قیمت

معاشرے کے لیے نفع بخش، اچھا کنٹری بیوشن کرنے والا فرد تیار کرنا...


Amir Khakwani August 07, 2012
[email protected]

KARACHI: عجیب ہیجان کا سا عالم ہے۔ ہر طرف کنفیوژن پھیلا ہے۔ روزانہ اخبار پڑھنے والے ، شام سات سے گیارہ بجے تک نیوز ٹاک شوز دیکھنے والے جس خلجان میں مبتلا ہیں، ان سے تو ہمدردی ہی کرنے کو جی چاہتا ہے۔ تین دن پہلے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے لیڈروں کے درمیان پریس کانفرنسوں کا جو تبادلہ ہوا، اس نے ایک اور طوفان برپا کر دیا۔ میں نے نہایت سرسری انداز سے ان پریس کانفرنسوں کی محض خبریں ہی پڑھیں۔ خواجہ آصف نے شوکت خانم کینسر اسپتال کے بارے میں جو مہم چلانے کی کوشش کی، اس کے پس پردہ فیکٹرز کا اندازہ کرنے کے لیے کچھ زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف نے مسلم لیگ ن کو بری طرح زچ کررکھا ہے ۔

مگر بہتر یہی ہوتا کہ جوابی سیاسی حملے میں اچھی شہرت کے خیراتی اداروں کوتوبخش دیا جاتا۔ کسی صاحب نے لکھا کہ خواجہ آصف نے تحقیق کی اور پھر اپنے طور پر یہ پریس کانفرنس کی۔ مجھے یہ پڑھ کر ہنسی آگئی۔ کوئی بچہ ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ خواجہ صاحب نے اپنے طور پر یہ کیا۔ مسلم لیگ ن ایک منظم جماعت ہے، ہر شام کو اس کے مختلف لیڈروں کو مختلف ٹاسک سونپے جاتے ہیں، کون سی بات چوہدری نثار نے کہنی ہے، کون سی کسی اور نے۔ کس چینل پر کس صاحب نے جا کر کیا کہنا ہے۔ کم وبیش اسی طرح کی حکمت عملی دوسری جماعتیں بھی بناتی ہیں۔پھر اگر خواجہ صاحب ایسے ہی محقق طبع واقع ہوتے تو اربوں کے حکومتی سکینڈل چاروں طرف پڑے کھلبلا رہے ہیں۔

ان کے بارے میں تو کسی کو کچھ کہنے کا خیال نہیں آیا۔ لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے ہی اتنا کچھ سامنے لانے والا ہے، تھر کول میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے، اس کی طرف کسی نے توجہ کی ؟ بھائی لوگو ! یہ سب سیاسی کھیل ہے، پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق کھیلا جانے والے کھیل۔ ہر شام کو ٹی ویپر اس میں اس قدر مصنوعی انداز سے پرفارمنس دی جاتی ہے کہ بسا اوقات ابکائی آتی ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء میں ایک اصطلاح اخبارات میں بار بار استعمال ہوتی تھی کہ فلاں خود ساختہ جلاوطن سیاستدان نے یہ بیان دیا ہے... وغیرہ وغیرہ۔ جلاوطنی سے تو اللہ بچائے ، البتہ اس خاکسار نے اپنے اوپر ٹاک شوز نہ دیکھنے کی خودساختہ پابندی عائد کر رکھی ہے۔ جو وقت ملتا ہے، اسے کتاب پڑھنے میں یا پھر اگرجی چاہے تو اپنی پسند کی کوئی کلاسیک سی آرٹ فلم دیکھنے میں صرف کرنا مرغوب ہے۔ اس سے بھی زیادہ بہتر صورت بچوں کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔ ویسے مجھے اب یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ہماری مصروف زندگی میں بچوں کے لیے وقت کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔

جن گھرانوں میںماں باپ دونوں ملازمت کرتے ہیں، وہاں مسئلہ زیادہ شدید ہے۔ایک اور بات پچھلے کچھ عرصے میں میں نے محسوس کی کہ ہمارے بچپن یعنی پچیس تیس سال پہلے اور آج کے تعلیمی نظام میں بڑی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ شہروں میں رہنے والے اربن مڈل کلاس کے لوگ اپنے بچوں کو بہترین تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں، مقصد ان کی اچھی تعلیم وتربیت ہوتی ہے۔ تعلیم تو شائد انھیں حاصل ہوجاتی ہو،مگر تربیت کا فقدان نظر آتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ہمیں اپنے بچپن ہی میں ٹیچرز سے بہت کچھ سیکھنے کومل گیا تھا۔پہلی دوسری جماعت ہی میں قصص القرآن کے واقعات معلوم ہوچکے تھے،

معلوم نہیں اس زمانے کی ہماری ٹیچرز مستعد تھیں یا پھر والدہ زیادہ وقت دیتی تھیں۔ابھی پچھلے ہی روز ایک عزیزکے بچے گھر آئے ہوئے تھے۔ پانچویں چھٹی کلاس کے طالب علم، ان بچوں کو سنڈریلا، سلیپنگ بیوٹی اور سنو وائیٹ کے بارے میں تو اچھی طرح معلوم تھا، ہماری اسلامی تاریخ کا سرے سے علم نہی نہیں تھا۔ اہلیہ نے انھیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی والا واقعہ سنایا تو وہ بچے ششدر رہ گئے۔ مبہوت ہو کر وہ کہانی سن رہے تھے اور بار بار سوال کر رہے تھے کہ مینڈھا کس نے رکھا، پھر کیا ہوا ... وغیرہ۔ ان کے والدین ماشاء اللہ پڑھے لکھے، سمجھدار لوگ ہیں،

مصروف زندگی نے شائد انھیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ بچوں پر اس طرح محنت کر سکیں۔ بچے اسکول سے واپس آ کر کھانا کھا، کپڑے بدل کر تھوڑا سستاتے ہیں، اتنے میں قاری صاحب آ کر انھیں سپارہ پڑھاتے ہیں، شام کو وہ اکیڈمی میں پڑھنے چلے جاتے ہیں۔ وہاں ظاہر ہے ہوم ورک ہی کرتے ہیں، واپسی پر مغرب ہو جاتی ہے، کارٹون دیکھتے کھانا کھانے کا وقت ہو جاتا ہے ، پھر جلدی کھانا کھا کر سونا پڑتا ہے کہ اگلی صبح اسکول لے جانے والی وین خاصا جلدی آجاتی ہے۔ ان کے والدین ازحد مطمئن کہ بچوں کا بڑا خیال رکھ رہے ہیں۔ وہ ہر ماہ بچوں کے رزلٹس چیک کرتے اور قاری صاحب سے رپورٹ لیتے ہیں۔

ان کا دل طمانیت سے بھر جاتا ہے کہ بچے دین اور دنیا دونوں کی تعلیم پا رہے ہیں۔ ایک بات مگر وہ نہیں سمجھ پائے کہ قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم تو خیر ضروری ہے ہی ، مگر دین کا جامع تصور اور خیر وشر کے حوالے سے بچوں کی تربیت انتہائی ضروری ہے۔میں نے اس موضوع پر کئی لوگوں سے بات کی۔ ہر ایک کے بچوں کا کم وبیش اسی طرح کا شیڈول ہے۔ مشکل یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل بنانے کے لیے اتنی زیادہ محنت کرتے، صبح سے رات دس گیارہ بجے تک مصروف رہتے ہیں کہ ادراک ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ کر نہیں سکتے۔ بعض نے اپنی بیویوں کا گلہ کیا کہ یہ کام ان کے کرنے کا ہے ،

مگر وہ نہیں کر پا رہیں۔ ادھر خواتین خانہ سے بات ہوتو ان کے پاس اپنے دلائل ہیں، وہ سارا دن گھر میں مصروف رہتی ہیں، اپنے لیے بھی وقت نہیں ملتا... وغیرہ وغیرہ۔ سب نے اس بات سے اتفاق کیا کہ معاملات پریشان کن ہیں ، مگر کیا کریں کہ ان کے پاس اسے کنٹرول کرنے کے لیے وقت ہی نہیں۔ کہتے ہیں تاریخ کسی بھی قوم کا حافظہ ہوتی ہے، جو قوم تاریخ بھلا دے ،وہ ایلزائمر کے کسی مریض کی طرح اپنی یاداشت سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ اسلامی تاریخ ،سیرت مبارکہ ﷺاور صحابہ کرام ﷺ کی زندگیوں سے اپنے بچوں کو شناسا کرانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیں یہ اندازہ ابھی نہیں ہو رہا کہ معمول کے تعلیم نظام اور درس وتدریس سے یہ کام نہیں ہونے والا۔ جب تک والدین ازخود ذمے داری لے کر کچھ وقت اس کے لیے نہیں نکالتے ، اس وقت تک کچھ نہیں ہونے والا۔

سٹیفن آرکووی مشہور پرسنالیٹی ایکسپرٹ تھے،پچھلے دنوں ان کا انتقال ہوا،سیلف ہیلپ بکس کے سلسلے میں ان کی کتابوں کی غیرمعمولی اہمیت ہے۔ ان کی مشہور کتاب ''غیر معمولی موثر لوگوں کی سات عادات''7 Habits of Highly effective peoplesنے مقبولیت کے اچھوتے ریکارڈ قائم کیے، دنیا کی درجنوں زبانوں میں یہ کتاب ترجمہ ہوئی اور کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہوئی، پچھلے اتوار کو ایکسپریس میں ہمارے دوست عارف انیس ملک نے سٹیفن آرکووی (یا آرکووے) پر بڑا ہی دلآویز کالم لکھا۔ سات عادات والی کتاب میں ایک جگہ سٹیفن آرکووی لکھتا ہے کہ ایک بار مجھے خیال آیا کہ اپنے گھر کے لان کو خوبصورت انداز میں تیار کرایا جائے۔

میرے پاس لان کا خیال رکھنے کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا۔ میں نے ایک دوست سے ملاقات کی جو لان اور ِمنی گارڈنز تیارکرنے کی ماہر تھی۔میں نے تفصیل کے ساتھ ڈسکس کیا اور پوچھتا رہا کہ کس طرح جدید ترین مشینیں استعمال کی جائیں اورلان کی تیاری کے لیے آٹو میٹک سسٹم وضع کیا جائے...۔ میںاسی اینگل پر گفتگو کر رہا تھا کہ اچانک میری دوست نے مجھے ٹوک دیا۔ اس نے واضح لہجے میں کہا،'' سٹیفن ایک بات پہلے سمجھ لو،ا گر تم سمجھتے ہو کہ خود کچھ کیے بغیر لان میں اچھی گھاس اگ جائے گی، خوبصورت پھول کھلا اور مہکا کریں گے تو تم بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہو۔ کسی باغبان کے بغیر کوئی باغ سنور نہیں سکتا۔ اگر اپنے گھر میں خوبصورت شاندار لان دیکھنا ہے تو تمہیں خود اپنے شیڈول میں سے وقت نکالنا ہوگا، کم سے کم ہر ہفتے چند گھنٹے، خواہ تم کس قدر مصروف ہو۔ اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر لان کا خواب دیکھنا چھوڑ دو۔''

اگر بچوں کی اچھی تعلیم وتربیت کا خواب دیکھنا ہے، ان میں اسلامی بنیادوں پر استوار مثبت سوچ رائج کرنی اور معاشرے کے لیے نفع بخش، اچھا کنٹری بیوشن کرنے والا فرد تیار کرنا ہے تو پھر اس کی قیمت بھی ادا کرنی ہوگی۔ ہر ہفتے چند گھنٹے اپنے بچوں کے لیے وقف کرنے کی قیمت۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں