پی سی بی کی سرد مہری نے سعید اجمل کا دل توڑ دیا
کرکٹ کو الوداع کہتے وقت کوئی بھی سرکردہ افسر موجود نہ تھا،نجم سیٹھی نے ٹویٹ پر اکتفا کیا،کوئی فون نہ آیا، اسپنر
سعید اجمل کو اس بات کا بہت دکھ ہے کہ بورڈ کا کوئی بھی سرکردہ افسر ان کے کرکٹ سے الوداع کہتے وقت موجود نہ تھا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں 447 وکٹیں حاصل کرنے والے سعید اجمل نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ میں اپنے کریئر سے مطمئن اور مجھے خوشی ہے کہ میری کارکردگی ملک کے کام آئی، میں نے بہت کم عرصے میں جو اعزازات حاصل کیے وہ کوئی دوسرا کرکٹر 20 سال کھیل کر حاصل کرتا، البتہ مجھے اس بات پر ہمیشہ دکھ رہے گا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کوئی بھی اعلیٰ افسر مجھے الوداع کہنے کیلیے موجود نہ تھا، چیئرمین نجم سیٹھی نے بھی جو پیغام بھیجا وہ صرف ٹویٹ پر مبنی تھا،کسی نے فون کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی، بورڈ ہرکسی کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتا ہے تو میں کیا شکوہ کروں؟
سعید اجمل نے سابقہ موقف پھر دہراتے ہوئے کہا کہ مشکوک بولنگ ایکشن سے متعلق آئی سی سی کا قانون صرف پاکستان کیلیے ہے، میں بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور بھارت کے کئی ایسے بولرز کے نام انگلیوں پرگنوا سکتا ہوں جو 15 ڈگری سے زیادہ بولنگ کرتے ہیں لیکن کونسل نے کبھی انھیں رپورٹ نہیں کیا۔
اسپنر نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہونے کی وجہ سے بورڈ کو آئی سی سی کی ضرورت ہے، اسی لیے وہ خاموش بیٹھا ہے لیکن اگر وہ اسی طرح آنکھیں بند اور کان میں روئی ڈال کر بیٹھا رہا تو پاکستانی بولرز مشکوک بولنگ ایکشن کے قانون کی زد میں آتے رہیں گے، یہ قانون جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے مترادف ہے، انھوں نے یہ ماننے سے انکار کیا کہ کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے وہ اپنے بولنگ ایکشن کے سبب سب کی نظروں میں آ گئے تھے، مائیکل وان اور اسٹورٹ براڈ کی ٹویٹس نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔
سعید اجمل نے کہا کہ وان اور براڈ کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ کرکٹر ہوتے ہوئے ایک کھلاڑی کیخلاف اس طرح کی طنزیہ بات کہتے، میں چاہتا تو ان ٹویٹس کا جواب دے سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے کیریئر میں ہر بڑے کرکٹر کو آؤٹ کیا، ان میں انگلینڈ کے کیون پیٹرسن ایسے بیٹسمین تھے جو میرے ہاتھوں آؤٹ ہونے پر خود پر غصہ ہوتے تھے، اگر میں برائن لارا کیخلاف کھیلتا تو وہ میری سب سے یادگار وکٹ ہوتی کیونکہ لارا میرے پسندیدہ ترین بیٹسمین اوراسپن بولنگ کو بہت اچھا کھیلتے تھے۔
انٹرنیشنل کرکٹ کے تینوں فارمیٹس میں 447 وکٹیں حاصل کرنے والے سعید اجمل نے بی بی سی کو انٹرویو میں کہا کہ میں اپنے کریئر سے مطمئن اور مجھے خوشی ہے کہ میری کارکردگی ملک کے کام آئی، میں نے بہت کم عرصے میں جو اعزازات حاصل کیے وہ کوئی دوسرا کرکٹر 20 سال کھیل کر حاصل کرتا، البتہ مجھے اس بات پر ہمیشہ دکھ رہے گا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا کوئی بھی اعلیٰ افسر مجھے الوداع کہنے کیلیے موجود نہ تھا، چیئرمین نجم سیٹھی نے بھی جو پیغام بھیجا وہ صرف ٹویٹ پر مبنی تھا،کسی نے فون کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی، بورڈ ہرکسی کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتا ہے تو میں کیا شکوہ کروں؟
سعید اجمل نے سابقہ موقف پھر دہراتے ہوئے کہا کہ مشکوک بولنگ ایکشن سے متعلق آئی سی سی کا قانون صرف پاکستان کیلیے ہے، میں بنگلہ دیش، ویسٹ انڈیز اور بھارت کے کئی ایسے بولرز کے نام انگلیوں پرگنوا سکتا ہوں جو 15 ڈگری سے زیادہ بولنگ کرتے ہیں لیکن کونسل نے کبھی انھیں رپورٹ نہیں کیا۔
اسپنر نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہونے کی وجہ سے بورڈ کو آئی سی سی کی ضرورت ہے، اسی لیے وہ خاموش بیٹھا ہے لیکن اگر وہ اسی طرح آنکھیں بند اور کان میں روئی ڈال کر بیٹھا رہا تو پاکستانی بولرز مشکوک بولنگ ایکشن کے قانون کی زد میں آتے رہیں گے، یہ قانون جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کے مترادف ہے، انھوں نے یہ ماننے سے انکار کیا کہ کاؤنٹی کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے وہ اپنے بولنگ ایکشن کے سبب سب کی نظروں میں آ گئے تھے، مائیکل وان اور اسٹورٹ براڈ کی ٹویٹس نے جلتی پر تیل کا کام کیا تھا۔
سعید اجمل نے کہا کہ وان اور براڈ کو یہ زیب نہیں دیتا تھا کہ وہ کرکٹر ہوتے ہوئے ایک کھلاڑی کیخلاف اس طرح کی طنزیہ بات کہتے، میں چاہتا تو ان ٹویٹس کا جواب دے سکتا تھا لیکن ایسا نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے کیریئر میں ہر بڑے کرکٹر کو آؤٹ کیا، ان میں انگلینڈ کے کیون پیٹرسن ایسے بیٹسمین تھے جو میرے ہاتھوں آؤٹ ہونے پر خود پر غصہ ہوتے تھے، اگر میں برائن لارا کیخلاف کھیلتا تو وہ میری سب سے یادگار وکٹ ہوتی کیونکہ لارا میرے پسندیدہ ترین بیٹسمین اوراسپن بولنگ کو بہت اچھا کھیلتے تھے۔