سرِ بازار می رقصم…

بے لگام مہنگائی کے علاوہ لوڈشیڈنگ اور پینے کے پانی کی قلت نے عوام کے غصے کو اشتعال اور نفرت میں بدل دیا ہے۔


Zaheer Akhter Bedari August 06, 2012
[email protected]

''انتخابات اور جمہوریت ہی ہمارے مسائل کا واحد حل ہے'' اس تھیوری کے بارے میں ہم مسلسل باآوازِ بلند عوام کو بتارہے ہیں کہ تم اگر جاگیردار، قبائلی وڈیرے اور سرمایہ دار ایک بار پھر برسراقتدار آگئے تو پانچ سال کی مزید خواری تو تمہارا مقدر ہوگی ہی لیکن ان پانچ برسوں میں عوام کے غیظ و غضب سے آشنا مقتدر طبقہ جمہوری نظام کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کا فن زیادہ بہتر طریقے سے جان جائے گا۔

یہ طبقہ ایک طرف عوام کو کچھ ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کرے گا تو دوسری جانب عوام کی اجتماعی طاقت کو توڑنے کے لیے انھیں مزید تقسیم در تقسیم کی طرف دھکیلے گا۔ لیکن ہمارے خوش فہم عوام اور خواص کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ اب تک دل فریب نعروںکے شکنجے سے باہر آنے کے لیے تیار نہیں۔

اس حوالے سے ہمارے بعض مخلص اہلِ قلم اس حقیقت کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ جس لولی لنگڑی جمہوریت کے بطن سے وہ اصلی جمہوریت کے تولد ہونے کی امید کرتے رہے ہیں، ان کی یہ امید ایک سراب سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔

ہماری جمہوریت سے پرامیدی کی ایک بڑی وجہ سیاست میں 15 سال پرانے لیکن نئے چہرے عمران خان بنے ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے دو جواز پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان کے سیاسی چہرے پر کرپشن کا کوئی داغ نہیں،دوسرے یہ کہ چونکہ عمران خان کو حکومت کرنے کا اب تک کوئی موقع نہیں ملا، لہٰذا اس بار عمران خان کو آزمانے میں کیا حرج ہے؟ بلاشبہ عمران خان کے سیاسی چہرے پر کرپشن کا کوئی داغ نظر نہیں آتا تھا، لیکن ہم عمران خان سے تین وجوہات کی بنیاد پر مایوس ہیں۔

اگرچہ عمران خان کوئی جاگیردار یا بڑا صنعت کار نہیں لیکن اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصّہ چونکہ ایلیٹ کی صحبت ہی میں گزارا ہے، لہٰذا اس میں ایلیٹ کی خصوصیات در آئی ہیں جس کی ایک مثال ان کا وسیع وعریص ''غریب خانہ '' ہے۔ دوسری وجہ مختلف پارٹیوں سے عمران خان کی پارٹی میں آنے والی وہ اشرافیہ ہے جو عملاً تحریکِ انصاف پر چھائی ہوئی ہے اور عمران خان صرف اس حوالے سے ان اوتاروں کی راہ میں آنکھیں بچھا رہے ہیں کہ ان میں ''انتخابات جیتنے کی صلاحیت'' موجود ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان ماڈرن بلکہ الٹرا ماڈرن زندگی گزارنے کے باوجود ابھی تک قبائلی ذہنیت سے باہر نہ نکل سکے۔ کبھی وہ منصورہ کی طرف دوڑ لگاتے ہیں تو کبھی وہ ڈرون حملوں کے خلاف دھرنے دیتے نظر آتے ہیں، بلاشبہ ڈرون حملے ہماری ملکی سالمیت اور خودمختاری کے خلاف ہیں اور یہ حملے بند ہونے چاہییں، لیکن ہم حیرت سے یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ بارودی گاڑیوں، خودکش حملوں میں ڈرون حملوں سے کئی گنا زیادہ مارے جانے والے بے گناہ انسانوں کے بارے میں عمران دو بول بولنے کے لیے تیار نہیں۔

ایسا کیوں؟ عمران خان نے جب پارٹی تشکیل دینی شروع کی تو انھوں نے ایسے سیاست دانوں کو اپنے ساتھ لینے کی کوشش کی جن کی سیاسی زندگی انقلابی جدوجہد سے عبارت تھی۔ ان ہی میں ہمارے رفیق محترم معراج محمد خان بھی شامل تھے۔ معراج محمد خان اپنی پارٹی اور اپنے دوست احباب کے ساتھ تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے۔

ان کی تحریکِ انصاف میں شمولیت سے پہلے ہم اور ہمارے کچھ سینئر سیاسی دوستوں نے بار بار بھائی معراج کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ کو وہاں مایوسی کے سوا کچھ نہ ملے گا، لیکن معراج محمد خان اس بات پر اصرار کرتے رہے کہ یہاں کم از کم ہزاروں لاکھوں کے مجمعے ہمیں ملیں گے، جن تک ہم اپنی بات پہنچاسکیں گے۔

بہرحال معراج محمد خان اسی مایوسی کے ساتھ واپس لوٹے جس مایوسی کے ساتھ وہ بھٹو پارٹی سے لوٹے تھے۔ دونوں جگہوں پر ایلیٹ اور موقع پرستوں نے انھیں پیچھے دھکیل دیا تھا۔ ایمان دار لوگوں کی یہ ناکامی ان سیاسی پارٹیوں کی آمرانہ قیادت کا لازمی نتیجہ تھی۔ پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے عوام سخت مشتعل ہیں۔

بے لگام مہنگائی کے علاوہ لوڈشیڈنگ اور پینے کے پانی کی قلت نے عوام کے غصے کو اشتعال اور نفرت میں بدل دیا ہے۔ عوام کی اس ناراضی کو انتخابات کے ذریعے کیش کرانے کی دوڑ میں شامل سیاسی اداکاروں اور پارٹیوں میں سب سے بڑا مقابلہ میاں صاحبان اور عمران خان کے درمیان ہورہا ہے۔ اور اس مقابلے کا اصل میدان پنجاب اور اس مقابلے کا اصل مقصد پنجاب پر سیاسی بالادستی یا قبضہ ہے۔

میاں صاحبان کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر پنجاب پر ان کا قبضہ برقرار نہ رہا تو ان کے ہاتھ سے جمہوریت اور 63 فیصد عوام نکل جائیں گے۔ لہٰذا پنجاب پر اپنی بادشاہی برقرار رکھنے کے لیے سیاسی دنگل میں ڈنڈ بیٹھک لگارہے ہیں۔ عمران خان بھی اس حقیقت سے پوری طرح واقف ہیں کہ اقتدار کی منزل کا راستہ پنجاب سے ہو کر گزرتا ہے۔ عوام کے نام پر لڑی جانے والی اس جنگ میں عمران خان ایک بڑی غلطی یہ کر بیٹھے کہ یہ جنگ منشور کے حوالے سے لڑنے کے بجائے تند و تیز لہجے میں زرداری اور میاں برادران پر الزام تراشیوں سے لڑنے لگے۔

اور ان کے تیروں کا زیادہ رخ میاں برادران کی طرف اس لیے تھا کہ پنجاب میں ان کی برتری کو ختم کرنے کا طریقہ انھیں یہی نظر آرہا تھا۔ نوجوانوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے پنجاب حکومت نے لیپ ٹاپ کی تقسیم شروع کی اور میاں شہباز شریف نے مینارِ پاکستان پر اپنا کیمپ آفس کھول کر یہ باور کرانے کی کوشش شروع کی کہ وہ حکمران ہونے کے باوجود عوام کے ساتھ دریوں پر بیٹھ رہے ہیں۔ ادھر عمران خان اپنے سونامی جلسوں کے ساتھ نواز برادران کو پچھاڑنے کی کوشش کرنے لگے۔

ن لیگ والے اس کوشش میں تھے کہ عمران خان کی کوئی کمزوری کسی طرح ان کے ہاتھ آجائے۔ ن لیگ اپنی اس کوشش میں کامیاب نظر آرہی ہے، انھوں نے میڈیا میں عمران خان پر شوکت خانم اسپتال کے حوالے سے الزامات عائد کیے ہیں۔

یوں آنے والے ممکنہ انتخابات میں عوام کی یہ خواہش دم توڑتی نظر آرہی ہے کہ عمران پر کرپشن کا کوئی الزام نہیںہے اور عمران اب تک حکومت سے باہر رہا ہے، لہٰذا اسے آزمانا چاہیے۔ اب چونکہ جاگیردارانہ جمہوریت کے تمام کردار عوام کے سامنے آگئے ہیں۔ اب عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے۔ فیوڈل سیاست اور جمہوریت ''سرِ بازار می رقصم'' کے مقام پر کھڑی ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں