اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے
یہ ایک ایسی نئی سیاست ہے جس کو اگر انجینئرنگ سیاست کہاجائے تو شاید مناسب ہو
انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے جس ملک میں کھا رہے ہیں، رہ رہے ہیں اور جہاں پروان چڑھے اسی ملک کو تباہ کرنے کے پروگرام بنائے جائیں ایسے لوگوں کا سیاست میں آنے کا مقصد تباہ حالی ہے جو ملک کو پہنچانی ہے۔ مال غنیمت چراکر کالا دھن جمع کرکے کھربوں کے ٹیکس کی رقومات حاصل کرکے ملکی خزانہ کو بالکل کھوکھلا کرنا مقصد اہم ہے اس کو وہ بڑی اہمیت دیتے ہیں اس لیے کہ جب وہ یہ حرکتیں کریںگے تو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اتنا کچھ کرلیںگے کہ صدیوں رقومات، مال، اسباب میں کمی نہ آئے بلکہ جب موقع ملے مال اٹھالو۔
یہ ایک ایسی نئی سیاست ہے جس کو اگر انجینئرنگ سیاست کہاجائے تو شاید مناسب ہو بلکہ میرے ایک ساتھی تو کہتے ہیں آج کل کی یہ سیاست جھوٹ، مکاری عیاری چالبازی، مکر و فریب کا نام ہے جس کو حرف عام میں بڑے فخر سے سیاست کہتے ہیں جو لوگ سیاست کو ملک کو قوم کی خدمت تصور کرتے ہیں اور اس پر گامزن رہتے ہیں وہ ایسے مکار، عیار لوگوں سے ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرسکتے ہیں۔ جڑیں ہر جگہ گڑھی ہوئی ہیں کہیں کچھ نہیں ہوا بچ کر بڑی عزت سے نکل جاتے ہیں چوری بھی کریں اور بڑی عزت بھی پائیں یہ ان کی صلاحیت ہے جو شروع سے کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ہر ذمے دار محکموں میں اپنے جوتے صاف کرنے والے ایسے تابعدار ملازم رکھتے ہیں جو ان کی ہمیشہ فیض پہنچاتے اور فیض پہنچنے کا راستہ بتاتے ہیں ، اگر ان کو سمندر کی لہریں گننے پر لگادیا جائے تو یہ وہاں بھی اس قدر زر اکٹھا کرلیںگے جس کا شائبہ بھی نہ ہو۔ شروع سے انھوں نے سیکھا ہے بے وقوف بناؤ اپنا الوسیدھا کرو، بڑی آسانی سے جھوٹے وعدے ، بڑے بڑے غریبوں کی غربت دور کرنے کے جملے ادا کرتے ہیں۔
غریب سمجھتا ہے یہ ہمارا بے حد ہمدرد انسان ہے اگر صاحب اقتدار ہوگا تو ہم کو اچھا کھانے کو ملے گا۔ رہائش نصیب ہوگی بچوں کو تعلیم بھی دلاسکیںگے اور ان بیماریوں کا علاج بڑی آسانی سے بمعہ دوا اسپتالوں سے کروالیںگے کیونکہ اس سیاسی لیڈر نے بڑے طمطراق کے ساتھ زور دار وعدے کیے ہیں جن کو یہ پورا کرے گا ان معصوم لوگوں کو نہیں معلوم ہوتا کہ ووٹ حاصل کرکے کامیابی کے بعد یہ اس راستے سے نہیں گزرے گا یہ تو صرف اپنا اقتدار حاصل کرنے کے لیے عہد و پیما کیے گئے ہیں ۔
عوام کو یاد ہوگا موجودہ نیب NAB کے چیئرمین سے پہلے جو چیئرمین تھا اس نے ان کو کہیں بھی کسی کیس میں نہیں آنے دیا بلکہ جو کیس آئے ان کو ادھر ادھر کرکے اصل کاغذات نہ ہونے کے بہانے بناکر بچاتا رہا لیکن ابھی خوشی ہوئی ہے۔ موجودہ نیب چیئرمین جاوید اقبال نے ابھی شروع میں جو کارنامے دکھائے وہ قابل تحسین ہیں۔
آج بھی سابق نااہل وزیراعظم میں شروع ہے ملک میں انتشار پھیلانے کے درپے رہتا ہے، چاہتا ہے کہ ملک میں قتل و غارت ہو افرا تفری پھیلے پورا ملک لپیٹ میں آئے اور اس کے آقا خود کہیں جب ملک اس نہج پر ہے تو کس طرح ایٹمی طاقت کی حفاظت ہوگی یہ چاہتا ہے اپنے آقاؤں کو بتائے کہ میں نہیں رہوںگا تو یہ ایٹمی طاقت بھی نہ رہ سکے گی یہ بھول گیا اس ایٹمی طاقت کی حفاظت ہمارے ملک کی بہادر نڈر ایماندار، دیانت دار فوج کررہی ہے جس کے لیے پہلے ملک اور وہاں کی عوام
ہے۔ اس کو بڑے آقاؤں نے کہاہے یہ اس پر عمل پیرا ہے اس نے وہی کچھ کرنا ہے جس پر اس کے آقا خوش ہوں جب کہ یورپ میں جس قدر پاکستان کی ذلت و رسوائی ہورہی ہے اس کو وہ لوگ بتاسکتے ہیں جو وہاں مقیم ہیں، روز روٹی کے لیے غیر ملکوں میں نوکری پر جانے والے لوگ وہاں کے لوگوں کی حقیرانہ باتیں کم ظرف باتیں سنتے ہیں جواب دیتے ہیں لیکن باتیں ایسی ہیں جن پر لاجواب ہونا پڑتا ہے۔ پورے ملک کو دنیا کے ہر ملک میں بدنام، رسوا کردیا صرف اپنے مطلب کی خاطر یہ نہ سوچا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کس قدر مشقت جفاکشی سے حاصل ہوا تھا یہ باتیں وہ سب بھول بیٹھے ان کو ان باتوں سے کوئی غرض ہے نہ ہمدردی۔
میرا دوست بولا خان صاحب! میں جس ملک میں نوکر ہوں وہاں کے مقامی لوگ ہم پاکستانیوں کو جس حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں کہ ہم خود شرمندہ ہوتے ہیں۔ ہماری بات سننے کے بجائے وہ باتیں سناتے ہیں جائز بات کو ناجائز تصور کرتے ہیں ۔ بات وہی ہے کہ دیگ کا ایک چاول دیکھتے ہیں اگر وہ گل گیا ہے تو پوری دیگ کو تیار سمجھا جاتا ہے۔ ساری وجہ یہی ہے کہ ملک کا ایک فرد اپنے ملک کا ترجمان ہوتا ہے اگر وہ اچھا ثابت ہوگا تو دوسروں کو بھی اچھا کہاجائے گا جب وہ پاناما پیپر، منی لانڈرنگ میں ملوث پایاجائے گا تو کیسے دوسرے ملک ہمارے ملک کو اچھا کہیںگے۔ یہی وجہ ہے جب کسی ایئرپورٹ پر اپنا پاسپورٹ دکھاتے ہیں تو وہ بڑی حقارت بھری نظروں سے دیکھتا ہے سمجھ دار سمجھ جاتے ہیں ہم کو یہ برا سمجھ رہا ہے لیکن کچھ کر بھی نہیں سکتے کہ ہم اچھے بن جائیں۔مانا ہم ایماندار، دیانت دار، نیک، اچھے اعمال والے ہیں لیکن ہمارے بڑے سرکردہ جو ملک کو چلاتے ہیں وہ دوسرے ملکوں سے اقامے لیے ہوئے ہیں جہاں موقع ملتا ہے لوٹ مار شروع کردیتے ہیں حتیٰ کہ بڑے لوگوں نے تو دوسرے ملکوں کی شہریت تک حاصل کی ہے۔ انھیں معلوم ہے اگر ہم پکڑائی میں آئے تو ہم ان ملکوں میں بھاگ جائیںگے جہاں کے ہم شہری ہیں پھر ہمارا کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
یہ ان لوگوں کی بھول ہے کہ ان کے ساتھ کوئی کچھ نہیں کرسکتا ابھی ایسے ایماندار ادارے مثلاً فوج اور عدلیہ موجود ہے جو ان کو نیچا دکھاسکتی ہے ممکن ہے اگر یہ لوگ باز نہ آئے، خلفشار پھیلانے، خانہ جنگی کے پروگرام ترتیب دیتے رہے تو یقینا ایک دن پھر رہ جائیںگے کہ ان کی نسلوں کو بھی ان کا معلوم نہ ہوگا ابھی بھی وقت ہے اللہ سے معافی مانگے اور جو چوری چھپے پوشیدہ قانون پاس کرائے ہیں ان کو ختم کرکے بلکہ ان لوگوں کو جو اسے برے کاموں میں مصروف تھے نکال باہر کریں ہمیں یاد رکھنا چاہیے اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
یہ ایک ایسی نئی سیاست ہے جس کو اگر انجینئرنگ سیاست کہاجائے تو شاید مناسب ہو بلکہ میرے ایک ساتھی تو کہتے ہیں آج کل کی یہ سیاست جھوٹ، مکاری عیاری چالبازی، مکر و فریب کا نام ہے جس کو حرف عام میں بڑے فخر سے سیاست کہتے ہیں جو لوگ سیاست کو ملک کو قوم کی خدمت تصور کرتے ہیں اور اس پر گامزن رہتے ہیں وہ ایسے مکار، عیار لوگوں سے ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اغراض و مقاصد حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرسکتے ہیں۔ جڑیں ہر جگہ گڑھی ہوئی ہیں کہیں کچھ نہیں ہوا بچ کر بڑی عزت سے نکل جاتے ہیں چوری بھی کریں اور بڑی عزت بھی پائیں یہ ان کی صلاحیت ہے جو شروع سے کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ ہر ذمے دار محکموں میں اپنے جوتے صاف کرنے والے ایسے تابعدار ملازم رکھتے ہیں جو ان کی ہمیشہ فیض پہنچاتے اور فیض پہنچنے کا راستہ بتاتے ہیں ، اگر ان کو سمندر کی لہریں گننے پر لگادیا جائے تو یہ وہاں بھی اس قدر زر اکٹھا کرلیںگے جس کا شائبہ بھی نہ ہو۔ شروع سے انھوں نے سیکھا ہے بے وقوف بناؤ اپنا الوسیدھا کرو، بڑی آسانی سے جھوٹے وعدے ، بڑے بڑے غریبوں کی غربت دور کرنے کے جملے ادا کرتے ہیں۔
غریب سمجھتا ہے یہ ہمارا بے حد ہمدرد انسان ہے اگر صاحب اقتدار ہوگا تو ہم کو اچھا کھانے کو ملے گا۔ رہائش نصیب ہوگی بچوں کو تعلیم بھی دلاسکیںگے اور ان بیماریوں کا علاج بڑی آسانی سے بمعہ دوا اسپتالوں سے کروالیںگے کیونکہ اس سیاسی لیڈر نے بڑے طمطراق کے ساتھ زور دار وعدے کیے ہیں جن کو یہ پورا کرے گا ان معصوم لوگوں کو نہیں معلوم ہوتا کہ ووٹ حاصل کرکے کامیابی کے بعد یہ اس راستے سے نہیں گزرے گا یہ تو صرف اپنا اقتدار حاصل کرنے کے لیے عہد و پیما کیے گئے ہیں ۔
عوام کو یاد ہوگا موجودہ نیب NAB کے چیئرمین سے پہلے جو چیئرمین تھا اس نے ان کو کہیں بھی کسی کیس میں نہیں آنے دیا بلکہ جو کیس آئے ان کو ادھر ادھر کرکے اصل کاغذات نہ ہونے کے بہانے بناکر بچاتا رہا لیکن ابھی خوشی ہوئی ہے۔ موجودہ نیب چیئرمین جاوید اقبال نے ابھی شروع میں جو کارنامے دکھائے وہ قابل تحسین ہیں۔
آج بھی سابق نااہل وزیراعظم میں شروع ہے ملک میں انتشار پھیلانے کے درپے رہتا ہے، چاہتا ہے کہ ملک میں قتل و غارت ہو افرا تفری پھیلے پورا ملک لپیٹ میں آئے اور اس کے آقا خود کہیں جب ملک اس نہج پر ہے تو کس طرح ایٹمی طاقت کی حفاظت ہوگی یہ چاہتا ہے اپنے آقاؤں کو بتائے کہ میں نہیں رہوںگا تو یہ ایٹمی طاقت بھی نہ رہ سکے گی یہ بھول گیا اس ایٹمی طاقت کی حفاظت ہمارے ملک کی بہادر نڈر ایماندار، دیانت دار فوج کررہی ہے جس کے لیے پہلے ملک اور وہاں کی عوام
ہے۔ اس کو بڑے آقاؤں نے کہاہے یہ اس پر عمل پیرا ہے اس نے وہی کچھ کرنا ہے جس پر اس کے آقا خوش ہوں جب کہ یورپ میں جس قدر پاکستان کی ذلت و رسوائی ہورہی ہے اس کو وہ لوگ بتاسکتے ہیں جو وہاں مقیم ہیں، روز روٹی کے لیے غیر ملکوں میں نوکری پر جانے والے لوگ وہاں کے لوگوں کی حقیرانہ باتیں کم ظرف باتیں سنتے ہیں جواب دیتے ہیں لیکن باتیں ایسی ہیں جن پر لاجواب ہونا پڑتا ہے۔ پورے ملک کو دنیا کے ہر ملک میں بدنام، رسوا کردیا صرف اپنے مطلب کی خاطر یہ نہ سوچا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کس قدر مشقت جفاکشی سے حاصل ہوا تھا یہ باتیں وہ سب بھول بیٹھے ان کو ان باتوں سے کوئی غرض ہے نہ ہمدردی۔
میرا دوست بولا خان صاحب! میں جس ملک میں نوکر ہوں وہاں کے مقامی لوگ ہم پاکستانیوں کو جس حقارت بھری نظروں سے دیکھتے ہیں کہ ہم خود شرمندہ ہوتے ہیں۔ ہماری بات سننے کے بجائے وہ باتیں سناتے ہیں جائز بات کو ناجائز تصور کرتے ہیں ۔ بات وہی ہے کہ دیگ کا ایک چاول دیکھتے ہیں اگر وہ گل گیا ہے تو پوری دیگ کو تیار سمجھا جاتا ہے۔ ساری وجہ یہی ہے کہ ملک کا ایک فرد اپنے ملک کا ترجمان ہوتا ہے اگر وہ اچھا ثابت ہوگا تو دوسروں کو بھی اچھا کہاجائے گا جب وہ پاناما پیپر، منی لانڈرنگ میں ملوث پایاجائے گا تو کیسے دوسرے ملک ہمارے ملک کو اچھا کہیںگے۔ یہی وجہ ہے جب کسی ایئرپورٹ پر اپنا پاسپورٹ دکھاتے ہیں تو وہ بڑی حقارت بھری نظروں سے دیکھتا ہے سمجھ دار سمجھ جاتے ہیں ہم کو یہ برا سمجھ رہا ہے لیکن کچھ کر بھی نہیں سکتے کہ ہم اچھے بن جائیں۔مانا ہم ایماندار، دیانت دار، نیک، اچھے اعمال والے ہیں لیکن ہمارے بڑے سرکردہ جو ملک کو چلاتے ہیں وہ دوسرے ملکوں سے اقامے لیے ہوئے ہیں جہاں موقع ملتا ہے لوٹ مار شروع کردیتے ہیں حتیٰ کہ بڑے لوگوں نے تو دوسرے ملکوں کی شہریت تک حاصل کی ہے۔ انھیں معلوم ہے اگر ہم پکڑائی میں آئے تو ہم ان ملکوں میں بھاگ جائیںگے جہاں کے ہم شہری ہیں پھر ہمارا کوئی کچھ نہیں کرسکتا۔
یہ ان لوگوں کی بھول ہے کہ ان کے ساتھ کوئی کچھ نہیں کرسکتا ابھی ایسے ایماندار ادارے مثلاً فوج اور عدلیہ موجود ہے جو ان کو نیچا دکھاسکتی ہے ممکن ہے اگر یہ لوگ باز نہ آئے، خلفشار پھیلانے، خانہ جنگی کے پروگرام ترتیب دیتے رہے تو یقینا ایک دن پھر رہ جائیںگے کہ ان کی نسلوں کو بھی ان کا معلوم نہ ہوگا ابھی بھی وقت ہے اللہ سے معافی مانگے اور جو چوری چھپے پوشیدہ قانون پاس کرائے ہیں ان کو ختم کرکے بلکہ ان لوگوں کو جو اسے برے کاموں میں مصروف تھے نکال باہر کریں ہمیں یاد رکھنا چاہیے اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔