میں کیا کہوں

اگر آئین کی تشریح کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو ہو تو پھر عدالتی نظام کی ضرورت باقی نہیں رہتی

ayazkhan@express.com.pk

KARACHI:
دنیا جن ایشوز پر تفصیلی بحثیں کرا کے حتمی نتیجے پر پہنچ چکی ہے' ہم آج بھی ان امور کو طے کرنے کے لیے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ برطانیہ جسے جمہوریت کی ماں کہا جاتا ہے وہاں بھی یہ بحث کئی دہائیاں پہلے اس منطقی نتیجے تک پہنچ چکی کہ پارلیمنٹ آئین بناتی ہے لیکن اسے آئین کی تشریح کا اختیار نہیں۔ آئین کی تشریح اعلیٰ عدلیہ کا اختیار ہے اور اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔

اگر آئین کی تشریح کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو ہو تو پھر عدالتی نظام کی ضرورت باقی نہیں رہتی،پارلیمنٹ اپنے نمایندوں پر مشتمل جیوری یا عدالت بنا لیتی۔ یوں قانون بنانے، اس کی تشریح کرنے اورکسی ملزم کو سزا دینے یا رہا کر دینے کا اختیار بھی پارلیمنٹ کو مل جاتا۔ دنیا کی کسی پارلیمانی جمہوریت میں ایسا نہیں ہے، البتہ پاکستان میں حکمران اتحاد کے چند سیاستدانوں کے منہ سے یہ بات نکل رہی ہے کہ پارلیمنٹ آئین بناتی ہے۔

لہٰذا اسے ہی تشریح کا اختیار ہونا چاہیے، ان ذہین سیاستدانوں کو کون بتائے کہ پاکستان کی موجودہ پارلیمنٹ نیا آئین نہیں بنا سکتی، وہ جس آئین کے تحت وجود میں آئی ہے، اس کے دائرے کار میں رہ کر ترامیم کرسکتی ہے، جیسا کہ اٹھارویں اور دیگرترامیم ہوئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان ترامیم کو منسوخ یا تبدیل بھی نہیں کیا۔

عدلیہ کے حوالے سے یہ تصور قائم کرنا کہ وہ جانبدار ہے یا کسی مخصوص کیس میں اس نے وہ فیصلہ نہیں دیا جو متاثرہ فریق چاہتا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بعض مقدمات میں عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان تنائو پیدا ہوتا ہے لیکن بہرحال عدالت کا فیصلہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے کسی کھیل کے دوران امپائر یا ریفری کا فیصلہ کھلاڑیوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی ماننا پڑتا ہے۔ حال ہی میں حکومت نے جو توہین عدالت کا قانون پارلیمنٹ سے منظور کرایا تھا، اس کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس قانون کو عوامی اور قانونی ماہرین کی سطح پر پذیرائی نہیں مل سکی تھی۔ رضا ربانی' اعتزاز احسن اور اقبال حیدر جیسے نامور قانون دانوں نے بھی اس قانون پر بڑے محتاظ انداز میں تبصرہ کیا، ان کی آراء میں بین السطور یہی حقیقت تھی کہ یہ قانون آئین سے مطابق نہیں رکھتا۔ مجھے یاد ہے عبدالحفیظ پیرزادہ نے بھی ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں فاروق ایچ نائیک سے مکالمے کے دوران کہا تھا کہ توہین عدالت کا قانون آئین کی روح سے متصادم ہے اور دنیا کی کوئی عدالت اسے تسلیم نہیں کرے گی۔

سپریم کورٹ بار کے صدر یاسین آزاد کے خیالات بھی اسی قسم کے تھے اور ہیں۔یہ وہ شخصیات ہیں جو قانون کو سمجھتی ہیں اور سیاست کے اسرار ورموز سے بھی آگاہ ہیں۔ ان کے بارے میں یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ن لیگ میں شامل ہیں یا پیپلز پارٹی کے مخالف۔ ان کا تاثر صاف ستھرے لوگوں کا ہے۔ اگر یہ شخصیات بھی توہین عدالت قانون پر کھل کر حکومت کی حمایت میں نہیں آئیں تو پھر حکمران اتحاد کو عدالتی فیصلے سے پہلے ہی اسے ختم کرکے نیا مسودہ قانون پارلیمنٹ میں لانے کا اعلان کر دینا چاہیے تھا۔

پاکستان کے فہمیدہ حلقے اس بات کو ہضم نہیں کرسکتے کہ چند اونچے لوگوں کو یہ استثنیٰ ہو کہ وہ مادر پدر آزاد ہو جائیں۔ صدر، وزیراعظم، وزراء'گورنر صاحبان، چیئرمین سینٹ، اسپیکر قومی اسمبلی ہی نہیں ایک تھانے دار اور پٹواری کو بھی آئین وقانون نے کچھ مستثنیات عطا کر رکھی ہیں۔ کار سرکار میں مداخلت کے نام پر بہت سے لوگوں پر مقدمات قائم ہوجاتے ہیں۔

قانون کی رو سے جب ایک تھانیدار یا کلرک کو سرکاری فرائض کی ادائیگی سے نہیں روکا جاسکتا توپھر کس میں ہمت ہے کہ وہ صدر یا وزیراعظم کو کسی کام سے روک سکے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ جب کوئی عدالت حکم جاری کرتی ہے تو سرکاری عمال پر اسے تسلیم کرنا لازمی ہوتا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی وزیر یا ڈی سی یہ کہہ دے کہ میں عدالت کافیصلہ نہیں مانتا یا وہ یہ کہے کہ عدالت کا فیصلہ غیر آئینی ہے، اس طرح ملک کا سارا نظام تباہ ہوجائے گا، اﷲ ہمیں ایسے دن سے بچا کر رکھے۔


پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوازم پر اعتراضات کیے جاتے ہیں۔ ججز کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ تشریح کی آڑ میں دراصل آئین سازی بھی کررہے ہوتے ہیں۔ کیا ایسا صرف ہمارے ہاں ہوا ہے یا اس سے پہلے بھی ایسی مثالیں موجود ہیں؟ امریکا کے جسٹس مارشل اور جسٹس رابرٹ جیکسن کے فیصلے دیکھ لیں آپ کو پتہ چل جائے گا ان دو ججوں نے کیسے انتظامیہ کی ناک میں دم کیے رکھا۔

اندرا گاندھی نے جب بھارت میں ایمرجنسی نافذ کی تھی تو اسے بھارتی عدلیہ نے کالعدم قرار دیا تھا۔ تب اندراگاندھی ججز سے بہت ناراض تھیں لیکن وقت نے ثابت کیا کہ اس وقت کے ججز نے بھارتی جمہوریت کو آمریت کی راہ پر جانے سے بچا لیا۔

آج کانگریس بھی اس فیصلے کی تعریف پر مجبور ہے۔ پاکستان میں بعض حضرات یہ فلسفہ بگھار رہے ہیں کہ عدلیہ اور انتظامیہ کی لڑائی میں جیت ہمیشہ انتظامیہ کی ہوتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ انتظامیہ عدلیہ کے ساتھ نہیں لڑ سکتی۔ اسے عدلیہ کا فیصلہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے۔ مشرف کی ایمرجنسی پلس کے ساتھ کیا ہوا؟

آزاد عدلیہ قوم کے تحفظ کی ضامن ہوتی ہے۔ پاکستانی قوم نے پہلی بار عدلیہ کا یہ روپ دیکھا ہے۔ سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے جس قانون کو کالعدم قرار دیا ہے، اب حکومت اپیل میں جانے کا سوچ رہی ہے۔ اپیل میں جانا حکومت کا حق ہے، اسے اس حق سے کوئی نہیں روک سکتا تاہم میرے خیال میں اب بہت دیر ہو چکی ہے۔

این آر او کیس کے بطن سے برآمد ہونے والے نتائج کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ این آر او کیس کے معاملے میں حکومت خود عدلیہ کے سامنے سرنڈر کر چکی ہے۔ سوئس عدالت کو خط لکھنے کا معاملہ این آر او کیس کے پیٹ سے ہی نکلا ہے۔ اب اس پر کوئی نیا فیصلہ آتا ہے تو اس پر واویلا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ حکومت اور حکومتی پارٹی کے ارکان نے جس طرح عدالتوں اور ججوں کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کیا ہے وہ معاملات کو بند گلی میں لے جائے گا۔

حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ بعض کیسوں میں اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو ایسا سمجھنا اس کا حق ہے لیکن حکمرانوں کو دیانت داری سے اس سوال کا جواب دینا چاہیے کہ ان کی اپنی پرفارمنس کیسی ہے؟ توہین عدالت میں ایک وزیر اعظم کو فارغ کرنے پر بعض حلقوں کی طرف سے تنقید ہوئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ انھیں اس فیصلے سے جمہوریت کو نقصان ہونے کا خدشہ تھا۔ کیا جمہوریت اتنی کمزور ہے کہ ایک وزیر اعظم کے فارغ ہونے سے خطرے میں پڑ سکتی ہے؟ وزرائے اعظم فارغ ہونے سے حکومت خطرے میں پڑتی ہے جمہوریت نہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان خود کئی بار کہہ چکے ہیں کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہونے دیں گے۔

ہفتے کو ملتان میں انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ جمہوری حکومت کو ساڑھے چار سال چلانے کا سہرا عدلیہ کے سر ہے۔ چیف جسٹس کی باتیں اپنے اندر معنی کا پورا جہان سموئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے اپنے اس خطاب اور قبل ازیں جو کچھ کہا وہ مقتدر حلقوں کے لیے واضح پیغام تھا۔ انھوں یہ پیغام سمجھ بھی لیا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے بعض اتحادی عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی کا مشورہ دے رہے ہیں۔ اے این پی کے ایک لیڈر نے چند دن پہلے مجھے بتایا جب یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دیا گیا تو انھوں نے زرداری صاحب کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ اس پر اسٹینڈ لیں' اسپیکر یہ موقف اختیار کریں کہ عدالت ان کے فیصلے کو رد نہیں کر سکتی۔ لیکن زرداری صاحب اس موڈ میں نہیں تھے۔ انھوں نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔ ان کا وہ تحمل کیا اب بھی برقرار ہے؟ یہ ان کے قریب کا کوئی شخص ہی بتا سکتا ہے۔

میرا آخر میں حکمرانوں سے صرف ایک سوال ہے کہ وہ این آر او کیس پر عدلیہ سے لڑ رہے ہیں لیکن ان کا دھیان اپنے ان اتحادیوں کی طرف نہیں جاتا جنہوں نے این آر او کی اس دلدل سے نکلنے میں ان کی کوئی مدد نہیں کی۔ یہ اتحاد اقتدار کے مزے لے رہے ہیں اور بدنامی کا طوق پیپلز پارٹی کے گلے میں ڈال رکھا ہے، اب آگے میں کیا کہوں...

 
Load Next Story