ایف آئی آر دبانے کا نتیجہ

صدیقی سے میرا اور عامر رضا خاں میرے جگری دوست کا تعلق اس وقت سے تھا جب اس کو ایئرفورس میں کمشن ملا تھا۔

h.sethi@hotmail.com

سچ ہے کہ '' آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں'' میرا اس موضوع پر قلم اٹھانے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن چند روز قبل بھٹو صاحب کے Talented Cousin ممتاز بھٹو کو ٹیلیوژن پر انٹرویو دیتے دیکھا اور سنا تو ذوالفقار علی بھٹو کی یاد آئی اور پھر آتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ میں نے گھر کے ڈرائنگ روم میں جاکر ان کے ساتھ اپنی تصویر دیکھی تو چند مختصر یادوں نے ذہن کی سطح پر ابھرنا شروع کردیا۔

ممتاز بھٹو صاحب گوجرانوالہ سے گزر رہے تھے، بھٹو صاحب والا آخری جنرل الیکشن ہنگاموں میں اختتام پذیر ہوا تھا۔ میں اس وقت گوجرانوالہ الیکشن کا ریٹرننگ آفیسر تھا۔ ممتاز بھٹو جی ٹی روڈ سے لاہور جارہے تھے، ان سے میری ملاقات ایک ڈیڑھ منٹ رہی جس میں انھوں نے الیکشن ہی کے بارے میں کچھ استفسار کیا تھا۔

بھٹو صاحب سے گہرا قریبی تعلق رکھنے والے ہزاروں نہیں لاکھوں ہوں گے اور ہیں جن کے پاس ان کی یادوں کا خزانہ ہے لیکن بہت سے ان کے نام پر اپنی سیاست اور حکمرانی کی دکانیں چلا اور چمکا رہے ہیں۔ لاڑکانہ کے بعد لیکن اس سے بڑی دکان جاتی امرا کی تھوک مارکیٹ ہے جہاں سے اب تک حکمرانی کی نو باریاں لے چکنے کے باوجود دسویں باری کے لیے طبل جنگ کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اس ہوس اقتدار کو ازخود خدا حافظ کہہ کر تاریخ میں اچھے الفاظ میں نام رقم کروانے کی مثال قائم کردی جائے لیکن ایسی نیک شروعات کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ یعنی شاعر نے سچ کہا ہے کہ

چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی

اور یہ کافر ایسی ظالم ہے کہ خانہ خراب کیے بغیر نہیں چھوڑتی۔

دیکھئے میں بھٹک کر کدھر سے کہاں نکل گیا۔ مجھے تو ذکر کرنا تھا بھٹو صاحب کا جن سے چار بار مختصر ترین ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی بار جب وہ وزارت چھوڑ چکے تھے۔ دوسری بار جب وہ وزیراعظم تھے اور دو بار جب وہ ملزم تھے۔ ان کے اکلوتے مصافحے کا نرم اور گرم لمس البتہ میں آج تک اپنے ہاتھ میں محسوس کرسکتا ہوں۔ راولپنڈی میں ایک فائیو اسٹار ہوٹل کا بڑا ہال مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جو وہاں بلند آواز موسیقی سنتے ہوئے ناؤ نوش میں غرق تھے کہ ایک مہمان نے باہر سے آکر بہ آواز بلند اطلاع دی کہ ابھی ابھی بھٹو صاحب پشاور روڈ کی طرف سے آکر اوپر ایک کمرے میں گئے ہیں۔

ہال میں موجود لوگ ایرانی سفارت خانے کے مہمان تھے۔ یہ شہنشاہ آریہ مہر کی طرف سے صد سالہ حکمرانی کا جشن منانے کے لیے دی گئی ضیافت تھی اور ایسے جشنوں کا اہتمام پوری دنیا کے ایرانی سفارت خانوں نے کر رکھا تھا۔ کسے معلوم تھا کہ ایک وقت آئے گا جب شاہ ایران کو ملک اور تاج و تخت چھوڑ کر فرار ہونا پڑے گا اور پھر اسے فوت ہونے کے بعد لحد میں اترنے کے لیے کوئی ملک دو گز زمین دینے پر بھی بمشکل تیار ہوگا۔ ہوس اقتدار کے سبب زمبابوے، مصر، ایران اور عراق کے حکمرانوں کا عبرتناک انجام تو ہمارے سامنے کی بات ہے۔


ہوٹل کے ہال میں جن لوگوں نے بھٹو صاحب کی ہوٹل میں آمد کی خبر سنی ان میں سے پانچ چھ من چلے ان کے کمرے کی تلاش میں نکل گئے اور کچھ ہی دیر میں انھیں ہال میں لے آئے۔ لوگ ان سے مصافحے کرنے لگے۔ میں نے بھی مصافحہ کیا، ان کا ہاتھ نہایت نرم اور گرم تھا۔ لوگوں کا ہجوم اور جوش و خروش دیکھ کر انھوں نے یہ کہہ کر جانے کے لیے معذرت چاہی کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں۔

بھٹو صاحب 1970ء والا الیکشن جیت کر وزیراعظم منتخب ہوگئے۔ ان کے تین ADC تھے۔ نیوی سے عابد راٹھور منتخب ہوئے جو میرے کزن سعید علی مرزا کے کورس میٹ تھے وہ ADC تعیناتی سے پہلے کبھی راولپنڈی بلکہ پنجاب بھی نہیں آئے تھے۔ وہ سعید علی مرزا کے ریفرنس سے مجھے ملنے کچہری آئے۔ پھر آتے رہے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کی شادی ایک جنرل صاحب کی فیملی میں طے ہوگئی۔ دعوت ولیمہ میں شمولیت کے لیے ہم اسی ہوٹل پہنچے جہاں بھٹو صاحب سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اسی شادی میں نورا یعنی بھٹو صاحب کے ملازم خاص نور محمد مغل سے بھی میرا ملنا ہوا۔

ہم دولہا کے خاص مہمان تھے اس لیے پوری کیبنٹ کو قریب سے دیکھا۔ بھٹو صاحب سے نہ صرف ملاقات ہوئی بلکہ ان کے ساتھ ایک Exclusive فوٹو گراف بھی بن گئی۔ یہ ان سے دوسری ملاقات تھی۔ کیبنٹ ڈویژن کے ملٹری ونگ میں تعیناتی کے دنوں کچھ سیکرٹ ریکارڈ پیش کرنے کے لیے میرا پرائم منسٹر صاحب کی ایک میٹنگ میں کانفرنس ٹیبل سے کچھ فاصلے پر ریکارڈ سمیت بیٹھنا ہوا لیکن ملاقات نہ ہوئی۔ میٹنگ ختم ہوئی تو پرائم منسٹر صاحب کے رائٹنگ پیڈ کے اوپر والے صفحے پر بھٹو صاحب کے قلم کی مینا کاری دیکھی، افسوس کہ اس کاغذ کی اس وقت اہمیت کا اندازہ نہ ہوا اور وہ قلم کاری میرے پاس محفوظ نہ رہ سکی۔

یونیورسٹی لاء کالج میں میرے کلاس فیلو احمد رضا خاں عملی زندگی میں آکر پیپلزپارٹی کے بانی رکن بنے۔ سیاست میں اختلافات ہونا کچھ برا یا انہونی بات نہیں، احمد رضا کے بھی بھٹو صاحب سے اختلافات ہوگئے۔ زبان پر کنٹرول ان کے لیے ایک مشکل کام ہے۔ بوجوہ ٹارگٹ احمد رضا تھے، نشانہ ان کے والد بن گئے، اس قتل میں بھٹو صاحب نامزد ہوئے۔ بجائے تفتیش کروانے کے مصاحبوں نے FiR دبوا دی۔ وقت بدلا اور جنرل ضیاء الحق شبخون مار کر اقتدار میں آگیا۔ بھٹو صاحب نظر بند ہوگئے۔ وہ فطرت سے مجبور تھے۔ تکبر میں مبتلا تھے۔ اب ضیاء الحق اور ذوالفقار علی بھٹو آمنے سامنے تھے۔

یہاں نوبت اس مقام تک پہنچی کہ پھانسی کا پھندا ایک تھا اور گردنیں دو۔ پرانی 302 تعزیرات پاکستان کی FiR نکل آئی اور تفتیش شروع ہوگئی۔ تین سال قبل ماڈل ٹاؤن لاہور میں بھی چودہ قتل پولیس کے ہاتھوں ہوئے۔ کیوں ہوئے کیسے ہوئے کس کے حکم پر ہوئے۔ اگر بھٹو صاحب والی FiR پر بروقت تفتیش ہوجاتی تو نتیجہ شاید مختلف ہوتا۔ ٹرائل جسٹس مولوی مشتاق کے بجائے کسی اور جج کے پاس ہوتا تو ممکن ہے نتیجہ کچھ مختلف ہوتا۔ ماڈل ٹاؤن واقعے کا نتیجہ بھی خدا جانے کیا ہوا۔ رعونت جس میں طمع کی آمیزش ہوجائے، صائب فیصلے کرنے کی صلاحیت چھین لیتی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ میں بھٹو صاحب کا ٹرائل ہوا تو پولیس انھیں ایک گھٹیا سی پرانی موٹر کار میں ہائی کورٹ کے مال روڈ سائیڈ والے لان میں لے آتی۔ ان کی دو پیشیوں پر میری ڈیوٹی لگی کہ انھیں کار سے اترنے پر ہمراہ لے کر عقیل خاں کے کمرے تک لے جاؤں اور کیس کی سماعت کے بعد واپسی کے لیے کار تک چھوڑ دوں۔ میری ہمت نہ ہوئی کہ اس دوران ان سے بات بھی کرتا۔ وہ ممبر انسپکشن ٹیم کے کمرے میں پہنچ کر عقیل خاں سے کافی کا کپ پیتے تھے۔

جب انھیں 4 اپریل 1979ء کی صبح راولپنڈی کی جیل میں تارا مسیح نے پھانسی دینے کی ڈیوٹی انجام دے دی تو گروپ کیپٹن طاہر صدیقی C130 جہاز میں ان کا جسد خاکی ان کے آبائی شہر چھوڑ آیا۔ صدیقی سے میرا اور عامر رضا خاں میرے جگری دوست کا تعلق اس وقت سے تھا جب اس کو ایئرفورس میں کمشن ملا تھا۔ بھٹو صاحب سے چار مختصر ترین ملاقاتوں کا ذکر ہوگیا۔ اسی حوالے سے جسٹس دراب پٹیل صاحب سے اپنے گھر ملاقات کا ذکر پھر کبھی۔
Load Next Story