کرۂ ارض کو لاحق خطرات
دنیا کا حکمران طبقہ کماؤ کھاؤ، لوٹو اور مال بناؤ کے دھندے میں اس طرح مصروف ہے
دنیا کی معلوم تاریخ دس بارہ ہزار سال پر مشتمل ہے، اس تاریخ کا معلوم حصہ ذہنی پسماندگی پر مشتمل ہے۔ اگرچہ اس دوران انفرادی طور پر بعض شخصیات نے زندگی کے مختلف شعبوں میں تحقیق اور انکشافات کے کارنامے انجام دیے لیکن معاشرتی ڈھانچے عموماً فکری پسماندگیوں کا ہی شکار رہے۔
بیسویں صدی البتہ ترقی کے حوالوں سے منفرد صدی کہلائی جا سکتی ہے کیونکہ اس صدی میں سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی سمیت زندگی کے مختلف شعبوں میں انقلابی تحقیقات، انکشافات اور کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ اس حوالے سے انسان کا چاند پر پہنچنا ایک ایسی کامیابی ہے جو کرۂ ارض پر انسانی تاریخ کا سنہرا باب کہلاسکتی ہے، اس کے علاوہ میڈیکل کے شعبے میں ایسی کامیابیاں حاصل کی گئیں جن کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دل، گردوں اور جگر کی پیوندکاری کے ساتھ آئی ٹی کے شعبے میں جو حیرت انگیز کامیابیاں حاصل کی گئیں وہ آج بھی ناقابل یقین ہیں۔
ان شعبوں کے علاوہ آثار قدیمہ کے شعبے میں بھی بہت پیشرفت ہوئی، دنیا کے مختلف ملکوں میں موئن جو دڑو، ہڑپہ، ٹیکسلا، ایلورا ایجنٹا، جیسے آثار قدیمہ دریافت کیے گئے۔ اس حوالے سے تحقیق کا سلسلہ جاری ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں ان حوالوں سے ہمارے آثار قدیمہ کے ماہرین اور زیادہ کامیابیاں حاصل کریں گے اور ان ممکنہ کامیابیوں سے انسان ماضی کے اسرار جاننے کے قابل ہو سکے گا۔
کرۂ ارض پر انسان کے وجود کے حوالے سے بھی مختلف نظریات پیش کیے گئے لیکن انسان کرۂ ارض پر قدامت طے نہ کر سکا، اس کی معلومات عموماً کرۂ ارض پر بارہ پندرہ ہزار سال تک ہی محدود رہیں، لیکن اس حوالے سے ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق چین کے صوبے شانثری سے برآمد ہونے والی انسانی کھوپڑی کا ڈی این اے کرانے سے پتہ چلا ہے کہ یہ کھوپڑی دو لاکھ 60 ہزار سال پرانی ہے۔ اس کھوپڑی کو Dali Skull کا نام دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ کھوپڑی انسانی ارتقا کی ایک نئی تاریخ رقم کر سکتی ہے۔
اس حوالے سے دلچسپ انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ دو لاکھ سال قبل انسانوں کے ایک گروہ نے ایشیا سے یورپ اور ایشیا کو ملانے والے علاقے کی جانب ہجرت کی۔ یہاں سے یہ لوگ افریقہ کی جانب روانہ ہوئے، جہاں یہ لوگ مقامی آبادی سے گھل مل گئے۔ یعنی جدید انسان کے ڈی این اے میں ایشیا اور افریقی آباؤ اجداد کے ڈی این اے کی باقیات شامل ہیں۔ ماہرین کی رائے ہے کہ جدید دور کے انسان نے دو لاکھ سال قبل افریقہ میں پھلنا پھولنا شروع کیا۔
جدید انسان کے ڈی این اے کے نمونوں کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب اس واحد گروپ کی نسل سے ہیں جو ایک لاکھ بیس ہزار سال قبل افریقہ سے دنیا کے مختلف حصوں میں پھیل گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چین سے برآمد ہونے والی یہ ڈھائی لاکھ سال پرانی کھوپڑی مکمل اور اپنی درست حالت میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین سے برآمد ہونے والی یہ کھوپڑی کم و بیش ایسی ہی ہے جیسی 1960ء میں مراکش کے علاقے جبل ارمور کے ایک غار سے برآمد ہوئی تھی۔ قارئین یہ سوچنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہم ڈھائی لاکھ سال پرانی کھوپڑی میں کیوں الجھ گئے ہیں؟
اس حوالے سے ہمارے تجسس اور دلچسپی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کرۂ ارض کو وجود میں آئے ہوئے چار ارب سال ہو رہے ہیں، ان چار ارب سال کے دوران جانے کرۂ ارض پر رہنے والا انسان کتنی بار فنا ہوا اور کتنی بار انسانی زندگی کس طرح دوبارہ وجود میں آئی؟ اس حوالے سے یہ ایک منطقی بات ہے کہ اگر ماہرین ارض اپنی اس تحقیق میں درست ہیں کہ کرۂ ارض کی عمر 4 ارب سال ہے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دوران دنیا کتنی ہی بار اجڑی اور کتنی ہی بار آباد ہوئی۔ اس حوالے سے ذہن میں یہ سوال ابھرنا منطقی ہے کہ دنیا کیسے اجڑتی اور آباد ہوتی رہی۔ ہمارے ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کرۂ ارض کا درجہ حرارت اسی طرح بڑھتا رہا تو سمندر کی سطح میں اس طرح اضافہ ہوتا رہے گا کہ ایک وقت آئے گا جب کرۂ ارض سمندر بن جائے گا۔
ماحولیات کے ماہرین چیخ رہے ہیں کہ خدا کے لیے ان اسباب کو روکیں جو درجہ حرارت کو بڑھا رہے ہیں، ورنہ کرۂ ارض سے انسان کا وجود ختم ہو جائے گا۔ اس انتباہ کو محض خیال اور واہمہ اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ کرۂ ارض کی طویل عمر میں ایسا ہوتا رہا ہے۔ آج کی دنیا کا ترقی یافتہ انسان اپنی ان سہولتوں سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں، جو آخرکار زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کا باعث بن رہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک طرف رائے عامہ کو ہموار کرنا ضروری ہے تو دوسری طرف ان کوششوں کی بھی ضرورت ہے کہ کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ کرنے والے عوامل کو قانون کے ذریعے سختی سے روکا جائے اور وہ متبادل راستے تلاش کیے جائیں جو درجہ حرارت کو بڑھنے سے روک سکیں۔
ہمارا تعلق نہ ماہرین ارض سے ہے نہ ماہرین آثار قدیمہ سے، لیکن انسان بلکہ ایک حساس انسان ہونے کے تعلق سے کرۂ ارض کو لاحق خطرات کے حوالے سے ہماری تشویش فطری ہے اور ان خطرات کو روکنے کی خواہش بھی فطری ہے۔ اس حوالے سے ہماری تشویش اس لیے بجا ہے کہ دنیا کے 7 ارب انسانوں میں سے ایک فیصد انسان بھی ایسے نہیں ہوں گے جنھیں ان خطرات کا احساس ہو جو کرۂ ارض کو لاحق ہو رہے ہیں۔ درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ایک ایسا بھیانک خطرہ ہے جس کی زد میں کرۂ ارض پر رہنے والے سارے انسان بلکہ سارے جاندار آ سکتے ہیں۔ اس ہولناک خطرے سے اہل زمین کو آگاہ کرنا ان میں بیداری پیدا کرنا اور ان اسباب کے خاتمے کی کوشش کرنا جو درجہ حرارت میں اضافہ کر رہے ہیں ہر عاقل و بالغ کا انسانی فرض ہے۔
دنیا کا حکمران طبقہ کماؤ کھاؤ، لوٹو اور مال بناؤ کے دھندے میں اس طرح مصروف ہے کہ اس کے پاس ایسی فالتو باتوں پر غور کرنے کا وقت ہے نہ اہمیت۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں رائج سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی زندگی کو جہنم سے بدتر بنا دیا ہے اور اس ظالمانہ استحصالی نظام کو بدلنا بھی انسان کی اولین ترجیح ہونا چاہیے لیکن یہ اسب اسی وقت ممکن ہو گا جب کرۂ ارض پر جاندار کا وجود باقی رہے۔ دنیا کے حساس اور مستقبل سے باخبر حلقے ہی ان خطرات کا احساس کر سکتے ہیں اور اس حوالے سے دنیا کو احساس دلا سکتے ہیں کہ کرۂ ارض پر انسانی زندگی کو کیا خطرات لاحق ہیں اور وہ کس قدر سنگین ہیں۔