حکومت ساڑھے 4 سال میں ایک بھی آزاد تجارتی معاہدہ نہ کرسکی

ترکی، تھائی لینڈ، چین اور ایران کے ساتھ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے۔

ترکی، تھائی لینڈ، چین اور ایران کے ساتھ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکے؛فوٹوفائل

موجودہ حکومت کے ساڑھے چارسال کے دوران اعلانات کے باجود آزاد تجارتی معاہدوں کے سلسلے میں کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہوئی اور حکومت کاکسی بھی ملک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ نہیں ہوا۔

پاک چین آزاد تجارتی معاہدہ دوم کا مستقبل غیر یقینی صورت حال سے دوچار ہوگیا۔ دونوں ممالک کے درمیان تین سال سے مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے مگر تاحال اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا۔ وزارت تجارت کے ذرائع کے مطابق چین نے آزاد تجارتی معاہدہ دوم کے تحت پاکستان کو 90 فیصد اشیا کی برآمد پر ڈیوٹی فری رسائی دینے کی پیشکش کی ہے اور 90 فیصد ہی چینی مصنوعات کی برآمد پر ڈیوٹی فری رسائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسی طرح چین نے فوری طور پر پاکستان کو مصنوعات کی برآمد پر 90 فیصد اشیا پر ڈیوٹی فری رسائی دینے کی پیشکش کی ہے اور اس کے بدلے میں مرحلہ وار چین کو پندرہ سال میں 90 فیصد اشیاکی برآمد پرڈیوٹی فری رسائی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس حوالے سے حکومت نے تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق آزاد تجارتی معاہدہ دوم کے تحت پاکستان چین کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ اشیاکی برآمد پر ڈیوٹی فری رسائی چاہتا ہے جبکہ آزاد تجارتی معاہد ہ اول کے مقابلے میں چین کی برآمدی اشیا کی ڈیوٹی فری رسائی میں کمی چاہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان اور چین کے درمیان پہلاآزاد تجارتی معاہدہ 2006-14 کے دوران رہا جس کا زیادہ فائدہ چین کو ہوا۔


معاہدے سے پاکستان کو سالانہ 22 ارب اور مجموعی طور پر 8 سال میں 176ارب روپے کا ریونیو کا نقصان ہوا۔ اس لیے آزاد تجارتی معاہدہ دوم کے تحت پاکستان مقابلتا زیادہ مراعات اور مقامی منیوفیکچرنگ انڈسٹری کا تحفظ چاہتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ترکی نے پاکستان کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ کرنے سے انکار کردیا۔ ذرائع کے مطابق ترکی پاکستان کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ کرنے پر تیار نہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ترکی کی ٹیکسٹائل لابی پاکستان کے ساتھ ایف ٹی اے کی مخالف ہے۔ ذرائع کے مطابق ترکی ٹیکسٹائل شعبے میں پاکستان کو کسی قسم کی رعایت دینے کیلیے تیار نہیں جبکہ حکومت پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے تحت دس فیصد ٹیکسٹائل کی ڈیوٹی فری برآمدات چاہتا ہے۔

ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت نے غیرسرکاری طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو بھی ترکی کو ایف ٹی اے پر قائل کرنے کا ٹاسک دیا تھا تاہم یہ چینل بھی سود مند ثابت نہ ہوسکا۔ پاکستان اور ترکی نے 2004 میں ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط کیے تھے مگر اب تک دونوں ممالک آزاد تجارتی معاہدہ کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے ہیں۔ ترکی نے ایف ٹی اے کے تحت آٹو سیکٹر اورپاکستان نے ٹیکسٹائل سیکٹر میں رعایتوں کا مطالبہ کیا ہے۔پاکستان اور ایران کے درمیان دسمبر 2017تک آزاد تجارتی معاہدے پر اتفاق ہوگیا تھا مگر تاحال دونوں ممالک کے درمیان معاہد ہ نہیں ہوسکا ہے۔دونوں ممالک کے درمیان2006میں آپریشنل ہونے والے ترجیہی تجارتی معاہدے کے تحت پاکستان نے ایران کو 338 اور ایران نے پاکستان کو 309اشیا پر ڈیوٹیز میں رعایت دے رکھی ہے تاہم آزاد تجارتی معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے اسی فیصد مصنوعات پر ڈیوٹیز میں رعایت پر اتفاق کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق آزاد تجارتی معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا جس کا فائدہ دونوں ممالک کو ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ دوطرفہ تجارت کاحجم صرف 30کروڑڈالر کے لگ بھگ ہے جس کو آزاد تجارتی معاہدے کے تحت پانچ سال میں پانچ ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ گزشتہ سال مارچ میںایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے دوران دونوں ممالک نے پانچ سالہ اسٹرٹیجک پلان پر دستخط کیے تھے جس کے تحت دونوں ممالک کے مابین آزاد تجارتی معاہدے پر مذاکرات جون2016 میں شروع کیے جانے پر اتفاق ہوا تھا تاہم دونوں ممالک آ زاد تجارتی فریم ورک معاہدے کا مسودہ ایک دوسرے کو مقررہ شیڈول کے مطابق نہیں بھجواسکے جس سے مذاکرات دسمبر2016 میں شروع ہوئے۔

ذرائع کے مطابق حالیہ دنوں میں دونوںممالک کی وزارت تجارت کے حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں بھی کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔ پاکستان اور تھائی لینڈ کے درمیان بھی آزاد تجارتی معاہد ہ نہیں ہوسکا ہے۔ موجودہ حکومت نے 2013 میں جب اقتدار سنبھالا تو ملکی برآمدات کا سالانہ حجم 25ارب ڈالر تھا جواب کم ہوکر سالانہ 20ارب ڈالر رہ گیا ہے۔
Load Next Story