تعلیمی ادوار کا ایک اور سیاہ باب

تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ سانحے کا ذمہ دار جو بھی ہو، نقصان صرف ان خاندانوں کا ہوا ہے جن کے جگر گوشے وہاں زیرِتعلیم تھے


نزہت خان December 06, 2017
پشاور زرعی تحقیقی مرکز حملے میں 9 افراد شہید ہوئے تھے۔ تصویر: انٹرنیٹ

12 ربیع الاوّل کو جب پورا پاکستان زور و شور اور مذہبی عقیدت کے ساتھ جشنِ عید میلاد النبیﷺ منانے میں مصروف تھا، عام تعطیل کے باعث تعلیمی ادارے سنسان تھے، ایسے میں تین دہشت گرد ایک جامعہ میں داخل ہوئے اور جامعہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنا ڈالا۔ ایک بار پھر 9 نوجوان طالب علم دہشت گردی کا شکار ہوگئے، 9 نسل اور 9 خاندان تباہ ہوگئے۔ وہ طالب علم جو اپنے گھروں سے دور بہت سے مقاصد لیے زیرِتعلیم تھے جنہیں روشن مستقبل کے لیے ابھی بہت سے مراحل طے کرنے تھے، جن کے خواب ابھی کامیابی کے ابتدائی دور میں ہی تھے۔ دہشت گردوں نے ان کے مقاصد کو اپنی درینہ دہنی کا نشانہ بنا ڈالا، ان کے خواب منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی خاک میں ملا دیے۔

ماضی قریب میں آرمی پبلک اسکول میں دہشت گرد اپنے سیاہ نشان چھوڑ گئے تھے جو آج تک ہم نہیں مٹا سکے۔ پاکستان کی نسلِ نو اور مستقبل کے معماروں کو اسکول میں گھس کر انتہائی درندگی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا، شہید ہونے والے معصوم بچوں کے والدین و اہل خانہ نے اس المناک واقعے کو اللہ کی رضا سمجھ کر صبر کرلیا مگر ہم وہ سانحہ ابھی تک بھلا نہیں پائے۔

اس واقعے کے بعد وقتی طور پر حکومت جاگ گئی، سیکورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی، نئے قاعدے قوانین بنائے گئے، سی سی ٹی وی کی تعداد بڑھانے کا دعویٰ کیا گیا، اسکولوں کی دیواریں اونچی کرنے کا حکم صادر کیا گیا، ناکوں اور تلاشی میں سختی ہونے لگی۔ یہ سارے اقدامات کیے گئے مگر متاثرہ خاندانوں کی ویرانی اب بھی برقرار ہے، قوم بھی اس دردناک سانحے کو بھول نہیں پائی ہے۔

سانحے کے کچھ عرصے بعد حکومت پھر سے خوابِ غفلت میں مشغول ہوگئی جس کے نتیجے میں پشاور میں ہی پھر ایک سانحہ رونما ہوگیا۔ اب کی بار فوج، پولیس اور دیگر سیکورٹی فورسز کے فوری ریسپانس کی بدولت اے پی ایس جیسی تباہی سے تو ممکن نہ ہوسکی جس پر محافظ ادارے مبارک باد کے مستحق ہیں، مگر کیا میرے اور آپ کے ذہنوں میں سوال نہیں اٹھتا کہ یہ سب ممکن کیسے ہو گیا؟ جبکہ حکومت سیکیورٹی کئی گنا سخت کرنے کا دعویٰ کر رہی تھی، پھر ربیع الاول کے موقع پر جشنِ عید میلادالنبیﷺ کی وجہ سے سیکورٹی مزید سخت تھی، موبائل نیٹ ورک تک بند تھے، پھر کیسے دیشت گرد رکشے میں سوار، ہتھیاروں سمیت زرعی یونیورسٹی تک پہنچ گئے؟ بیچ میں کوئی چیک پوسٹ نہیں آئی جہاں ان کی تلاشی لی جاتی؟ کسی سی سی ٹی وی کیمرے کی آنکھ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ دہشت گرد افغانستان سے داخل ہوگئے ہیں اور دہشت گردی کی نیت رکھتے ہیں، یہ خبریں تو پہلے سے ہی گردش کر رہیں تھیں؛ پھر اتنی بڑی جامعہ کے مین گیٹ پر حفاظت کےلیے محض ایک شخص کافی تھا؟

ایک عام طالبہ ہونے کے ناطے میرے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا اس پورے واقعے میں ذمہ دار یا نااہل کس کو ٹھہرایا جائے؟ حکومت کو؟ جو بس اس وقت جاگتی ہے جب اس کو ووٹ کی بھوک لگتی ہے، عوامی سپورٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈیوٹی پر موجود افسران جو جگہ جگہ تعینات تھے، جو نوکری سمجھ کر ڈیوٹی پر تو آ گئے مگر فرض سمجھ کر ڈیوٹی سے ایمانداری نہیں کی تبھی وہ رکشہ ہتھیار سے لیس اپنی منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوا؟ یا جامعہ کی انتظامیہ؟ جو یہ سوچ کر پُرسکون تھی کہ عام تعطیل ہے تو جامعہ محفوظ ہے۔ ایک عام شہری کس کو اس سانحے کا ذمہ دار سمجھے؟

اس سے بڑی تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ ذمہ دار جو بھی ہو، نقصان تو صرف ان خاندانوں کا ہوا ہے جن کے لختِ جگر وہاں زیرِتعلیم تھے۔ ان میں کسی طالبعلم کا باپ ضعیف ہوگا تو کوئی اپنے ماں کی آخری امید ہوگا، تو کوئی اپنے گھر کا واحد سہارا۔

یہ تو وہ نقصانات ہیں جو فوری اور سامنے نظر آنے والے ہیں۔ اس کے دیرپا نتائج کیا ہونگے؟ میں مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی طالبہ ہوں جو حجاب کے ساتھ پڑھنا چاھتی ہے، تعلیمی میدان میں کامیاب ہونا چاہتی ہے، جو پہلے ہی حجاب کے باعث مختلف نوع کے مسائل کا سامنا کرتی ہے؛ اس واقعہ کے بعد جبکہ دہشت گرد برقعہ پوش تھے، حجاب کی وجہ سے میرے لیے مزید مسائل پیدا نہیں ہونگے؟ مجھ جیسی بہت سی طالبات ہونگی جن کے ذہنوں میں یہ سوال خلجان بپا کر رہا ہوگا۔

ہماری فوج کا کہنا ہے دہشت گردی افغانستان سے ہو رہی ہے تو افغانستان میں صرف مسلمان تو نہیں رہتے، ہندوستان کی وہاں مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اور پھر ہندوستان پاکستان کو جس طرح تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے وہ بھی پوری طرح عیاں ہے، پھر دہشت گرد اسلام ہی کا لبادہ کیوں اوڑھتے ہیں؟ اگر کوئی یہ بولے کہ برقعہ کا استعمال ان کی شناخت چھپاتا ہے تو شناخت تو اس کے مرنے یا گرفتاری کے بعد عیاں ہو ہی جاتی ہے۔ پھر ایک سیکورٹی افسر کیا اتنا اہل بھی نہیں کہ عورت اور مرد کے برقعہ پہننے اور برقعے میں اس کی حرکات و سکنات میں یہ تمیز نہ کرسکے کہ آیا برقعے کے اندر عورت ہے یا مرد؟

ایک طالبہ اور امن پسند شہری کے ناطے میں حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ ملک بھر بالخصوص تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو عملاً روکا جائے اور تعلیمی اداروں کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ ہم جیسی طالبات کے لیے بے جا مسائل کی روک تھام کےلیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ[email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں