بچوں پر بے جا پابندیاں ان کی شخصیت پر منفی اثر کا سبب

ایسے بچوں کی نشوونما بہتر طور پر نہیں ہوپاتی، 5 برس کا ہونے تک وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں

ایسے بچوں کی نشوونما بہتر طور پر نہیں ہوپاتی، 5 برس کا ہونے تک وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں، فوٹو : فائل

بچو ں کی تربیت والدین سے احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ ان کی عمر کے ابتدائی چند برس ہی ہوتے ہیں جو ان کی شخصیت اور تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

بعض والدین خوف کی وجہ سے بچوں کو اپنے زیر اثر اس انداز سے رکھتے ہیں جیسے چابی سے چلنے والے کھلونے، اس انداز سے پرورش پانے والے بچے زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزارتے ہیں اور اپنے والدین خاص کر ماؤں پر زیادہ انحصار کرنے لگتے ہیں، یوں ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما بہتر طور پر نہیں ہوپاتی، شاید یہی وجہ ہے کہ پانچ سال کی عمر ہونے تک بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں کیوںکہ گھر کے اندر زیادہ وقت گزارنے سے وہ معاشرے سے بالکل کٹ کر رہ جاتے ہیں اور تنہائی کے عادی ہونے لگتے ہیں۔

ٹریفک وغیرہ کے خوف کے اثر سے بچوں کی حفاظت میں بے انتہا احتیاط ایک حد تک کار آمد ہوتی ہے کیوں کہ بچہ فطرتاً معصوم ہوتا ہے اور وہ اپنی حفاظت خود نہیں کرسکتا اس لیے زیادہ تر وقت انھیں والدین کی نگرانی میں گزارنا چاہیے۔ اس طرح ان کے درمیان ایک مضبوط رشتہ استوار ہوجاتا ہے مگر دوسری طرف جب یہ بچے گھر کے ماحول سے نکل کر اسکول میں یا معاشرے میں جاتے ہیں تو دوسرے بچوں میں گھل مل نہیں سکتے اور نہ ہی اسکول کی سرگرمیوں میں بہتر طور پر حصہ لے سکتے ہیں۔ اسی لیے یہ بچے دوسرے بچوں کی نسبت کند ذہن، ناخوش اور سست روی کا شکار ہوجاتے ہیں اور بالآخر احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔

اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی پرورش اس انداز پر نہیں ہوپاتی جس طرح ہونی چاہیے تھی۔ بچے چوںکہ اپنے ہم عمروں میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھ لیتے ہیں لہٰذا ان کے رویے میں تبدیلی واقع ہوتی ہے اور وہ غیر رسمی طور پر معاشرے سے آہستہ آہستہ ہم آہنگ ہوجاتے ہیں۔ مثبت اور روایتی تربیتی ماحول میں پروان چڑھنے والے بچے معاشرے اور دوسرے بچوں سے اپنا رشتہ با آسانی قائم کرلیتے ہیں۔ اپنی دل چسپیوں میں دوسرے بچوں کو شریک کرلیتے ہیں جب کہ والدین کی حد سے زیادہ احتیاط کے خول میں مقید بچے ان سرگرمیوں سے محروم رہتے ہیں جس سے ان کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔


ایک برطانوی ماہر نفسیات کے مطابق اگر بچوں پر بہت زیادہ پابندی لگائی جائے تو ان کے رویے میں جارحیت پیدا ہوجاتی ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جب بچے گھر سے باہر قدم رکھتے ہیں تو اپنی صلاحیتوں کا اظہار دوسرے بچوں کی طرح نہیں کرپاتے، اسی لیے وہ احساس کمتری کا شکار نظر آتے ہیں۔ بچے گھر سے باہر دوسرے بچوں کے ساتھ بہت سی باتیں سیکھتے ہیں، مثلاً دوسرے کا احترام کس طرح کیا جاتا ہے ان کے ساتھ کس طرح رہا جاتا ہے اور اگر بچے گھر میں بھی زیادہ وقت گزاریں تو وہ معاشرے کے تقاضوں کو نہیں سیکھ سکتے۔

بچوں کی نقل و حرکت پر بہت زیادہ اثر انداز ہونے سے والدین اور خاص کر ماں پر بچوں کی ذمے داری بڑھ جاتی ہے اور وہ ان کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں اس کے علاوہ بچوں کا رابطہ بہت سے دوسرے لوگوں سے کٹ جاتا ہے کیوںکہ ان کی پرورش معاشرتی ماحول سے ہٹ کر کی جاتی ہے۔ بچوں کو بے جا پابندیوں میں رکھنا والدین اور بچوں دونوں ہی پر منفی اثر مرتب کرتا ہے۔

اس عمل سے بچوں کے ساتھ ساتھ والدین بھی ذہنی دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ والدین پر کام کا بوجھ بڑھ جاتا ہے جیسے گھر سے باہر بچوں کے ساتھ جانا، ان پر نظر رکھنا، اس انداز سے نہ صرف بچے اپنی سرگرمیاں آزادی سے جاری نہیں رکھ پاتے بلکہ ان میں اعتماد بھی ختم ہوجاتا ہے اور وہ مکمل طور پر صرف والدین پر انحصار کرنے لگتے ہیں۔

اس تمام صورت حال کے پیش نظر والدین کے ذہنوں میں جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر بچوں کے ساتھ کس قسم کا رویہ اختیا کیا جائے؟ جو والدین اپنے بچوں کو محلے میں کھیلنے کے لیے نہیں بھیجنا چاہتے ان کے لیے بہتر ہے کہ اپنے ہمسائے میں کسی ایسے گھر سے تعلقات استوار کریں جہاں ان کے بچوں کے ہم عمر بچے موجود ہوں اور اہل خانہ باتہذیب، شائستہ اور سمجھ دار ہوں۔

والدین کے لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اسکول میں ان کے بچے کے دوست کون ہیں، کہاں رہتے ہیں اور ان کے والدین کیا کرتے ہیں۔ ایک بار آپ اپنے بچے کے دوستوں کے والدین سے ضرور ملیں تاکہ اگر کبھی وہ بچہ آپ کے بچے کو اپنے گھر کسی تقریب میں بلائے تو آپ کو فیصلہ کرنے میں مشکل پیش نہ آئے۔ ان اقدامات کی بدولت نہ صرف بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما بہتر ہوگی بلکہ ان کا اعتماد بھی بحال ہوسکے گا۔
Load Next Story