فوج اور حکمرانی

ریاست کے تینوں مضبوط ستون ریاست کے استحکام کی ضمانت ہیں سب کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے


Abdul Qadir Hassan December 03, 2017
[email protected]

پاکستان رفتہ رفتہ ایک دلچسپ ملک بنتا جا رہا ہے ایک ایسا ملک جہاں ہر ایک اپنی رائے آزادی سے بیان کر سکتا ہے چاہے وہ رائے ملک کے خلاف ہی کیوں نہ ہو،اگر کبھی آزادی رائے پر قدغن لگانے کا معاملہ ہو تو ہر طرف سے چیخ و پکار شروع ہو جاتی ہے اور آزادی کو سلب کرنے کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں، بنیادی حقوق بھی ہمیں یاد آجاتے ہیں اور آزادیٔ اظہار کے لیے احتجاج بھی شروع ہو جاتے ہیں ، یہ سب نئے سامراجی نظام کے مغالطے ہیں جن سے عدم واقفیت کے باوجود ہم ان کو قبول بھی کر رہے ہیں اور اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔

ایسی خبریں مسلسل موصول ہو رہی ہیں جن کو پڑھ کر قارئین سر دھنتے ہیں اور پھر ان کے بارے میں تبصرے شروع کر دئے جاتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جج نہیں بولتے ان کے فیصلے بولتے ہیں لیکن پچھلے کچھ عرصے سے ججوں کے فیصلوں کے علاوہ ججوں نے خود سے بھی بولنا شروع کر دیا ہے جن سے ان کے فیصلوں سے پہلے خبریں بنتی ہیں۔ ججوں کی رائے سن کر کیس کے فیصلے کے بارے میں چہ میگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں، اس لیے بات پرانی سی لگتی ہے کہ ججوں کے فیصلے بولتے ہیں۔

ہمارے ایک سابق چیف جسٹس جو کہ از خود نوٹس لینے کے بڑے شوقین تھے انھوں نے اپنی چیف ججی کے دوران کوئی بھی کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچایا لیکن عدلیہ اور صحافت کو قریب کر گئے کہ منصف کی کرسی پر بیٹھ کر وہ مختلف کیسوں کے بارے میں جو رائے دیتے اسی کی خبر بنتی تھی، ان کے کریڈٹ پر سب سے بڑا فیصلہ ان کا وقت کے طاقت ور ترین ڈکٹیٹر کو اس کے گھر میں بیٹھ کر انکار تھا جو ان کو امر کر گیا حالانکہ بعد میں وہ خود اپنے بقول اس طبقے میں شامل ہوگئے جس نے اس ملک کو بے دردی سے لوٹا، انھوں نے سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی اور اب اس کمزور پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔

ان کی دیکھا دیکھی اب معزز جج صاحبان نے مختلف کیسوں میں منصف کی کرسی پر بیٹھ کر اپنی رائے کا اظہار شروع کر دیا ہے جو کہ ریاست کے اداروں کے مابین ٹکراؤ کی صورتحال پیدا کرنے کے مترداف ہے ۔اسلام آباد میں موجودہ دھرنے کے بارے میں حکومت کے دھرنا قائدین سے بے نتیجہ مذاکرات کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز جج شوکت عزیز صدیقی نے از خود نوٹس لے کر حکومتی ٹیم کو اس بات کا پابند کیا کہ مقررہ وقت میں سڑک کو مظاہرین سے خالی کرایا جائے۔

اس ڈیڈلائن کو دھرنا قائدین کے گوش گزار کر دیا گیا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اور بالآخر حکومت کو آپریشن کرنا پڑ گیا جس کے نتائج ہم سب دیکھ چکے ہیں ۔ ان ہی نتائج کو دیکھتے ہوئے معزز جج نے بھی وزیر داخلہ پر انتظامیہ اور پولیس کو ذلیل کرانے کا کہتے ہوئے اپنی بھر پور برہمی کا اظہارکیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ'' فوج کا اس معاملے سے کیا تعلق وہ کیسے اس مسئلے میں ثالث بن گئے فوج کو اپنی آئینی حدود میں رہنا چاہیے فوجیوں نے اگر سیاست کرنی ہے تو نوکری چھوڑ دیں ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ ہر مرض کی دوا فوج ہے''۔

میں عدلیہ کے بارے میں لکھنے سے ہمیشہ گریز کرتا ہوں لیکن معزز جج صاحب نے جو نکتے اُٹھائے ہیں وہ ایک طرف اگر غور طلب ہیں تو دوسری طرف ان کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ۔ یہ بات درست ہے سیاست فوج کا کام نہیں اس کاکام پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کا ہی ہے لیکن ہم فوج کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ وقتاً فوقتاًحیلے بہانے سے فوج کو یاد کر لیتے ہیں، یہ قوم تو پاک فوج کی غیر مشروط دیوانی ہے ہی لیکن سیاست دان بھی بوقت ضرورت فوج کو اپنا کندھا فراہم کرنے میں دیر نہیں کرتے اور جان کی امان پاؤں اور توہین عدالت کا اگر مرتکب نہ ہوں تو یہ کہنے کی بھی جسارت کروں گا کہ پاکستان کی ان ہی عدالتوں نے فوج کے اقتدار کو جائز بھی قرار دیا اور فوجی قانون کے تحت ججی کا حلف بھی اٹھایا ہے، اس لیے کسی ایک کو مورد الزام ٹھہرانا دانشمندی نہیں کہ اس حمام میں سب ایک جیسے ہیں۔

ریاست کے تینوں مضبوط ستون ریاست کے استحکام کی ضمانت ہیں سب کو اپنے دائرے میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ جب اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتا ہے تو بگاڑ شروع ہو جاتا ہے اور یہی بگاڑ اس وقت ہم دیکھ رہے ہیں۔ سیاستدان دبے لفظوں میں عدالت اور فوج پر طنز و تنقید کے نشتر برسا رہے ہیں، اب عدالت کے ایک معزز جج کی جانب سے بھی فوج کے لیے سخت ترین زبان استعمال کی گئی ہے اور صرف ایک فوج ہی ہے جو کہ مسلسل اس بات پر مصر ہے کہ وہ آئینی اور قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے اپنا کام سر انجام دے گی۔

دھرنے کے معاملے میں بھی سول حکومت نے اپنی ناکامی کے بعد فوج کو باضابطہ طور پر خط لکھ کر اپنا کردار ادا کرنے کی درخواست کی لیکن فوج نے اس معاملے کو خالصتاً انتظامی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اپنے آپ کو اس سے علیحدہ کر لیا اور اپنے شہریوں پر تشدد سے انکار کر دیا لیکن انھوں نے مذاکرات میں اپنا کردار ادا کیا کیونکہ دھرنا قائدین اپنے خلاف سول حکومت کے ناکام ایکشن کے بعد اپنے مطالبات پر مزید سختی سے ڈٹ گئے۔

اس ساری صورتحال میں فریقین نے اعتماد کرتے ہوئے فوج کو بطور ادارہ اپنا ثالث بنا لیا اور فوجیوں نے ثالثی کرتے ہوئے مسئلہ حل بھی کرا دیا ۔معزز جج کی یہ باتیں ایک مدت تک یاد رہیں گی۔ آزادیٔ اظہار اپنی جگہ لیکن ملکی مفاد بھی کسی بلا کا نام ہے اس لیے ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے اگر ججوں کے فیصلے ہی بولیں تو بہتر ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔