مردم شماری میں معذور نظرانداز ہوئے ایکسپریس فورم

معذوروں کا کوٹا یقینی بنا رہے ہیں، چوہدری شفیق، اضافی اسامیاں نکلوائیں، ہارون رفیق


معذوری سرٹیفکیٹ کا حصول آسان بنایا جائے، سعید اقبال مرزا۔ فوٹو: ایکسپریس

حکومت اور خصوصی افراد کے نمائندوں نے ''معذوروں کے عالمی دن'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مردم شماری میں معذور افراد کو نظر انداز کیا گیا جس کے باعث ہمارے پاس ان کی تعداد کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے، خصوصی افرادکیلیے قائم اداروں میں صرف 10فیصد معذور افراد کو سہولتیں مل رہی ہیں لہٰذا باقی کے 90 فیصد افراد کیلیے علیحدہ ڈائریکٹوریٹ بنایا جائے، گزشتہ 3 برسوں میں خصوصی افراد کے حوالے سے جتنا کام ہوا ہے ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی،50 ہزار کے قریب معذور طلبہ تعلیمی اداروں میں داخل جبکہ ہزاروں اساتذہ کی ٹریننگ ہو چکی ہے، حکومت خصوصی افراد کے لیے مختص کوٹا پر عملدرآمد یقینی بنا رہی ہے۔

وزیر برائے اسپیشل ایجوکیشن پنجاب چوہدری محمد شفیق نے کہا کہ موجودہ حکومت نے خصوصی افراد کیلیے قائم اداروں کو اپ گریڈ کیا، معذوری کے سرٹیفکیٹ کے حوالے سے محکمے کی جانب سے ایسی کوئی ہدایات جاری نہیں کی گئیں کہ معذور افراد سے تمام ڈیٹا اکٹھا کیا جائے، اگر ایک شخص ٹانگ سے معذور ہے اور ڈاکٹر کو نظر بھی آ رہا ہے تو یہ اس ڈاکٹر کی ذمے داری ہے، اس شخص کو تنگ کرنے کے بجائے سرٹیفکیٹ بنا کر دے لہٰذا یہ حکومتی نہیں بلکہ معاشرتی کمزوری ہے، خصوصی افراد کے حوالے سے اسپتال کیلیے میں جلد وزیراعلیٰ پنجاب سے ملاقات کروں گا، خصوصی افراد کا یہ اعتراض جائز ہے کہ ان کیلیے مختص کوٹے پر عملدرآمد نہیں ہو سکا تاہم ہم اسے یقینی بنانے کیلیے کوشاں ہیں اور اس میں بہتری بھی آئی ہے، پبلک مقامات پر ریمپ بنانے کی ہدایت کی ہے، ہم خصوصی بچوں کی تعلیم، صحت و ٹرانسپورٹ پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، 3 برسوں میں تعلیمی اداروں میں طلبہ کی تعداد 50ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے جو پہلے 15ہزار کے قریب تھی۔

سیکریٹری سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ ہارون رفیق نے کہا کہ ملازمتوں میں معذور افراد کا کوٹا 2 فیصد سے بڑھا کر 3 فیصد کیا گیا، اسکیل1 سے لے کر 4 تک، ہم نے خصوصی افراد کیلیے مختص 4 ہزار سے زائد خالی اسامیوں کی نشاندہی کی جن پر اب تک3 ہزار 988 لوگوں کو ملازمت مل چکی ہے، بینائی سے محروم افراد کو ان کے کوٹے سے بھی زیادہ ملازمتیں دی گئی ہیں، مجموعی طور پر 1500سے زائد نابینا افراد پنجاب حکومت کے پے رول پر ہیں، اتنی تعداد کسی دوسرے صوبے میں نہیں ہے، ڈسٹرکٹ سطح پر معذور افراد کیلیے خصوصی ڈپارٹمنٹ بنائے جا رہے ہیں جو''ون ونڈو آپریشن'' کے تحت کام کریں گے، اس منصوبے کی کل لاگت 1 ارب روپے ہے جو 2سے 3 برسوں میں خرچ کی جائے گی جبکہ اس سال کا بجٹ 40کروڑ روپے ہے، محکمے نے اس منصوبے کے تحت خصوصی افراد کیلیے اضافی اسامیاں بھی نکلوائی ہیں جو اسکیل11میں ہوں گی، اسکیل 5 سے 15 تک کی ملازمتوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کر لیا گیا ہے لہٰذا 2 ہزار کے قریب مزید ملازمتوں کی آئندہ چند ماہ میں تشہیر کی جائے گی۔

ڈائریکٹر اسپیشل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ محمد فاضل چیمہ نے کہا کہ 2003 میں پنجاب میں اس حوالے سے علیحدہ ڈپارٹمنٹ بنایا گیا، اس وقت پنجاب میں معذوروں کی بحالی کیلیے صرف 49 ادارے تھے جن میں 4600 طلبہ داخل تھے جبکہ آج 273 تعلیمی ادارے ہیں جن میں 30 ہزار 800 کے قریب طلبہ داخل ہیں، اسپیشل ایجوکیشن پر توجہ دے رہے ہیں، حکومت نے inclusive education کا پروگرام متعارف کرایا ہے، اس کا پائلٹ پروجیکٹ مظفر گڑھ اور بہاولپور میں شروع کیا گیا، ان دونوں اضلاع میں7 ہزار معذور بچوں میں سے960 بچوں کو جنرل ایجوکیشن کے اسکولوں میں داخل کرایا گیا،14ہزار 800 اساتذہ کو ٹریننگ کرائی گئی، قانون میں شامل ہے کہ جو بھی عمارت بنے گی اس میں معذوروں کیلیے رسائی کو مدنظر رکھا جائے گا۔

بگ برادر ڈاکٹر خالد جمیل نے کہا کہ ملک میں عرصہ دراز کے بعد مردم شماری ہوئی مگر بدقسمتی سے اس میں خصوصی افراد کو نظرانداز کردیا گیا، عالمی ادارہ صحت کے مطابق دمے کا مریض بھی معذور افراد میں شامل ہوتا ہے، اس ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق 2کروڑ لوگوں کو معذور کہہ دینا درست نہیں تھا، سیمپل سروے کے مطابق تقریباََ 5 فیصد افراد معذور ہیں جن میں بہرے و گونگے، اندھے، جسمانی طور پر معذور اور جن کا ذہنی توازن درست نہیں شامل ہیں جبکہ بونے قد والے، ٹیرھی کمر یا ٹیرھی ہڈیوں والے افراد کے حوالے سے ابھی تک کوئی قانون موجود نہیں ہے، خصوصی افراد کیلیے اسپتال نہیں بن سکا، معذور افراد کے لیے مختص کوٹا پر فیکٹری مالکان انھیں ملازمت دینے کے بجائے حکومت کو جرمانہ ادا کردیتے ہیں، سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ معذور افراد کو وہیل چیئر نہیں دیتا، مفت ٹانگ لگوانے یا علاج کیلیے میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوانے والوں کو بھی مشکلات درپیش ہوتی ہیں لہٰذا اس نظام کو ''ون ونڈو'' کیا جائے، پاکستان میں پیدائش کے بعد عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ معذور افراد کی شرح بڑھ رہی ہے جبکہ دنیا میں کم ہو رہی ہے۔

اسپیشل پرسنز شکایت سیل اسلام آباد کے چیف ایگزیکٹو لالہ جی سعید اقبال مرزا نے کہا کہ معذور وں کا عالمی دن صرف تقریبات اور میڈیا کی حد تک رہ گیا ہے، خدمت کارڈ کے ذریعے مالی امداد بھیک کی دوسری شکل ہے، حکومت معذور افراد کیلیے مختص کوٹے پر عملدرآمد یقینی بنائے، جو بستر سے نہیں اٹھ سکتے، ان کے لیے کم از کم 6 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جائے، معذور افراد کو معذوری کا سرٹیفکیٹ بنوانے کیلیے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ طریقہ کار آسان بنایا جائے، این ٹی ایس کی شرط معذور افراد کیلیے نہیں ہونی چاہیے، گجرات میں ہمارے پاس جگہ موجود ہے، میری وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ وہاں خصوصی افراد کیلیے ٹیکنیکل ایجوکیشن کا ادارہ بنا دیں، اسپیشل پرسنز کی کمیٹیوں میں خصوصی افراد کو بھی شامل کیا جائے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں