہے جو خود کوکسی سے برتر نہیں سمجھتا، سچی بات ہے چیمپئنز ٹرافی میں فتح کے بعد مجھے محسوس ہوا تھا کہ شاید اب سرفراز بھی بدل جائیں مگر شکر ہے ایسا کچھ نہ ہوا، وہ ہر کسی سے منکسرالمزاجی کے ساتھ ملتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انھیں خوب عزت مل رہی ہے۔
عموماً میرے کالمز دھواں دھار قسم کے ہوتے ہیں اس لیے مجھے تقریب کیلیے مہمان خصوصی کو مدعو کرنے کیلیے خاصا سوچنا پڑتا ہے، بورڈ والے مجھ سے خوش نہیں اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کوئی زیر عتاب آئے، البتہ سرفراز کپتان ہونے کی وجہ سے ڈینجرزون سے باہر ہیں اس لیے میں نے ان سے درخواست کی جو انھوں نے قبول کر لی۔
سابق ٹیسٹ کرکٹرز اقبال قاسم اور صلاح الدین صلو گوکہ اب پی سی بی سے وابستہ ہیں مگر وہ بھی آئے، اسی طرح فواد عالم، شعیب محمد، پروفیسر اعجاز فاروقی، ظفر احمد وغیرہ بھی شریک ہوئے جس پر ان سب کا شکرگذار ہوں، میری کسی سے ذاتی عناد نہیں اگر کسی پر تنقید بھی کی تو اس لیے تاکہ ٹیم یا ملک کا کچھ بھلا ہو، چیئرمین نجم سیٹھی پچھلے دور میں تو مشورے مان بھی لیا کرتے تھے، جب یونس خان کے سینٹرل کنٹریکٹ کا تنازع ہوا تھا تو میرے ساتھ اپنے آفس میں لنچ کرتے ہوئے ہی انھوں نے میری بات مان لی اور فوراً یونس کو اے کیٹیگری میں لے آئے، مگر پھر حالات تبدیل ہو گئے، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کان بھرتے رہے اور ہر بڑے آدمی کی طرح سیٹھی صاحب بھی کانوں کے بیحد کچے ہیں۔
اسی طرح انضمام الحق سے ماضی میں بہت قریبی تعلقات تھے مگر بعض ''دوستوں'' نے لگائی بجھائی کر کے مسائل پیدا کیے، پاکستان میں اپنے بارے میں کوئی سچ بھی سننا نہیں چاہتا اس لیے مسائل زیادہ ہوتے ہیں، مگر مجھے اس بات کا کوئی دکھ نہیں کہ کرکٹ بورڈ والوں سے میری نہیں بنتی میرے لیے قارئین بہت اہم ہیں، دنیا بھر سے ای میلز یا سوشل میڈیا پر پیغامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ لوگ میرے کام کو پسند کر رہے ہیں بس یہی کافی ہے۔
آج اگرلوگ یہ کہتے ہیں کہ میں بہت بے باکی سے لکھتا ہوں تو آفس کی سپورٹ کے بغیر ایسا ممکن ہی نہیں تھا، اب میری کالمز کی ڈبل سنچری بھی ہو چکی لیکن درمیان میں کئی بار ایسا ہوا جب کرکٹ کی بعض اعلیٰ شخصیات نے کالمز رکوانے کی بھی دھمکیاں دیں مگر تمام سینئرز نے بھرپور سپورٹ کیا اور ہمیشہ سچ لکھنے کی تلقین کی، ایکسپریس کی یہی خاص بات ہے اسی لیے مجھے اب یہاں18 برس ہو چکے ہیں۔
ساتویں کتاب کی اشاعت پر مجھے سوشل میڈیا پر بھی شاہد آفریدی، محمد حفیظ، شعیب ملک، ثقلین مشتاق،سہیل تنویر، فواد عالم سمیت کئی کرکٹرز کی جانب سے مبارکباد کے پیغامات موصول ہوئے، اس پر ٹویٹر پر کسی نے ازرائے مذاق لکھا کہ '' یہ دھواں دھار کالمز یا پی آر کا اثر ہے کہ سارے کرکٹرز ہی مبارکباد دے رہے ہیں'' میں نے انھیں بھی یہی جواب دیا کہ یہ پی آر نہیں پیار کا اثر ہے، سارے کھلاڑی جانتے ہیں کہ میں نے اگر تنقید بھی کی تو اس کا مقصد ان کی اصلاح ہی تھا،اس لیے برا نہیں مناتے۔
کرکٹ کارنر ون کی گذشتہ برس ہونے والی تقریب کے مہمان خصوصی شاہد آفریدی تھے جو اس بار بنگلہ دیش میں ہونے کی وجہ سے شریک نہ ہو سکے البتہ مجھ سے فون پر اس حوالے سے مسلسل رابطے میں رہے، جب وہ آئے تھے تو جاوید میانداد کے بارے میں سوال پر تنازع کھڑا ہو گیا تھا مگر اس بار مرزا اقبال بیگ جیسے کہنہ مشق اینکر نے عمدگی سے نظامت کے فرائض سنبھالے لہذا ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوا، ان سے پہلے آصف خان بھی نئے روپ میں خاصے پُراعتماد دکھائی دیے،نئی کتاب کو میں نے اردو کرکٹ کمنٹری کے بانی منیر حسین مرحوم سے منسوب کیا ہے، ان کے کرکٹ میگزین ''اخبار وطن'' سے ہی میں نے صحافتی کیریئر کا آغاز کیا تھا، ان کے دونوں بیٹے اقبال منیر اور اختر منیر بھی تقریب میں آئے تھے۔
کرکٹ فیلڈ میں اب طویل عرصہ ہو چکا لیکن اب بھی کل کی ہی بات لگتی ہے جب کرکٹرز کے آٹوگراف کیلیے گھنٹوںگراؤنڈز میں انتظار کیا کرتا تھا، میں اب بھی خود کو طفل مکتب ہی سمجھتا ہوں، کوشش یہی ہے کہ آپ لوگوں تک حقائق پہنچاؤں چاہے کسی کو کتنا بھی بُرا لگے، اگر سب آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہے تو ہماری کرکٹ کو درپیش مسائل مزید بڑھ جائیں گے اس لیے کسی کھلاڑی کے ساتھ ناانصافی ہو یا بورڈ میں کچھ غلط ہو تو ضرور آواز اٹھانی چاہیے، امید ہے قارئین آپ سب کی سپورٹ ہمیشہ میرے ساتھ رہے گی۔
آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔