بلاول بھٹو کے نام

کراچی کے آزادی پسند نوجوان حیدر بخش جتوئی کے کردار سے بہت متاثر تھے


Saeed Parvez December 04, 2017

جہانگیر پارک کراچی کی تاریخ میں نمایاں اور اہم حیثیت رکھتا ہے۔ یہ پارک کراچی کے دل صدر ایمپریس مارکیٹ کے عین پڑوس میں بنایا گیا تھا۔ یہ علاقہ کراچی کا مرکز تھا، جہاں شہر بھر کی دور دراز مضافاتی بستیوں سے بسیں آتی تھیں۔ لانڈھی، کورنگی، ملیر، کھوکھراپار، نیول کالونی (ہاکس بے) تب مضافات میں شامل تھے۔ بعد کو پٹھان کالونی، بنارس، اورنگی ٹاؤن، ادھر قیوم آباد، محمود آباد، اختر کالونی، بھٹائی نگر آباد ہوئے تو ویگنیں بھی شہر میں چلنے لگیں اور ان ویگنوں کا مرکز بھی صدر ایمپریس مارکیٹ ہی رہا۔

آج سوا دو کروڑ آبادی کا شہر کراچی میلوں دور تک پھیل چکا ہے۔ گلشن معمار، گلشن حدید، سعید آباد کے آباد ہونے کے بعد اس شہر کے کنارے صوبہ بلوچستان سے جا ملے ہیں۔ اس قدر پھیلاؤ کے بعد بھی صدر ایمپریس مارکیٹ کے علاقے کا مقام و مرتبہ اپنی جگہ قائم ہے اور شہر کا دل تھا اور ہے۔

سندھ حکومت نے بہت اچھا کام کیا کہ جہانگیر پارک کو تازہ دم کردیا، ورنہ یہ تاریخی پارک تو عرصہ دراز سے برباد پڑا ہوا تھا، اور اسے پوچھنے والا کوئی بھی نہیں تھا، دنیا بھر کے جرائم اس پارک میں کیے جاتے تھے، رات کے اندھیرے میں یہ پارک جاگ جاتا تھا اور ہر برا کام یہاں کیا جاتا تھا۔

یہی وہ پارک تھا جہاں شہید ملت لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر نے جلسوں میں خطاب کیا، اسی پارک میں یادگار پاک و ہند مشاعرے ہوئے، اس پارک میں ہندوستان کے شاعر فنا کانپوری نے یہ اشعار پڑھے تھے:

غیرت اہل چمن کو کیا ہوا

چھوڑ آئے آشیاں جلتا ہوا

یہ عمارت تو عبادت گاہ ہے

اس جگہ اک میکدہ تھا کیا ہوا

اور ان اشعار کے پڑھنے کے بعد فنا کانپوری کو 48 گھنٹوں میں پاکستان چھوڑنے کے سرکاری احکامات جاری ہوئے اور وہ واپس ہندوستان چلے گئے۔ اس جہانگیر پارک میں حضرت علامہ شاہ احمد نورانی برسوں، رمضان شریف کے مقدس مہینے میں نماز تراویح پڑھاتے رہے اور شب معراج 27 ویں رمضان کو ختم قرآن کا روح پرور و بابرکت اجتماع ہوتا تھا۔

اس جہانگیر پارک سے ایک اور یادگار واقعہ بھی منسوب ہے۔ اسی واقعے کو بنیاد بناکر آج کا کالم لکھا گیا ہے۔ 1954 میں ہاری تحریک کے رہنما کامریڈ حیدر بخش جتوئی نے جہانگیر پارک میں ہاری کانفرنس سے خطاب کیا تھا۔ حبیب جالب حیدر بخش جتوئی کی تحریک میں شامل ہوچکے تھے۔ کراچی کے آزادی پسند نوجوان حیدر بخش جتوئی کے کردار سے بہت متاثر تھے اور ہاری تحریک کا حصہ تھے۔

انھی دنوں کا واقعہ ہے۔ لاڑکانہ شہر میں اسمبلی کا الیکشن ہورہا تھا۔ لاڑکانہ کا لینڈ لارڈ ایوب کھوڑو سرکاری امیدوار تھا تمام سرکاری لاؤ لشکر اس کے ساتھ تھا، اور بڑا وڈیرہ ہونا اس کے علاوہ، اور اس کے مقابلے میں لاڑکانے ہی کے ایک غریب خاندان کا فرد حیدر بخش جتوئی کھڑا تھا۔ کراچی سے حیدر بخش جتوئی کی الیکشن کمپین چلانے کے لیے کچھ نوجوان لاڑکانہ پہنچے ہوئے تھے۔ ان میں حبیب جالب کے علاوہ عارف جلالی اور حسن عابدی ودیگر بھی شامل تھے۔ حیدر بخش جتوئی کے انتخابی جلسے میں حبیب جالب نے یہ نظم پڑھی:

حیدر بخش جتوئی، رے بھیّا حیدر بخش جتوئی

ہاری کا غم کھانے والا اور نہ دوجا کوئی

رے بھیّا حیدر بخش جتوئی

ہم لاکھوں کی پونجی لوٹے جاگیردار اکیلا

اچھا پہنے، کار میں گھومے، ٹھاٹھ کرے البیلا

ہم تو روئیں بھوک کے مارے اور اس کے گھر میلہ

آپ تو اوڑھے شال دوشالہ ہمیں ملے نہ لوئی

حیدر بخش جتوئی

رے بھیّا حیدر بخش جتوئی

جالب صاحب اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں ''ایک بار کھوڑو نے ہمارے قریب آکر کہا ''تم اسٹوڈنٹ یہاں کیا لینے آتے ہو؟'' میں نے اس سے کہا ''ہم تمہاری بنیادیں اکھاڑنے یہاں آتے ہیں'' تو وہ یہ سن کر چلاگیا، لیکن جہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے اس مکان (جھونپڑی) کو اس نے آگ لگوادی اور حیدر بخش جتوئی کی کار بھی جلادی۔'' (حوالہ: صفحہ نمبر 33، جالب بیتی)۔

یہ واقعہ تو درمیان میں یاد آگیا کہ ذکر حیدر بخش جتوئی کا ہو رہا تھا۔ تو جناب! 1954 میں اس تاریخی جہانگیر پارک سے نکلتے ہوئے ریگل چوک پر مظاہرے کے دوران حبیب جالب کو گرفتار کیا گیا اور یہ حبیب جالب کی پہلی گرفتاری تھی۔

حبیب جالب کا ایک خط بنام بلاول بھٹو شایع ہوا ہے۔ جس کے شروع میں ان کا پتا لکھا گیا ہے ''گھاٹی شاعراں، گلی حبیب''۔ بلاول کے نانا ذوالفقار علی بھٹو کے پاس گئے، وہیں بلاول کی والدہ بے نظیر بھی آگئیں۔ جالب نے اپنے خط میں بلاول سے اپنے تجربات شیئر کیے ہیں، بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو صاحبہ جالب کے خط پر خوش تھے۔ بے نظیر نے جالب سے کہا ''میں نے بلاول کی سیاسی تربیت جو کرنا تھی کردی، اب آگے وہ خود چلے گا۔'' (جالب کا خط ایک اخبار میں کالم نگار نے شامل کیا ہے۔)

میں بھی آج کالم میں بلاول بھٹو سے مخاطب ہوں۔ میں ایک بات لکھ رہا ہوں، عمل کرنا نہ کرنا بلاول بھٹو پر منحصر ہے۔ اگر اس بات پر عمل ہوگیا تو اس میں انھی کی نیک نامی ہے۔ تاریخی جہانگیر پارک میں تاریخی نقش ثبت ہوجائے گا۔

''جہانگیر پارک کے کسی گوشے میں ''حبیب جالب لائبریری''بنادی جائے۔'' حبیب جالب میرے مرشد تھے، دنیا بھر میں ان کے کروڑوں چاہنے والے ہیں، میں بھی ان کروڑوں میں شامل رہ کر زیادہ آسودگی محسوس کرتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں