پشاور میں دہشت گردی کا افسوسناک واقعہ
خیبرپختونخوا میں دہشتگردوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے سہولت کارابھی تک موجود ہیں
پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر ایگری کلچر ڈائریکٹوریٹ کے ایک ہوسٹل پر دہشت گردوں کے حملے سے آٹھ طالب علموں سمیت نو افراد شہید جب کہ درجنوں زخمی ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستانی فوج کی بروقت کارروائی کے نتیجہ میں تمام حملہ آور مارے گئے جن کی تعداد تین سے چار تھی۔ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے اس حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری احسن اقبال نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی فورسز کی بروقت کارروائی سے بڑا نقصان نہیں ہوا، دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچا کر دم لیں گے۔
پشاور میں ایگری کلچر ڈائریکٹوریٹ کے ہوسٹل پر ہونے والا حملہ اس امر کا مظہر ہے کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے سہولت کار ابھی تک موجود ہیں جو اپنی مذموم کارروائیوں کے نتیجے میں ملک میں خوف وہراس پھیلا رہے ہیں۔ 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر بھی دہشت گردوں نے اسی طرح کا حملہ کر کے شدید نقصان پہنچایا تھا۔ خوش قسمتی سے ایگری کلچر ڈائریکٹوریٹ کے ہوسٹل میں عید میلاد النبی کی چھٹی کے باعث زیادہ طالب علم موجود نہ تھے ورنہ زیادہ نقصان کا خدشہ تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق حملے کے دوران دہشت گرد افغانستان میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دہشت گردوں نے خودکش جیکٹس پہن رکھی تھیں۔ ایگری کلچر ڈائریکٹوریٹ میں دو ہاسٹل ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کے ذریعے دہشت گردوں کو ایک ہاسٹل تک محدود کردیا اور انھیں دوسرے تک پہنچنے نہیں دیا۔
اگر دہشت گرد دوسرے ہاسٹل تک بھی پہنچ جاتے تو ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی تھی۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا ایک عرصے سے دہشت گردوں کا ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کہیں نہ کہیں کوئی واردات رونما نہ ہوتی ہو، دہشت گرد زیادہ تر سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کا واضح مقصد سیکیورٹی اداروں کے اندر خوف و ہراس کو جنم دینا اور دہشت گردی کے خلاف ان کی جنگ کو پس منظر میں دھکیلنا ہے۔ سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بڑی تعداد میں قربانیاں دی ہیں، دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ان کے مذموم ارادوں کو متزلزل نہیں کرسکا۔ وہ پختہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے تک وہ اپنی اس جنگ کو جاری رکھیں گے۔
خیبرپختونخواہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے مطابق دہشت گردوں کو افغانستان سے مدد حاصل رہی۔ اب بھی اس واردات کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ واضح کیا کہ حالیہ واردات میں ملوث حملہ آوروں کے افغانستان میں اپنے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے رہے۔
پاکستان بارہا افغان حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرواچکا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے بڑی تعداد میں نہ صرف تربیتی کیمپ موجود بلکہ پاکستان میںدہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث حملہ آوروں نے وہاں محفوظ پناہ گاہیں بنارکھی ہیں، جن کے خاتمے تک خطے میں دہشت گردی کا عفریت اپنے اختتام تک نہیں پہنچ سکتا۔ مگر افغان حکومت نے پاکستان کے اس مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ پاکستان سے فرار ہونے والے دہشت گرد فضل اللہ کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرنے کے لیے کوئی کارروائی کی۔
امریکا پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف ڈومور کا مطالبہ کرتے نہیں تھکتا اور یہ دباؤ ڈالتا رہتا ہے کہ پاکستان اپنے علاقے میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، لیکن افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں اس کا کبھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ امریکا کی اسی دوغلی اور منافقانہ پالیسیوں کے باعث خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے علاقے میں موجود دہشت گردوں کے خلاف بھر پور آپریشن کرکے ان کی محفوظ پناہ گاہیں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو تباہ کردیا ہے۔ اب جو بھی دہشت گرد موجود ہیں وہ چھپے ہوئے اور بے شناخت ہیں، جن کی تلاش کے لیے سیکیورٹی ادارے اور ایجنسیاں متحرک ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کا ہاتھ واضح ہوچکا ہے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا ایک خاص پالیسی کے تحت دہشت گردوں کے وجود کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا اور افغان حکومت اگر افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے کیمپوں اور ان کی محفوظ پناہ گاہوںکے خلاف بھر پور آپریشن کریں تو وہ دن دور نہیں جب اس پورے خطے سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے انفرادی کوششوں کے بجائے پاکستان اور افغانستان مشترکہ طور پر کوئی لائحہ عمل طے کریں۔
پشاور میں ایگری کلچر ڈائریکٹوریٹ کے ہوسٹل پر ہونے والا حملہ اس امر کا مظہر ہے کہ خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کی ایک بڑی تعداد اور ان کے سہولت کار ابھی تک موجود ہیں جو اپنی مذموم کارروائیوں کے نتیجے میں ملک میں خوف وہراس پھیلا رہے ہیں۔ 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر بھی دہشت گردوں نے اسی طرح کا حملہ کر کے شدید نقصان پہنچایا تھا۔ خوش قسمتی سے ایگری کلچر ڈائریکٹوریٹ کے ہوسٹل میں عید میلاد النبی کی چھٹی کے باعث زیادہ طالب علم موجود نہ تھے ورنہ زیادہ نقصان کا خدشہ تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق حملے کے دوران دہشت گرد افغانستان میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دہشت گردوں نے خودکش جیکٹس پہن رکھی تھیں۔ ایگری کلچر ڈائریکٹوریٹ میں دو ہاسٹل ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کے ذریعے دہشت گردوں کو ایک ہاسٹل تک محدود کردیا اور انھیں دوسرے تک پہنچنے نہیں دیا۔
اگر دہشت گرد دوسرے ہاسٹل تک بھی پہنچ جاتے تو ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی تھی۔بلوچستان اور خیبر پختونخوا ایک عرصے سے دہشت گردوں کا ٹارگٹ بنے ہوئے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کہیں نہ کہیں کوئی واردات رونما نہ ہوتی ہو، دہشت گرد زیادہ تر سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں جس کا واضح مقصد سیکیورٹی اداروں کے اندر خوف و ہراس کو جنم دینا اور دہشت گردی کے خلاف ان کی جنگ کو پس منظر میں دھکیلنا ہے۔ سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں بڑی تعداد میں قربانیاں دی ہیں، دہشت گردی کا کوئی بھی واقعہ ان کے مذموم ارادوں کو متزلزل نہیں کرسکا۔ وہ پختہ عزم کیے ہوئے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے تک وہ اپنی اس جنگ کو جاری رکھیں گے۔
خیبرپختونخواہ اور ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں میں جو صورتحال سامنے آئی ہے اس کے مطابق دہشت گردوں کو افغانستان سے مدد حاصل رہی۔ اب بھی اس واردات کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ واضح کیا کہ حالیہ واردات میں ملوث حملہ آوروں کے افغانستان میں اپنے ہینڈلرز سے مسلسل رابطے رہے۔
پاکستان بارہا افغان حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرواچکا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے بڑی تعداد میں نہ صرف تربیتی کیمپ موجود بلکہ پاکستان میںدہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث حملہ آوروں نے وہاں محفوظ پناہ گاہیں بنارکھی ہیں، جن کے خاتمے تک خطے میں دہشت گردی کا عفریت اپنے اختتام تک نہیں پہنچ سکتا۔ مگر افغان حکومت نے پاکستان کے اس مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی اور نہ پاکستان سے فرار ہونے والے دہشت گرد فضل اللہ کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے کرنے کے لیے کوئی کارروائی کی۔
امریکا پاکستان سے دہشت گردوں کے خلاف ڈومور کا مطالبہ کرتے نہیں تھکتا اور یہ دباؤ ڈالتا رہتا ہے کہ پاکستان اپنے علاقے میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے، لیکن افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے بارے میں اس کا کبھی کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ امریکا کی اسی دوغلی اور منافقانہ پالیسیوں کے باعث خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہو رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے اپنے علاقے میں موجود دہشت گردوں کے خلاف بھر پور آپریشن کرکے ان کی محفوظ پناہ گاہیں اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو تباہ کردیا ہے۔ اب جو بھی دہشت گرد موجود ہیں وہ چھپے ہوئے اور بے شناخت ہیں، جن کی تلاش کے لیے سیکیورٹی ادارے اور ایجنسیاں متحرک ہیں۔ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں کا ہاتھ واضح ہوچکا ہے۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا ایک خاص پالیسی کے تحت دہشت گردوں کے وجود کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ امریکا اور افغان حکومت اگر افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے کیمپوں اور ان کی محفوظ پناہ گاہوںکے خلاف بھر پور آپریشن کریں تو وہ دن دور نہیں جب اس پورے خطے سے دہشت گردوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ وقت آگیا ہے کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے انفرادی کوششوں کے بجائے پاکستان اور افغانستان مشترکہ طور پر کوئی لائحہ عمل طے کریں۔