میں بس اک دیوار
۔ اخبارات کے ادارتی صفحات پر آج کالم کی جگہ View on News کی بنیاد پر اظہاریے اور تجزیاتی مضامین شایع ہوتے ہیں
سوال یہ ہے کہ یہ کیسے تسلیم کرلیا جائے کہ علم و ادب کا دائرہ محدود ہورہا ہے؟ علمی و ادبی تخلیق کے سوتے سوکھ رہے ہیں؟ علم و ادب کی زمین بنجر ہورہی ہے؟ شاعری دم توڑ رہی ہے؟ اور اس کا دور ختم ہورہا ہے؟ کیونکہ شاعری تو انسان کے نرم و گداز احساسات کا اظہار اور ان کی ترجمان ہوتی ہے۔ ہاں زمانہ میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ اور فیضؔ کے دور سے آگے نکل گیا ہے۔ غم عشق ہو کہ غم روزگار، آج کے شاعر اور ادیب کا اپنا انداز، اپنا اسلوب اور اپنا لہجہ ہے۔ اس لیے بات میرؔ و غالبؔ کے اسلوب، اقبال کی طرز فغان اور فیضؔ کے لہجہ سے آگے بڑھ چکی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ غزل کی ہمہ گیریت اور چاشنی آج بھی دلوں کو گدگداتی ہے۔ نظم کی موضوعیت ذہن کے گوشوں کو کھول رہی ہے۔ مگر بات اب آگے جارہی ہے۔ شاعری کی کئی نئی اصناف متعارف ہوچکی ہیں، کچھ متعارف ہورہی ہیں۔ جس طرح ماضی میں غزل فارسی سے، قصیدہ عربی سے اور نظم ترکی سے آئی۔ انگریزی میں رزمیہ(Epic) اور مرثیہ (Elegy) دو الگ اصناف تھیں۔ اردو کے دو بڑے شعرا میر انیسؔ اور میر دبیرؔ نے ان دونوں اصناف کو اپنی شاعری میں ایک ساتھ برت کر مرثیہ نگاری کو ایک نئی جہت عطا کی۔ نثری نظم کا تصور بھی مغرب سے آیا۔ ہائیکو جاپانی شاعری کی صنف ہے۔ یوں بات شاعری کی خوبصورت صنف گیت اور گیتا اور رامائن کی طرز تحریر سے آگے جاچکی ہے اور اس کا دامن وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے۔
یہی کچھ معاملہ نثر کے ساتھ ہے۔ مغربی ادب کے متعارف ہونے کے بعد ہم داستان نویسی سے آگے نکل کر ناول اور افسانوی ادب کی جانب بڑھے ہیں۔ برصغیر کی زبانوں میں معرکہ آرا ناول اور افسانے لکھے گئے اور لکھے جارہے ہیں۔ تنقید بھی نئے انداز سے آگے بڑھ رہی ہے۔ صحافت ماضی کی روایتی بندشوں سے آگے بڑھ چکی ہے۔ روایتی کالم نگاری کا دور اب قصہ پارینہ ہوا۔ اخبارات کے ادارتی صفحات پر آج کالم کی جگہ View on News کی بنیاد پر اظہاریے اور تجزیاتی مضامین شایع ہوتے ہیں۔ جن میں افسانوی انداز میں اشاریوں کنایوں کے بجائے کھل کر بات کرنے کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔ کیونکہ اپنی بات کو بین السطور بیان کرنے کا چلن وقت کے ساتھ ختم ہوتا جارہا ہے۔ یہ تمام تبدیلیاں شاعری پر اثرانداز ہورہی ہیں۔
یہ طویل بحث ہے، جو ایک الگ اظہاریہ کی متقاضی ہے۔ اس لیے اس سے صرف نظر کرتے ہوئے سامنے رکھے شعری مجموعہ ''میں بس اک دیوار'' پر بات کرتے ہیں۔ جو معروف صحافی اور ابھرتے ہوئے شاعر محمد عثمان جامعی کے ذہن رسا کی تخلیق ہے۔ شاعری اور صحافت دونوں ذریعہ اظہار ہیں۔ لیکن دونوں ہی جنونیت کے متقاضی ہوتے ہیں۔ معلوم نہیں عثمان کا پہلا جنون شاعری ہے یا صحافت۔ لیکن یہ طے ہے کہ جو بات صحافت کے ذریعے نہیں کہی جاسکتی، اس کا اظہار شاعری میں باآسانی ممکن ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ عثمان نے اپنے سلگتے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کے لیے شاعری کو ذریعہ بنایا ہے۔
عثمان کی شاعری کے بارے میں نئی نسل کے ابھرتے ہوئے قلمکار اور دانشور اقبال خورشید کہتے ہیں کہ ''عثمان جامعی آج کا شاعر ہے۔ آج کا شاعر جس نے اپنا ماضی کھونے نہیں دیا۔ جب وہ اپنی خواہش، احساس، خواب اور آشاؤں کو ایک تھیلے میں ٹھونسے پھینکنے نکلتا ہے، تو ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ دشت و صحرا، گگن، سمندر کہیں جگہ نہ پائے۔ عاجر آکر لوٹ آئے اور ایک دل سوز نظم کہے''۔ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ''ہاں، اس کی شاعری میں تلخی تیرتی محسوس ہوتی ہے کہ آس پاس کرب ہے، گریہ ہے۔ پھر وہ ایک صحافی بھی تو ہے، مگر اس کی دھن وحشت، بربریت اور شور سے آلودہ ہونے کے بجائے اپنا حسن برقرار رکھتی ہے کہ اس کا دل ایک شاعر کا دل ہے۔ وہ اپنے مشاہدے اور تجربہ کو خبر نہیں بننے دیتا۔ حالات سے شاکی ضرور ہے، مگر اس کی شاعری شکوہ نہیں، سچ بیان کرنے کی ستھری، نکھری ادبی کاوش ہے''۔
اس مجموعے کا انتساب ایک حمد ہے، جو طویل نظم کی صورت ہے۔ اس کے نام، ''جو اول آخر، ظاہر باطن، اعلیٰ ہے۔ میرا ہر اک قدم تھا لغزش، اس نے مجھے سنبھالا ہے۔ کوئی نہیں، بس اک وہی رکھوالا تھا، رکھوالا ہے۔ میں نے بلایا طوفانوں کو، اس نے بڑھ کر ٹالا ہے۔ اس کے ہر اکرام کے نام''۔ اس نظم کے ابتدا میں لکھتا ہے کہ ''اب تک جو تحریر ہوئے ہیں، دل پر، ان آلام کے نام۔ جو روح کو چیر کے گزرے، ان تیکھے ایام کے نام''۔
مجموعے کا آغاز نعت رسول مقبول سے ہوتا ہے، جس کا پہلا شعر ہے، ''ان کے ہونے کا زمانہ ہوتا، اور میں زیر قدم خاک کا ذرہ ہوتا''۔ آگے چل کر لکھتا ہے کہ ''کاش بارش کا میں قطرہ ہوتا، ایک پل آپ کے نعلین پہ ٹھہرا ہوتا، بدر و احد میں گرا خون کا قطرہ ہوتا، آپ نے ایک نظر مجھ کو بھی دیکھا ہوتا''۔ اس نعت کا آخری شعر ہے کہ ''یہ جو ہوجاتا تو کیسا میرا رتبہ ہوتا، کوئی ہستی مری ہوتی، مرا ہونا ہوتا''۔ اگلی نعت آزاد نظم کی صورت ہے۔ رحمت عالم، مشفق اعظم، کرم مجسم۔ ان دونوں نعتوں میں اس کے وجود کا ذرہ ذرہ مستی وسرشاری میں ڈوبا اور روح گنگناتی نظر آتی ہے۔
عثمان کی خوبی یہ ہے کہ وہ جدید دور کا انسان ہے۔ جسے آج کی دنیا کی بے حسی اور انسان کی بے بسی کا پورا ادراک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے قلب و ذہن پر اپنے اطراف پھیلے مسائل و مصائب کا گہرا اثر ہے، جو اس کی شاعری میں جابجا نظر آتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی حسن و عشق کی قلبی وارداتوں اور دنیا کی لطافتوں سے بھی آشنا ہے۔ عثمان کی شکل میں ایک ایساتخلیق کار سامنے آتا ہے، جو سماجی شعور کے ساتھ رشتوں کی نزاکتوں کو سمجھتا ہے، جس کا ثبوت شریک حیات کی سالگرہ پر اس کی نظم ''جنم دن تیرا'' ہے۔
اس کے سیاسی وسماجی شعور کی یوں تو ان گنت مثالیں ہیں، جو اس کی غزلوں اور نظموں میں جابجا نظر آتی ہیں، لیکن یہاں دو نظموں کا بالخصوص تذکرہ کرنا چاہیں گے، جن میں اس کا دردِ دل اور سیاسی شعور بلندیوں پر نظر آتا ہے۔ پہلی نظم پھر بٹوارا ہے۔ جس میں وہ سندھ کی تقسیم کے نعرے پر وہ برصغیر کی تقسیم کی خون میں رنگی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے اپنے خوف اور دکھ کا اظہار کرتا ہے۔ جب کہ دوسری نظم جس میں اس کی روح کا کرب نمایاں طور پر نظر آتا ہے، وہ ''گمشدہ بیٹے کے متلاشی بلوچ باپ سے'' ہے۔ اسی طرح ''کراچی تو زندہ رہے گا''، کارپوریٹ کلچر کا مرد مومن سمیت کئی نظمیں اور غزلیں اس کی فکری بالیدگی کو سند عطا کرتی ہیں۔ لیکن ''خط'' وہ نظم ہے، جس میں اس کا تخلیقی فن اپنی بلندیوں پر نظر آتا ہے۔
عثمان جامعی کی شاعری کے مطالعہ سے یہ طمانیت ملی ہے کہ شاعری کا مستقبل تاریک نہیں تابندہ ہے۔ شاعری مر نہیں رہی بلکہ ایک نئے وجودکے ساتھ نیا جنم لے رہی ہے۔ جس طرح ترقی پسند تحریک نے ''ادب برائے ادب'' کی جگہ ''ادب برائے زندگی'' کا تصور دیا۔ اسی طرح آج کی دنیا کو درپیش مسائل نے شاعری کو تفہیم و تشریح کے نئے اسلوب اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ چونکہ ہر زمانے کی اپنی سوچ اور سوچنے کا اپنا انداز ہوتا ہے، اس لیے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ شاعری مایع کی حرکیات (Fluid dynamics) کی مانند اپنی نئی سمت کا ازخود تعین کررہی ہے۔ الغرض ہماری دعا ہے کہ عثمان اسی طرح اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے ہوئے اردو شاعری میں نئی جہتیں متعارف کراتے رہیں۔