تین کتابچے
عورت اور مرد میں نہ ختم ہونے والی تفریق گھر سے ہی شروع کی جاتی ہے
گزشتہ دنوں تین کتابچے بیک وقت نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کی جانب سے شایع ہوئے، جن میں ''عورت اور بالشویک انقلاب'' مصنفہ زہرا خان، دوسری کتاب ''مذہب، مشین اور مزدور'' مصنف ناصر منصور، اور تیسری ''سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی'' مصنف مشتاق علی شان ہیں۔ یہ کتابچے بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال کے خلاف ہیں۔
زہرا خان اپنے کتابچے میں لکھتی ہیں کہ جب سماج میں پیداوار سادہ تھی، تب سماج اشتمالی تھا، جہاں ہر فرد برابر تھا اور کسی قسم کی تقسیم یا استحصال موجود نہ تھا، مگر جب سماج میں ذاتی ملکیت رائج ہوئی اور اس کی بنیاد پر ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کے استحصال کا آ غاز ہوا، تو اس کا مطلب مرد کی حاکمیت اور کنبے کے تمام افراد پر اس کی اجارہ داری قائم ہوئی۔ یوں عورت دیگر اشیاء کی طرح ذاتی ملکیت کہلانے لگی، جسے دیگر اشیاء کی طرح جب چاہے مرد خرید سکے اور آسانی سے فروخت کرسکے۔ اینگلز ''خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز'' میں کہتے ہیں کہ 'خاندان' لاطینی زبان میں گھریلو غلام یا ایک انسان کی تمام غلاموں پر اجارہ داری کے ہیں۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں خاندان غلامی کی بنیاد ہے اور اسی بنیاد پر عورت اور مرد میں نہ ختم ہونے والی تفریق گھر سے ہی شروع کی جاتی ہے۔ جیسے کہ لڑکے کی پیدائش پر اب بھی اکثر علاقوں میں خاندان خوشیاں مناتا ہے اور بیٹی کی پیدائش پر خوف اور سوگ کا منظر نظر آتا ہے۔ بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں ان کے لباس، کھلونے اور کھا نے پینے اور دیگر عادات سماج کے دیے ہوئے خیالات اور روایات کے مطابق فرق کرنا شروع کردیا جاتا ہے۔ آگے چل کر زہرا خان لکھتی ہیں کہ فطری طور پر بچوں کا پیدا ہونا، کھانا، بولنا اور بڑھنا ایک ہی جیسا ہوتا ہے، یعنی فطرتاً انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا سوائے جسمانی ساخت کے، لیکن یہ انسان اور انسانی معاشرہ ہی ہے جو لڑکا اور لڑ کی میں جنس کی بنیاد پر تفریق پیدا کرکے غیر سائنسی خیالات کو آگے بڑھاتا ہے اور نئی نسل میں نفرتوں کو منتقل بھی کرتا ہے۔
اس میں تعلیمی نظام اور نصاب اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم اسکول کے نصاب کی بات کریں تو یہ بھی ہمیں واضح طور پر عورت اور مرد کا فرق بہادری اور جنگ کے قصے سنا اور پڑھا کر بیان کرتا ہے۔ اینگلز کہتا ہے کہ ''لکھی ہوئی تاریخ مردوں کی تاریخ ہے''۔ جو حقیقت بھی ہے، اس لیے کہ مردوں، خاص کر ذاتی ملکیت پر کنٹرول رکھنے والوں نے جیسا چاہا تاریخ کو لکھ ڈالا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عورت کمتر ہے اور اسے کمزور اور لاچار قرار دیا۔ تا ریخ سے عورت کے حقیقی کردار کو غائب یا پھر مسخ کرکے پیش کیا گیا۔
1917 میں روس میں عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی بدولت دنیا میں پہلی بار خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا، 1918 میں شادی کے لیے قوانین لاگو ہوئے، جس کی وجہ سے شادی کی رجسٹریشن کا عمل آسان ہوا اور پہلی بار عورتوں کو طلاق کا حق ملا، اس سے پہلے عورتیں مرد سے طلاق لینے کی حقدار نہیں تھیں، انقلاب سے قبل وسطی ایشیائی ممالک میں ایک ہزار میں دو خواتین خواندہ تھیں اور انقلاب کے بعد جب وہ سوویت یونین کا حصہ بنیں تو چند برسوں میں سو میں سے ساٹھ خواتین ڈاکٹرز تھیں اور سو میں پچاس خواتین انجینئر تھیں۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد 1918 میں جرمنی اور 1919 میں امریکا میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔
ناصر منصور نے اپنے کتابچے ''مذہب، مشین اور مزدور'' میں کہا کہ انسانی سماج کی ترقی میں مشین نے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔ انسانی ذہن اور سماج کا ارتقا دراصل مشین ہی کی ترقی کا دوسرا نام ہے۔ انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز اور ممیز کرنے میں مشین ہی بنیادی عنصر ہے۔ انسان اور جانور میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان نے نہ صرف اپنے ہاتھوں اور جسم سے آزاد مشین بنائی بلکہ اس میں ہر لمحہ تبدیلی کے لیے بھی کوشاں رہا، جب کہ جانور ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ انسان کی ابتدائی مشین فطرت سے حاصل کردہ پتھر اور لکڑی کا بھالا ہے جو وہ غذا کے حصول اور شکار کے لیے استعمال کرتا تھا۔
آج جدید ترین سپر سانک کمپوٹر تک رسائی، معلوم انسانی تاریخ میں مشین یعنی آلات پیداوار میں مسلسل سرمایہ دار، مزدوروں کی یکجہتی کو توڑنے کے لیے عقائد کو مذہبی جماعتوں، نسلی تنظیموں اور دیگر ذرایع ابلاغ کے ذریعے بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ سرمایہ دار محنت کشوں کو جدید مشین کے استعمال کے بارے میں جانکاری دینے میں نہایت تیزی دکھاتا ہے، لیکن اس جدید مشین کے ساتھ جدید اور نئے خیالات کو روکنے کے لیے ایڑی چو ٹی کا زور بھی لگاتا ہے۔ اور عقائد کی آڑ میں مزدور طبقے کی انقلابی پہچان کو دھندلا کرکے اسے مذہب، فرقے اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کردیتا ہے۔
مشتاق علی شان اپنے کتابچے ''سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی'' میں لکھتے ہیں کہ طبقاتی کشمکش موجودہ سماجی زندگی میں ہر لمحہ جاری و ساری ہے۔ اس میں ہر طبقہ اپنے وجود کو قائم رکھنے اور دوسرے طبقے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی نظریہ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ لبرل ازم کی بنیاد بظاہر شخصی آزادی، جمہوریت، انصاف اور مساوات پر ہے، لیکن اس کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ اس نے شخصی آزادی کے بجائے ظلم، ناانصافی اور عدم مساوات کے اپنے چلن کو جنم دیا، جس کی تباہیوں سے آج عالم آشکار ہے، جب کہ کمیونزم (امداد باہمی کا معاشرہ) کے نظریے کے مطابق دنیا کی ہر چیز حرکت اور تبدیلی کی زد پر ہے۔ پیداواری طاقتیں بڑھتی ہیں اور پرانے معاشی رشتے ناگزیر طور پر ٹوٹ جاتے ہیں۔
زندگی اور سماج سمیت کائنات میں کوئی شے غیر متغیر یا جامد نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل حرکت اور ارتقاء ہے جو جاری ہے۔ قدیم اشتمالی، کمیونسٹ یا پنچایتی نظام کے علاوہ سارے نظام طبقاتی ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں اس وقت دنیا میں اسی کروڑ انسان بھوک کا شکار ہیں اور وہ ہر رات بھوکے سوتے ہیں لیکن اسی دنیا میں روزانہ پکنے والے کھانے کا چالیس فیصد ضایع ہوجاتا ہے۔ وہ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ اسی دنیا میں وہ جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے جس کے ذریعے زمین کے صفر عشاریہ چار فیصد خشک رقبے سے دس ارب انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کی جاسکتی ہے۔
اس کے مقابلے میں محنت کش طبقے کے پاس کمیونزم کی شکل میں ایک ایسا ترقی پسند اور انسان دوست نظریہ اور نظام ہے جو ذرایع پیداوار کی ذاتی ملکیت کا خاتمہ کرکے تمام موجود وسائل کو سماج کی اجتماعی فلاح کے لیے بروئے کار لا کر سماج کو مساوی اور آزاد بھائی چارے کی بنیادوں پر منظم کرنے کی حقیقی قوت رکھتا ہے۔ ان تینوں لکھاریوں نے دنیا بھر کے محنت کشوں، پیداواری قوتوں اور شہریوں کے حقوق کے حصول کے لیے ایک متبادل راہ دکھانے کی کوشش کی ہے جو دنیا بھر کے محنت کشوں، عورتوں، کسانوں اور نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔
زہرا خان اپنے کتابچے میں لکھتی ہیں کہ جب سماج میں پیداوار سادہ تھی، تب سماج اشتمالی تھا، جہاں ہر فرد برابر تھا اور کسی قسم کی تقسیم یا استحصال موجود نہ تھا، مگر جب سماج میں ذاتی ملکیت رائج ہوئی اور اس کی بنیاد پر ایک انسان کے ہاتھوں دوسرے انسان کے استحصال کا آ غاز ہوا، تو اس کا مطلب مرد کی حاکمیت اور کنبے کے تمام افراد پر اس کی اجارہ داری قائم ہوئی۔ یوں عورت دیگر اشیاء کی طرح ذاتی ملکیت کہلانے لگی، جسے دیگر اشیاء کی طرح جب چاہے مرد خرید سکے اور آسانی سے فروخت کرسکے۔ اینگلز ''خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز'' میں کہتے ہیں کہ 'خاندان' لاطینی زبان میں گھریلو غلام یا ایک انسان کی تمام غلاموں پر اجارہ داری کے ہیں۔
یوں ہم کہہ سکتے ہیں خاندان غلامی کی بنیاد ہے اور اسی بنیاد پر عورت اور مرد میں نہ ختم ہونے والی تفریق گھر سے ہی شروع کی جاتی ہے۔ جیسے کہ لڑکے کی پیدائش پر اب بھی اکثر علاقوں میں خاندان خوشیاں مناتا ہے اور بیٹی کی پیدائش پر خوف اور سوگ کا منظر نظر آتا ہے۔ بچے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں ان کے لباس، کھلونے اور کھا نے پینے اور دیگر عادات سماج کے دیے ہوئے خیالات اور روایات کے مطابق فرق کرنا شروع کردیا جاتا ہے۔ آگے چل کر زہرا خان لکھتی ہیں کہ فطری طور پر بچوں کا پیدا ہونا، کھانا، بولنا اور بڑھنا ایک ہی جیسا ہوتا ہے، یعنی فطرتاً انسانوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا سوائے جسمانی ساخت کے، لیکن یہ انسان اور انسانی معاشرہ ہی ہے جو لڑکا اور لڑ کی میں جنس کی بنیاد پر تفریق پیدا کرکے غیر سائنسی خیالات کو آگے بڑھاتا ہے اور نئی نسل میں نفرتوں کو منتقل بھی کرتا ہے۔
اس میں تعلیمی نظام اور نصاب اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم اسکول کے نصاب کی بات کریں تو یہ بھی ہمیں واضح طور پر عورت اور مرد کا فرق بہادری اور جنگ کے قصے سنا اور پڑھا کر بیان کرتا ہے۔ اینگلز کہتا ہے کہ ''لکھی ہوئی تاریخ مردوں کی تاریخ ہے''۔ جو حقیقت بھی ہے، اس لیے کہ مردوں، خاص کر ذاتی ملکیت پر کنٹرول رکھنے والوں نے جیسا چاہا تاریخ کو لکھ ڈالا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ عورت کمتر ہے اور اسے کمزور اور لاچار قرار دیا۔ تا ریخ سے عورت کے حقیقی کردار کو غائب یا پھر مسخ کرکے پیش کیا گیا۔
1917 میں روس میں عظیم اکتوبر سوشلسٹ انقلاب کی بدولت دنیا میں پہلی بار خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا، 1918 میں شادی کے لیے قوانین لاگو ہوئے، جس کی وجہ سے شادی کی رجسٹریشن کا عمل آسان ہوا اور پہلی بار عورتوں کو طلاق کا حق ملا، اس سے پہلے عورتیں مرد سے طلاق لینے کی حقدار نہیں تھیں، انقلاب سے قبل وسطی ایشیائی ممالک میں ایک ہزار میں دو خواتین خواندہ تھیں اور انقلاب کے بعد جب وہ سوویت یونین کا حصہ بنیں تو چند برسوں میں سو میں سے ساٹھ خواتین ڈاکٹرز تھیں اور سو میں پچاس خواتین انجینئر تھیں۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد 1918 میں جرمنی اور 1919 میں امریکا میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق ملا۔
ناصر منصور نے اپنے کتابچے ''مذہب، مشین اور مزدور'' میں کہا کہ انسانی سماج کی ترقی میں مشین نے اہم اور بنیادی کردار ادا کیا۔ انسانی ذہن اور سماج کا ارتقا دراصل مشین ہی کی ترقی کا دوسرا نام ہے۔ انسانوں کو حیوانوں سے ممتاز اور ممیز کرنے میں مشین ہی بنیادی عنصر ہے۔ انسان اور جانور میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان نے نہ صرف اپنے ہاتھوں اور جسم سے آزاد مشین بنائی بلکہ اس میں ہر لمحہ تبدیلی کے لیے بھی کوشاں رہا، جب کہ جانور ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ انسان کی ابتدائی مشین فطرت سے حاصل کردہ پتھر اور لکڑی کا بھالا ہے جو وہ غذا کے حصول اور شکار کے لیے استعمال کرتا تھا۔
آج جدید ترین سپر سانک کمپوٹر تک رسائی، معلوم انسانی تاریخ میں مشین یعنی آلات پیداوار میں مسلسل سرمایہ دار، مزدوروں کی یکجہتی کو توڑنے کے لیے عقائد کو مذہبی جماعتوں، نسلی تنظیموں اور دیگر ذرایع ابلاغ کے ذریعے بے دریغ استعمال کرتا ہے۔ سرمایہ دار محنت کشوں کو جدید مشین کے استعمال کے بارے میں جانکاری دینے میں نہایت تیزی دکھاتا ہے، لیکن اس جدید مشین کے ساتھ جدید اور نئے خیالات کو روکنے کے لیے ایڑی چو ٹی کا زور بھی لگاتا ہے۔ اور عقائد کی آڑ میں مزدور طبقے کی انقلابی پہچان کو دھندلا کرکے اسے مذہب، فرقے اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کردیتا ہے۔
مشتاق علی شان اپنے کتابچے ''سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی'' میں لکھتے ہیں کہ طبقاتی کشمکش موجودہ سماجی زندگی میں ہر لمحہ جاری و ساری ہے۔ اس میں ہر طبقہ اپنے وجود کو قائم رکھنے اور دوسرے طبقے پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے کسی نہ کسی نظریہ سے رہنمائی حاصل کرتا ہے۔ لبرل ازم کی بنیاد بظاہر شخصی آزادی، جمہوریت، انصاف اور مساوات پر ہے، لیکن اس کی تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ اس نے شخصی آزادی کے بجائے ظلم، ناانصافی اور عدم مساوات کے اپنے چلن کو جنم دیا، جس کی تباہیوں سے آج عالم آشکار ہے، جب کہ کمیونزم (امداد باہمی کا معاشرہ) کے نظریے کے مطابق دنیا کی ہر چیز حرکت اور تبدیلی کی زد پر ہے۔ پیداواری طاقتیں بڑھتی ہیں اور پرانے معاشی رشتے ناگزیر طور پر ٹوٹ جاتے ہیں۔
زندگی اور سماج سمیت کائنات میں کوئی شے غیر متغیر یا جامد نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل حرکت اور ارتقاء ہے جو جاری ہے۔ قدیم اشتمالی، کمیونسٹ یا پنچایتی نظام کے علاوہ سارے نظام طبقاتی ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ نظام میں اس وقت دنیا میں اسی کروڑ انسان بھوک کا شکار ہیں اور وہ ہر رات بھوکے سوتے ہیں لیکن اسی دنیا میں روزانہ پکنے والے کھانے کا چالیس فیصد ضایع ہوجاتا ہے۔ وہ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ اسی دنیا میں وہ جدید ترین ٹیکنالوجی موجود ہے جس کے ذریعے زمین کے صفر عشاریہ چار فیصد خشک رقبے سے دس ارب انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کی جاسکتی ہے۔
اس کے مقابلے میں محنت کش طبقے کے پاس کمیونزم کی شکل میں ایک ایسا ترقی پسند اور انسان دوست نظریہ اور نظام ہے جو ذرایع پیداوار کی ذاتی ملکیت کا خاتمہ کرکے تمام موجود وسائل کو سماج کی اجتماعی فلاح کے لیے بروئے کار لا کر سماج کو مساوی اور آزاد بھائی چارے کی بنیادوں پر منظم کرنے کی حقیقی قوت رکھتا ہے۔ ان تینوں لکھاریوں نے دنیا بھر کے محنت کشوں، پیداواری قوتوں اور شہریوں کے حقوق کے حصول کے لیے ایک متبادل راہ دکھانے کی کوشش کی ہے جو دنیا بھر کے محنت کشوں، عورتوں، کسانوں اور نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔