ملک میں اقتصادی اشاریے کمزور بیرونی قرضوں کی صورتحال دگرگوں
وزارت خزانہ نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں بہت ساری چیزوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، رپورٹ
گزشتہ مالی سال میں پاکستان میں قرضوں کے استحکام کے حوالے سے سوائے 2 کو چھوڑ کر تمام اقتصادی اشاریے کمزور ہوتے دکھائی دیے ہیں۔
قرضوں کے حوالے سے پیدا ہونے والی یہ کمزور ترین شرح پاکستان مسلم لیگ ن کی 3سال اور 8 ماہ کی حکومت کے دور میں سب سے کم ہے۔ اس بات کا انکشاف وزارت خزانہ کی جانب سے جون 2017 کی پبلک ڈیبٹ منیجمنٹ رسک رپورٹ میں کیا گیا جو متعلقہ حلقوں کے پُرزور مطالبے اور رپورٹ عام کرنے کے دباؤ کے بعد جاری کی گئی ہے۔
رپورٹ میں رواں سال جون تک کے قرضوں کو شامل کیا گیا ہے جب جب حکومت کی جانب سے لیے گئے قرضوں کا حجم 21.4 ٹریلین (کھرب ) روپے تک پہنچ گیا ہے جو مجموعی قومی آمدنی کا 67.2 فیصد بنتا ہے۔
اس صورتحال پر سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ انھوں نے قومی معیشت اور عوام کو قرضوں کے انتہائی بڑے جال میں پھنسادیا ہے۔وزارت خزانہ نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں بہت ساری چیزوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں سے قلیل مدتی غیر ملکی قرضوں کو، جنھیں بطور نیٹ انٹرنیشنل ریزروز (NIR) کہا جاتا ہے ، شامل نہیں کیا گیا۔این آئی آر مجموعی غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور اس سے متعلق liabilitiesکا فرق واضح کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جون 2016 تک قلیل مدتی غیر ملکی قرضوں کی بطور این آئی آر شرح 76.5فیصد تھی لیکن رپورٹ میں اس کی تازہ ترین صورتحال کے اعدادوشمار شامل نہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ حکومت یہ اعدادوشمار ظاہر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور اس نے جان بوجھ کر رپورٹ کو مبہم رکھا۔ جون 2016 میں جب اسٹیٹ بینک کے پاس مجوعی سرکاری طور پر ذخائر 18.2 بلین ڈالر تھے تو نیٹ ذخائر کا حجم صرف 7.5 بلین ڈالر تھا۔ اسٹیٹ بینک نے دسمبر 2016 میں بھی اپنی رپورٹ میں نیٹ انٹرنیشنل ریزروز کے حوالے سے نہیں بتایا۔
قرضوں کے حوالے سے پیدا ہونے والی یہ کمزور ترین شرح پاکستان مسلم لیگ ن کی 3سال اور 8 ماہ کی حکومت کے دور میں سب سے کم ہے۔ اس بات کا انکشاف وزارت خزانہ کی جانب سے جون 2017 کی پبلک ڈیبٹ منیجمنٹ رسک رپورٹ میں کیا گیا جو متعلقہ حلقوں کے پُرزور مطالبے اور رپورٹ عام کرنے کے دباؤ کے بعد جاری کی گئی ہے۔
رپورٹ میں رواں سال جون تک کے قرضوں کو شامل کیا گیا ہے جب جب حکومت کی جانب سے لیے گئے قرضوں کا حجم 21.4 ٹریلین (کھرب ) روپے تک پہنچ گیا ہے جو مجموعی قومی آمدنی کا 67.2 فیصد بنتا ہے۔
اس صورتحال پر سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ انھوں نے قومی معیشت اور عوام کو قرضوں کے انتہائی بڑے جال میں پھنسادیا ہے۔وزارت خزانہ نے جو رپورٹ شائع کی ہے اس میں بہت ساری چیزوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں سے قلیل مدتی غیر ملکی قرضوں کو، جنھیں بطور نیٹ انٹرنیشنل ریزروز (NIR) کہا جاتا ہے ، شامل نہیں کیا گیا۔این آئی آر مجموعی غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر اور اس سے متعلق liabilitiesکا فرق واضح کرتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جون 2016 تک قلیل مدتی غیر ملکی قرضوں کی بطور این آئی آر شرح 76.5فیصد تھی لیکن رپورٹ میں اس کی تازہ ترین صورتحال کے اعدادوشمار شامل نہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ حکومت یہ اعدادوشمار ظاہر کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی اور اس نے جان بوجھ کر رپورٹ کو مبہم رکھا۔ جون 2016 میں جب اسٹیٹ بینک کے پاس مجوعی سرکاری طور پر ذخائر 18.2 بلین ڈالر تھے تو نیٹ ذخائر کا حجم صرف 7.5 بلین ڈالر تھا۔ اسٹیٹ بینک نے دسمبر 2016 میں بھی اپنی رپورٹ میں نیٹ انٹرنیشنل ریزروز کے حوالے سے نہیں بتایا۔