سی پیک کے ہم خود ہی دشمن کیوں
حکومت کے گرنے سے جہاں دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی وہاں سی پیک پر بھی اس کی ضرب پڑی۔
یہ بات اب یقینی ہے کہ مستقبل کی سپر پاور کا تاج چین کے سر پر سجنے والا ہے۔ اس نے دنیا کے غریب ممالک کی امداد کرنے کا جو عالمی ریکارڈ قائم کیا ہے اس سے امریکا ہی نہیں تمام مغربی ممالک گھبرائے ہوئے ہیں کیونکہ وہ ماضی میں بھی غریب ممالک کا خون چوس کر خود کو معاشی اور عسکری طور پر طاقتور بناتے رہے ہیں اور اب بھی ان کا وہی مشغلہ جاری ہے جس کی وجہ سے نوے فیصد ممالک ان کے خلاف شدید جذبات رکھتے ہیں۔
خوش قسمتی سے چین ایک ایسا ملک ہے جو غریب ممالک کی معاشی کمزوریوں پر قابو پانے کے لیے اپنی جس دریا دلی کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ اپنی مثال آپ بھی ہے اور خودغرض سامراجی ممالک کے منہ پر طمانچہ بھی ہے۔ اس وقت چین ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کے تقریباً ساٹھ ترقی پذیر ممالک میں بغیر کسی سیاسی عزائم کے ایک ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے ان کے توانائی سمیت نو سو مختلف ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے میں مصروف ہے۔ اس نے سری لنکا، بنگلہ دیش اور فلپائن کے علاوہ کئی ممالک کی بندرگاہوں کو عالمی معیار کے مطابق ترقی دینے کے لیے کام جاری کر رکھا ہے۔
اسی جذبے کے تحت اس نے گوادر بندرگاہ کے اسٹریٹیجک محل وقوع کی وجہ سے اسے بھی عالمی تجارت کا مرکز بنانے سمیت پاکستان میں دیگر کئی منصوبوں کے لیے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جو اب بڑھ کر 55 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ چین نے دنیا کے جن ممالک میں اپنی سرمایہ کاری سے ترقیاتی منصوبے شروع کیے ہیں وہاں کے عوام میں ان منصوبوں کے متعلق مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، وہاں کے عوام اور حکمرانوں نے مل کر ان قومی مفاد کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ملک میں مکمل اور مثالی استحکام قائم کر رکھا ہے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔
جب سے سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا ہے ملک میں دہشتگردی سمیت مختلف مسائل کا طوفان کھڑا ہوگیا ہے۔ بلوچستان جہاں کے عوام کی اس منصوبے کے ذریعے قسمت چمکنا ہے دہشتگردی کے نئے عذاب میں گرفتار ہوگیا ہے۔ بھارت نواز سرداروں کے بیٹے بھارتی پروپیگنڈے اور لالچ کا شکار ہوکر ملک سے باہر جاکر نام نہاد آزاد بلوچستان کی مہم چلا رہے ہیں۔ ہمارے بعض سیاستداں اس پروجیکٹ میں اپنے صوبے کے مقررہ حصے سے زیادہ حصہ مانگ کر اسے متنازعہ بنا رہے ہیں۔
2014ء میں عین پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دیے جانے والے طویل ترین دھرنے نے تو اس پروجیکٹ کو آخری شکل دینے اور معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے آنے والے چینی صدر کا دورہ ہی ناکام بنا دیا تھا۔ اسی وقت سے حکومت کو گرانے کی جو مہم جوئی شروع ہوئی تو وہ پاناما سے گزر کر بالآخر اقامہ پر منتج ہوگئی۔ کاش کہ حکومت اپوزیشن کا کہا مان کر پارلیمنٹ کے اندر ہی معاملہ حل کرلیتی تو حکومت گرنے کا واقعہ ظہور پذیر نہ ہوتا۔
حکومت کے گرنے سے جہاں دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی وہاں سی پیک پر بھی اس کی ضرب پڑی۔ اس کا اثر چین نے بھی لیا۔ گوکہ وہ پاکستان کا غیر مشروط آزمودہ دوست ہے مگر وہ بھی پاکستانی جمہوری حکومتوں کی بے ثباتی پر پریشان نظر آنے لگا اور ایسا لگا کہ وہ سی پیک کو پیک کرنے کی سوچنے لگا ہو۔ شاید اسے اپنے سرمایہ کا خدشہ لاحق ہوگیا ہو لیکن اس کی وجہ صرف حکومت کا گرنا ہی نہیں تھا، ہمارے سیاستدانوں کی باہمی چپقلش، بداعتمادی اور ملکی مفادات سے لاپرواہی بھی تھی۔
بالآخر بروکس کانفرنس میں پاکستان کو دہشتگردی کی پناہ گاہ قرار دینے کی بھارتی سازش کامیاب ہوگئی اور چینی حکومت اسے نہ روک سکی، اس سے بھارتیوں کی تو بانچھیں کھل گئیں مگر پاکستانیوں کو جو غم ہوا اس کا افسوس کاش کہ سی پیک کو نقصان پہنچانے والے سیاستدانوں کو بھی کچھ ہوتا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔
ملک میں اب بھی انتشار کی کیفیت طاری ہے اور اقتدار کی جنگ جاری ہے۔ ہمارے اس رویے سے چینی عوام اور حکمراں کیا سوچتے ہوں گے کہ یہ بھی کیسی قوم ہے جو اپنے ملکی مفاد کو بھی خاطر میں نہیں لاتی۔ کاش کہ ہم پاکستانی سی پیک کی اہمیت کو سمجھ سکتے، تاہم ہمارے دشمن اس کی اہمیت سے خوب واقف ہیں اور اسی لیے وہ اسے ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اس وقت بھارت پوری دنیا میں دہائی دے رہا ہے کہ آزاد کشمیر بھی اس کا حصہ ہے چنانچہ اس متنازعہ خطے کو سی پیک کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ امریکا بھی بھارتی پروپیگنڈے کا شکار ہوکر بھارت کی ہاں میں ہاں ملا رہا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ بھارت کی دشمنی اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے۔ وہ افغانستان کو بھی اس منصوبے کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ وہاں سے افغان نوجوانوں کو دہشت گردی کی تربیت دے کر بلوچستان بھیجا جا رہا ہے، جہاں موجود ''را'' کے ایجنٹ ان کی دہشت گردی کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت قید کلبھوشن یادیو ایک عرصے تک وہاں ''را'' کا تخریبی نیٹ ورک چلاتا رہا تھا۔
عالمی برادری کو اس بھارتی کھلی جارحیت کا ضرور نوٹس لینا چاہیے تھا مگر عالمی برادری شدید بے حسی کا شکار ہے۔ دو سال قبل مودی نے اپنے قومی دن کے موقع پر لال قلعے سے بلوچستان میں دہشت گردی پھیلانے اور اسے پاکستان سے علیحدہ کرنے کا واضح اعلان کیا تھا۔ یہ دنیا کے لیے ایک خطرناک پیغام تھا کیونکہ اس طرح پوری دنیا کا امن چوپٹ ہوسکتا ہے مگر افسوس کہ امن کے علمبردار مغربی ممالک خاموش تماشائی بنے رہے محض اس لیے کہ ان کے بھارت سے معاشی مفادات وابستہ ہیں۔
چین نے بھارت کو سی پیک کے سلسلے میں رام کرنے کے لیے صائب مشورہ دیا ہے کہ وہ اس کی مخالفت کرنے کے بجائے اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔ ایک خبر کے مطابق چین نے بھارت کو سی پیک کا نام بھی تبدیل کرنے کی پیشکش کی ہے، تاہم پاکستان میں تعینات کیے جانے والے نئے چینی سفیر نے اس خبر کی تردید کی ہے۔ سی پیک کے نام کو تبدیل کرنے کی پاکستانی حکومت بھی مخالفت کرے گی اس لیے کہ بھارت کی مکاریوں کا چین سے زیادہ پاکستان کو ادراک ہے۔ جب بھارت کو پاکستان کا وجود ہی پسند نہیں ہے تو وہ بھلا سی پیک کو کیونکر گوارا کرے گا۔
ایک خبر کے مطابق بھارت نے سی پیک کو رول بیک کرانے کے لیے ''را'' کو پانچ سو ملین ڈالر دیے ہیں اور ساتھ ہی موساد اور سی آئی اے کی مدد حاصل کرلی ہے۔ بھارت کشمیر اور خصوصاً آزاد کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے مگر چین نے عالمی برادری سے بڑھ کر بھارت کے اس جھوٹے دعوے کو رد کیا ہے اور اب بھارت کی ناراضگی کے باوجود آزاد کشمیر کو سی پیک کی راہ داری کے لیے استعمال کرنے کے لیے فیصلے پر پرعزم ہے۔
مودی نے خوش فہمی اور پاکستان دشمنی میں آزاد کشمیر کو متنازعہ قرار دے کر بھارت کے کشمیر پر سرکاری موقف کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔ کیونکہ بھارت تو پورے جموں کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ اور غیر متنازعہ قرار دیتا ہے۔ چونکہ آزاد کشمیر جموں کشمیر کا ایک حصہ ہے چنانچہ جب آزاد کشمیر متنازعہ ہے تو پھر پورا جموں کشمیر ہی متنازعہ ہوگیا۔ اس طرح شکاری خود اپنے جال میں پھنس گیا ہے۔
بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی ایک عرصے سے بھارت سرکار سے کشمیر کو متنازعہ خطہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں مودی نے اپنی بے وقوفی سے نہ صرف گیلانی صاحب کی مانگ کو پورا کردیا ہے بلکہ کشمیریوں کی جاری جدوجہد آزادی کو کامیابی کی سند فراہم کردی ہے۔ اب رہی بات سی پیک کی تو اسے کامیاب بنانے کے لیے ہم پاکستانیوں کو کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور ملک میں مکمل قومی یکجہتی اور سیاسی استحکام کو یقینی بنانا چاہیے اس لیے کہ یہ منصوبہ ہماری قوم کی خوشحالی اور ملک کو ترقی کی معراج پر پہنچانے کا ضامن ہے۔
یہاں یہ بھی گزارش کرنا ضروری ہے کہ ہمارے ایک حلقے کی جانب سے پھیلائے جانے والے اس پروپیگنڈے کو بھی اب ختم ہوجانا چاہیے کہ چین ہمارے تجارتی اور صنعتی شعبوں پر بالادستی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری قومی خودمختاری کو بھی غصب کرنے کے لیے سی پیک منصوبے کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔