سندھ اسمبلی میں’’تنقیدی تعریف‘‘ جواباًمیٹھے لفظوں کی تلخ باتیں

عوام کی خدمت نہیں کی جارہی،سرداراحمد،آپ بھی حکومت کا حصہ رہے،سینئر وزیرتھے، وزیراعلیٰ

عوام کی خدمت نہیں کی جارہی،سرداراحمد،آپ بھی حکومت کا حصہ رہے،سینئر وزیرتھے، وزیراعلیٰ فوٹو: فائل

سندھ اسمبلی میں پیرکو وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کی جانب سے اپنی حکومت کی5 سالہ کارکردگی پرجب اپوزیشن لیڈر سید سردار احمد نے بات کرنا چاہی تو اسپیکر نثاراحمد کھوڑو نے ان سے کہا کہ وزیراعلیٰ کے بیان پرکوئی بحث نہیں ہوسکتی ۔

اس پر سرداراحمد نے کہا کہ میں ''تنقیدی تعریف'' کرنا چاہتاہوں۔ اسپیکر نے انھیں اجازت دی تو اپوزیشن لیڈر نے وزیراعلیٰ کی پوری تقریر کی نفی کردی جبکہ وزیراعلیٰ نے جواباً میٹھے میٹھے الفاظ میں تلخ باتیں بھی کہہ دیں ۔ سردار احمد نے کہا کہ جمہوری اصولوں کے مطابق عوام کی خدمت نہیں کی جا رہی ، امن و امان کی صورت حال بھی بہترنہیں ہوئی،میرٹ پرنوکریاں بھی نہیں دی گئیں، شہری اوردیہی کوٹے پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا ۔ کئی بلز منظورکیے لیکن صرف 1فیصد بلز قائمہ کمیٹیوں میں بھیجے گئے۔ کابینہ ارکان کے ساتھ بہت سارے معاملات میں مشاورت نہیں کی گئی ۔

اس سال کابینہ کے صرف2 سے3 اجلاس ہوئے حالانکہ کابینہ کو ہردس دن کے بعد ملنا چاہیے۔وزیراعلیٰ نے اپنے خطاب میں امن و امان کوآخری پوائنٹ کے طور پر رکھا حالانکہ یہ پہلا پوائنٹ ہونا چاہیے تھا۔ قومی اور صوبائی سطح پر دہشت گردی کے خلاف کوئی پالیسی نہیں ہے اور نہ ہی ادارے بنائے گئے ہیں۔ سب کام ایڈہاک ازم کی بنیاد پر چلائے جا رہے ہیں،ایک لاکھ65 ہزارنوکریاں میرٹ پرنہیں دی گئیں ۔ شہری علاقوں میں صرف5 فیصد لوگوں کو نوکریاں دی گئیں ۔انھوں نے کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ صوبے میں7 نئی یونیورسٹیاں بنائی گئی ہیں لیکن حیدرآباد میں یونیورسٹی کیوں نہیں بنائی گئی۔




جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے قیام کے بل پر بھی ہم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ آج بھی آٹا45 سے47 روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ اپوزیشن ارکان نے سرداراحمد کی تقریر پر زبردست ڈیسک بجائے۔ وزیراعلیٰ سندھ کو مجبوراً کھڑے ہوکران کی تقریر کاجواب دینا پڑا ۔ اسپیکربھی ہنس دیے اور کہا کہ یہ ہے ''تنقیدی تعریف'' ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ سردار احمد ابھی اپوزیشن لیڈر بنے ہیں، اس سے پہلے وہ حکومت کا حصہ اور سینئر وزیر تھے ۔ وہ اس طرح کے اعتراضات پہلے بھی کرسکتے تھے ۔

یہ تاثر غلط ہے کہ کابینہ کے ارکان سے مشاورت نہیں کی جاتی ۔ ہمارے دوست کبھی روٹھ جاتے تھے کبھی مان جاتے تھے ۔ ناراض ہوتے توکابینہ میں نہیں آتے تھے ، کابینہ کا اجلاس ہرماہ ہوا ہے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کراچی واٹراینڈ سیوریج بورڈ میں7 ہزار لوگ بھرتی کیے گئے لیکن ہم سے نہیں پوچھاگیا۔ یہ ایک مثال ہے ۔ اس پر پیپلز پارٹی کے ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے لیکن وزیراعلیٰ نے کہا کہ ایسے نعرے نہیں لگائیں یہ ہمارے ساتھی ہیں۔

وزیراعلیٰ نے کہا کہ کے ایم سی میں بھی بڑی تعداد میں بھرتیاں ہوئیں اور بھی دیگر اداروں میں بھرتیاں کی گئیں ۔ حکومت سندھ کو اب ان اداروں کے لیے ماہانہ50 کروڑ روپے اضافی دینا پڑ رہے ہیں ۔ محکمہ تعلیم میں20 ہزار افراد میرٹ پر بھرتی ہوئے ۔25 ہزار لوگوں کو سندھ پبلک سروس کمیشن نے بھرتی کیا۔ ڈاکٹروں میں سے50 فیصد سے زیادہ ڈاکٹرز کراچی سے تعلق رکھتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کی مشاورت کے بغیر سندھ اسمبلی سے کوئی بل منظور نہیں کرایا گیا۔
Load Next Story