ایڈز زدہ خاتون نے پورے خاندان کی زندگیاں تباہ کردیں
ایڈز چھپانے کی وجہ سے خاتون کا شوہر اور تین بچے بھی ایڈز میں مبتلا ہوگئے
افریقی شہر یوگنڈا میں ایک ماں نے ایڈز کا مرض برسوں چھپائے رکھا جس کی وجہ سے اس کا شوہر اور تین بچے بھی ایڈز میں مبتلا ہوگئے جب کہ پتا چلنے پر شوہر نے بیوی کو گھر سے نکال دیا۔
سی این این کے مطابق افریقی ملک یوگنڈا میں رہائش پذیر نوجوان لڑکی جنیفر موکائٹ کی زندگی اس ایک جملے نے تبدیل کردی جو اس کی والدہ سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب تھا۔ جنیفر کے مطابق جب اس کی ماں بستر سے لگ گئی، ہلنے جلنے اور کچھ کھانے سے قاصر ہوگئی، بیماری کے باوجود ماں نے اسپتال جانے سے انکار کردیا اور گھر میں ہی طبی امداد طلب کی تو جنیفر اور اس کے بہن بھائی نے جرأت کی اور اپنی ماں سے کھل کر پوچھا کہ کیا آپ کو ایڈز کا مرض لاحق ہے جواب میں اس کی ماں نے تکلیف دہ انکشاف کیا کہ وہ برسوں سے اس مرض کا شکار ہے۔
جنیفر کی ماں نے بتایا کہ وہ اس کی پیدائش سے قبل ہی یعنی 18 سال پہلے ایچ آئی وی کا شکار ہوگئی تھی بعدازاں اس کے ہاں ایک بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئے لیکن اس نے ایچ آئی وی کا کوئی علاج نہیں کرایا، ماں نے بچوں کے سامنے اعتراف کیا کہ اس کے لیے دوائیں کھانا انتہائی مشکل کام تھا اسی لیے وہ علاج نہ کراسکی۔
جنیفر موکائٹ نے سی این این کو بتایا کہ ماں نے ایڈز کو خفیہ رکھا بعد میں یہ راز کھلنے کے بعد پورے ضلع بھر میں باتیں ہوئیں کہ اس عورت کے پورے گھرانے کو بھی لازمی طور پر یقیناً ایڈز ہوچکا ہوگا، وہ وقت ہمارے لیے بہت آزمائش کا تھا۔
ایچ آئی وی کے انکشاف کے بعد جنیفر کے والد نے اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیا مگر اسے کہیں جگہ نہ ملی اور کوئی اس کا خیال کرنے والا نہ تھا اسی لیے واپس گھر میں رکھنا پڑا جہاں وہ چند ہفتوں بعد انتقال کرگئی، ماں کی موت کے بعد موکائٹ کا اعتماد اور کیرئیر سب کچھ بدل گیا، جلد ہی پورے گھرانے کو پتا چل گیا وہ سب کے سب ایچ آئی وی کا شکار ہوگئے ہیں، اس نے خودکشی کا ارادہ کیا کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اب اس کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں کیوں کہ اس کے باپ کا خیال تھا کہ ایڈز زدہ لڑکیوں کی نگہداشت کا کوئی فائدہ نہیں۔
سی این این کے مطابق ایڈز کے خلاف کام کرنے والی ایک این جی او نے موکائٹ کی مدد کی اور وہ سوشل ورکر بن گئی، اس کا علاج جاری ہے جب کہ وہ ایڈز کی شعور آگاہی مہم کا بھی حصہ ہے، اس کی پڑھائی مکمل ہورہی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اس کی شادی ہو اور اس کی اولاد ہو جو ایچ آئی وی سے پاک ہو۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر حاملہ عورت کا ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آئے اور وہ اینٹی ریٹرووائرل ادویات استعمال نہ کرے تو یہ وائرس اس کے بچے میں منتقل ہونے کے 15 تا45 فیصد امکانات ہوتے ہیں جب کہ دوا استعمال کرنے پر دوران حمل، زچگی اور بچے کو دودھ پلانے کے دوران یہ وائرس منتقل ہونے کا امکان محض 5 فیصد رہ جاتا ہے۔
خیال رہے کہ یوگنڈا سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں حاملہ عورت کا اسی وقت ایچ آئی وی ٹیسٹ کرلیا جاتا ہے جب وہ معمول کا چیک اپ کرانے اسپتال یا کلینک جاتی ہے اگر ٹیسٹ مثبت آئے تو مریضہ کو اسی وقت علاج کی پیشکش کردی جاتی ہے۔
سی این این کے مطابق افریقی ملک یوگنڈا میں رہائش پذیر نوجوان لڑکی جنیفر موکائٹ کی زندگی اس ایک جملے نے تبدیل کردی جو اس کی والدہ سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب تھا۔ جنیفر کے مطابق جب اس کی ماں بستر سے لگ گئی، ہلنے جلنے اور کچھ کھانے سے قاصر ہوگئی، بیماری کے باوجود ماں نے اسپتال جانے سے انکار کردیا اور گھر میں ہی طبی امداد طلب کی تو جنیفر اور اس کے بہن بھائی نے جرأت کی اور اپنی ماں سے کھل کر پوچھا کہ کیا آپ کو ایڈز کا مرض لاحق ہے جواب میں اس کی ماں نے تکلیف دہ انکشاف کیا کہ وہ برسوں سے اس مرض کا شکار ہے۔
جنیفر کی ماں نے بتایا کہ وہ اس کی پیدائش سے قبل ہی یعنی 18 سال پہلے ایچ آئی وی کا شکار ہوگئی تھی بعدازاں اس کے ہاں ایک بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئے لیکن اس نے ایچ آئی وی کا کوئی علاج نہیں کرایا، ماں نے بچوں کے سامنے اعتراف کیا کہ اس کے لیے دوائیں کھانا انتہائی مشکل کام تھا اسی لیے وہ علاج نہ کراسکی۔
جنیفر موکائٹ نے سی این این کو بتایا کہ ماں نے ایڈز کو خفیہ رکھا بعد میں یہ راز کھلنے کے بعد پورے ضلع بھر میں باتیں ہوئیں کہ اس عورت کے پورے گھرانے کو بھی لازمی طور پر یقیناً ایڈز ہوچکا ہوگا، وہ وقت ہمارے لیے بہت آزمائش کا تھا۔
ایچ آئی وی کے انکشاف کے بعد جنیفر کے والد نے اپنی بیوی کو گھر سے نکال دیا مگر اسے کہیں جگہ نہ ملی اور کوئی اس کا خیال کرنے والا نہ تھا اسی لیے واپس گھر میں رکھنا پڑا جہاں وہ چند ہفتوں بعد انتقال کرگئی، ماں کی موت کے بعد موکائٹ کا اعتماد اور کیرئیر سب کچھ بدل گیا، جلد ہی پورے گھرانے کو پتا چل گیا وہ سب کے سب ایچ آئی وی کا شکار ہوگئے ہیں، اس نے خودکشی کا ارادہ کیا کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اب اس کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں کیوں کہ اس کے باپ کا خیال تھا کہ ایڈز زدہ لڑکیوں کی نگہداشت کا کوئی فائدہ نہیں۔
سی این این کے مطابق ایڈز کے خلاف کام کرنے والی ایک این جی او نے موکائٹ کی مدد کی اور وہ سوشل ورکر بن گئی، اس کا علاج جاری ہے جب کہ وہ ایڈز کی شعور آگاہی مہم کا بھی حصہ ہے، اس کی پڑھائی مکمل ہورہی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اس کی شادی ہو اور اس کی اولاد ہو جو ایچ آئی وی سے پاک ہو۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر حاملہ عورت کا ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آئے اور وہ اینٹی ریٹرووائرل ادویات استعمال نہ کرے تو یہ وائرس اس کے بچے میں منتقل ہونے کے 15 تا45 فیصد امکانات ہوتے ہیں جب کہ دوا استعمال کرنے پر دوران حمل، زچگی اور بچے کو دودھ پلانے کے دوران یہ وائرس منتقل ہونے کا امکان محض 5 فیصد رہ جاتا ہے۔
خیال رہے کہ یوگنڈا سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں حاملہ عورت کا اسی وقت ایچ آئی وی ٹیسٹ کرلیا جاتا ہے جب وہ معمول کا چیک اپ کرانے اسپتال یا کلینک جاتی ہے اگر ٹیسٹ مثبت آئے تو مریضہ کو اسی وقت علاج کی پیشکش کردی جاتی ہے۔