ایک مثبت اتحاد کا ظہور

ہماری فوج کسی بھی مسلم ملک کے خلاف فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گی


اکرام سہگل December 04, 2017

26نومبر کوریاض میں اسلامی عسکری اتحادبرائے انسداد دہشتگردی(IMCTC) کے ''دہشتگردی کے خلاف اتحاد'' کے موضوع پرمنعقدہ افتتاحی اجلاس میں پاکستانی میڈیا کے سینئر ساتھیوں کے ساتھ مدعو کیا جانا، ایک سے زائد وجوہات کے باعث، میرے لیے ایک اعزاز تھا۔اس اہم اجلاس میں41 اسلامی ممالک کے وزرائے دفاع اور سینئر عسکری عہدیداروں نے شرکت کی۔

اس موقع سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے (جو ایم بی ایس کے نام سے بھی معروف ہیں) اپنے خطاب میں انتہاپسندوں اور دہشتگردوں کو دین کا حسین چہرہ مسخ کرنے کی اجازت نہ دینے اور مکمل خاتمے تک ان کا تعاقب کرنے کا عزم کیا۔ اتحاد کے عبوری سیکریٹری جنرل لیفٹیننٹ جنرل عبدالصالح نے اس اتحاد کواُن تمام رکن ممالک کے لیے، جو دہشتگردی کے خلاف باہمی تعاون اور اشتراک کے خواہش مند ہیں، ایک پلیٹ فارم کے طور پر پیش کیا۔پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع، خرم دستگیر نے اس اجلاس میں پاکستان کی نمایندگی کی اور پاکستان کے دہشتگردوں کے خلاف کامیاب آپریشنزکو نمایاں کرتے ہوئے سعودی عرب کے قائدانہ کردار کو سراہا۔ بلاشبہ یہ پین اسلامک فرنٹ اپنے اندر دہشتگرد قوتوں کے لیے ایک واضح پیغام رکھتا ہے۔

دسمبر 2015ء میں ایم بی ایس نے،جو اس وقت نائب ولی عہد اور وزیر دفاع تھے، 34 ارکان پر مشتمل اسلامی فوجی اتحادکے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس کامرکز ریاض منتخب کیا گیا۔ اس کا مقصد امت مسلمہ کو دہشتگرد تنظیموں کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے باہمی تعاون بڑھانا تھا۔ محمد بن سلمان کا موقف تھا کہ دہشتگردی کے خلاف تمام ذرایع کا استعمال اور اس کے خاتمے کے لیے موثراشتراک ضروری ہے۔اس اتحاد کی تشکیل کے وقت سنی اکثریتی ممالک کا اس کا حصہ بننے،ایران، عراق اور شام کو اس میں شامل نہ کرنے کے باعث پاکستان میں تذبذب پایا جاتا تھا۔مختلف مکاتب فکر کی جانب سے اسے سنی ممالک کے اتحاد کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔

یمن میں فوج نہ بھیجنے کے فیصلے نے پاکستان کے کسی اینٹی شیعہ ایجنڈے کا حصہ بنے کے تاثر کا خاتمہ کر دیا۔ایران سے ہمارے خوش گوارروابط اور سعودی عرب سے دیرینہ اور خصوصی تعلقات کے پیش نظر یہ معاملہ انتہائی حساس شکل اختیار کر گیا۔ پاکستان کبھی ایران مخالف اتحاد کا حصہ نہیں بن سکتا۔اِسی مانند ایران کو بھی تحمل اور سمجھداری کا مظاہر ہ کرنا ہوگا۔ داعش اور دیگر انتہاپسند تنظیمیں تمام مسلم ممالک میں دہشت اور تشدد پھیلانے کے لیے سرگرداں ہیں، متاثرہ ممالک کی اس خطرے سے نبرآزما ہونے کی انفرادی کوششیں زیادہ کارگر ثابت نہیں ہورہیں۔ ایسے میں یہ اتحاد مشترکہ دشمن کے خلاف، مختلف ممالک کے اشتراک اورعالمی حمایت سے انسداد دہشتگردی میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

پاکستان نے ریفرنس کی شرائط (TORs) حتمی ہونے کے بعد اس اتحاد کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا ۔ہمارا اصولی موقف تھا کہ ہماری فوج کسی بھی مسلم ملک کے خلاف فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گی۔حتمی اعلامیہ نے تمام ارکان ممالک کو اتحاد میں اپنے کردار کے تعین کی آزادی اور ذمے داری دی۔ یوں پاکستان کو سعودی عرب اور ایران سے اپنے تعلقات میں توازن قائم کرنے کا موقع ملا۔ابہام دور ہونے کے بعد اب یہ واضح ہے کہ کسی بھی ملٹری آپریشن میں اتحادی ریاستوں کی شمولیت کا تعین ان کی صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ ان کی خواہش کے مطابق ہوگا۔

گزشتہ روز27 نومبر کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اجلاس میں شرکت پاکستان کے اِس اتحاد سے متعلق واضح موقف اور موثرکردار کی عکاس تھی۔ یاد رہے، اس سے قبل جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایران کا انتہائی اہم دورہ کیا تھا، جہاں انھوں نے ایران کے اعلیٰ عہدے داروں سے ملاقات کی۔ یہ کامیاب دورہ امت مسلمہ کے اتحاد کے لیے ہماری کاوشوں کی عکاسی کرتا ہے۔

اس اتحاد میں پاکستان کا کردار یوں بھی اہم ہے کہ اس کا کمانڈر سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو مقرر کیا گیا ہے۔ سعودی ولی عہد کی جانب سے اسے میرٹ پر مبنی اور اتفاق رائے سے کیا جانے والا فیصلہ قرار دیا گیا۔یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ دنیا کے باصلاحیت جنرلز کی موجودگی میں ایک پاکستانی کو اس اہم ترین عہدے کے لیے منتخب کیا گیا۔ اپنی تقریر میں جنرل راحیل شریف نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اتحاد کسی مسلک یا ملک کے خلاف نہیں اور اس کے کوئی درپردہ مقاصد نہیں ہیں۔انھوں نے مختصر، مگر موثر اور پراعتماد انداز میں واضح کیاکہ اس اتحاد کا اکلوتا مقصد انسداد دہشتگردی اور دین کا معتدل چہرہ پیش کرنا ہے۔ ایک یا دو ممالک کے وزیر دفاع نے اپنی تقاریر میں پوشیدہ ایجنڈے کی سمت اشارہ کیا تھا، مگریہ واضح اور دو ٹوک پیغام ان اندیشوں کی تشفی کے لیے کافی تھا۔

لگ بھگ تمام ممالک کے وزرانے جنرل راحیل شریف کے اس موقف سے اتفاق کیا کہ دہشتگردی سے نبردآزما ہونے کے لیے ریاستوں کی انفرادی کوششیں اور وسائل ناکافی ہیں۔ یہ اتحاد جنرل راحیل شریف کی کمانڈ میں ارکان ممالک کے درمیان معلومات کے تبادلے اور انسداد دہشتگردی کی صلاحیتوں میں اضافہ کے لیے کام کرے گا۔جنرل راحیل شریف کی ساکھ اور سعودی ولی عہد سمیت دیگر معزز شخصیات سے ملنے والی تعظیم اِس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ وہ مستقبل میں بین الاقوامی تنظیم اور اداروں کے کوآرڈی نیشن سے ایک عالمی الائنس کی تشکیل میں کلیدی کردار نبھائیں گے۔ پورے پاکستان کو اپنے اس سابق سپہ سالار کو ملنے والی عزت اور پذیرائی پر فخرکرنا چاہیے۔

پاکستان نے اپریل 2017ء میں، ٹی آو آرز واضح ہونے پر اس اتحاد میں شمولیت اختیار کی۔ سعودی عرب کی خصوصی درخواست پر، جس کا سبب پاکستانی فوجی کی حیثیت سے راحیل شریف کی بے بدل قائدانہ صلاحیت اور قابلیت تھی، اُنھوں نے اس اتحاد کی قیادت سنبھالی۔ جنرل راحیل شریف کو حالیہ برسوں میں پاکستان کا مقبول ترین سپہ سالار کہا جاسکتا ہے۔ انھوں نے تحریک طالبان پاکستا ن (ٹی ٹی پی) کے خلاف ایک موثر کریک ڈاؤن کرکے پاکستان، بالخصوص کراچی میں تشدد پر بڑی حدتک قابو پایا۔

سعودی عرب میں متعدد پاکستانیوں سے ہونے والی ملاقاتوں سے یہ تاثر ملا کہ انھیں بھی جنرل راحیل شریف سے بہت امیدیں ہیں۔ پاکستانی سعودی عرب میںخود کو تیسرے یا چوتھے درجے کا شہری تصور کرتے ہیں،انھیں یقین ہے کہ راحیل شریف ان کے اور سعودی حکام کے درمیان پل کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔انھیں سعودی ولی عہد سے بھی امید ہے کہ وہ تمام مسلمانوں سے، نسل اور مسلک سے بالا تر ہو کر یکساں سلوک کا وعدہ نبھائیں گے۔جنرل راحیل شریف ایک پاکستانی فوجی کی استقامت، تحمل اور وفاداری کی علامت ہیں، مجھے یقین ہے کہ سعودی ولی عہد ان ہزاروں پاکستانیوں کو بھی اسی نظر سے دیکھیں گے، جنھوں نے سعودی عرب کو اس مقام تک پہنچانے کے لیے، جہاں آج وہ مسلم ممالک کے قائد کے طور پر عالمی دنیا کے سامنے کھڑا ہے، بھرپور جدوجہد کی۔سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں سے بات کر کے اندازہ ہوتا ہے کہ سعودی ولی عہد نہ صرف سعودی باشندوں بلکہ مسلم امہ سے کیے جانے والے اپنے وعدوںکو نبھانے کی بھی قابلیت رکھتے ہیں۔

عر ب دنیا دہائیوں سے ایک موثر عسکری الائنس بنانے کی کوششیں کر رہی ہے، مگر یہ اقدامات مسلم دنیا کے بجائے خطہ عرب تک محدود رہے۔ سیاسی ومعاشی فرق کے باعث، مختلف ممالک کی ترجیحات، انھیں درپیش خطرات ،جنگیںجن میں وہ ممالک الجھے ہوئے تھے،خانہ جنگی اور بدعنوانی کے سبب اس نوع کی کوششوں کو کبھی کامیابی نہیں ملی۔اب یہ اتحاد تشکیل پایا ہے۔ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ایران کا اس سے باہر رہنا پاکستان کے لیے کسی طور مناسب نہیں۔ایسے میں جب دشمن خاموشی، مگر چالاکی سے اپنا دائرہ اثر بڑھا رہا ہے، یہ اختلافات کو ہوا دینے کے بجائے متحد ہونے کا وقت ہے۔ ارکان ممالک کے درمیان غیرریاستی عناصر کو دہشتگردی تنظیم ٹھہرانے کے معاملے پر اختلاف موجود ہے،ان اختلافات کو ایک جانب رکھتے ہوئے مسلم فوجی اتحاد کام کرنے کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے، بالخصوص ایسے حالات میں جب جنرل راحیل شریف مسلم ممالک کے درمیان ایک تاریخی مصالحتی کردار نبھا سکتے ہیں۔

(فاضل مصنف ایک دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔