وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس سے متصل شہر راولپنڈی کو ملانے والی مرکزی سڑک پر دیا جانے والا دھرنا بائیس دن کے بعد باالآخر ختم ہو گیا۔کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ اعصاب شکن بحران سے چھٹکارا ملنے پر قوم نے سکون کا سانس لیا ہے۔حکومت کے سول اداروں سے فیض آباد دھرنا سنبھل نہیں رہا تھا، وزیر اعظم اور آرمی چیف کے مابین رابطے کے بعد رینجرزکی معاونت سے حکومت اور دھرنا قائدین کے درمیان معاہدہ عمل میں آ سکا۔
بلاشبہ یہ مذاکرات کے ذریعے معاملات طے کرنے کے ضمن میں بڑی کامیابی تھی ورنہ حکومت کی جانب سے افہام و تفہیم کو خیرآباد کہہ کر طاقت کے زور پر دھرنا ختم کرانے کا جو راستہ اختیار کیا گیا تھا اس سے پورا ملک ایک بحرانی کیفیت سے دوچار ہوگیا تھا۔
حالات سنگین ہورہے تھے، کئی شہروں میں ہنگامے شروع ہوچکے تھے، ن لیگی رہنماؤں کو دھمکیاں ملنا شروع ہوگئیں، کچھ کے گھروں پر بھی حملے ہوئے، ڈر یہ تھا کہ اگر حالات پر فوری طور پر قابو نہ پایا گیا تو ایسا انتشار پیدا ہوگا جس سے خدانخواستہ پاکستان کو کوئی بڑا نقصان ہوسکتا تھا، ایسے حالات میں حکومت نے فوج کے ذریعے مظاہرین کے رہنماؤں سے بات چیت کی اور ایک معاہدہ کے ذریعے مسئلہ کا پر امن حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے اور ختم نبوت کے معاملے پر قومی بحران خطرناک حدوں کو چھوتا ہوا بالا آخر ختم ہوگیا۔
دھرنے والوں اور حکومت کے درمیان ہونیوالے معاہدے پر عملیت پسندی کے حوالے سے بادی النظر میں بے شمار سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں لیکن ہیجانی صورتحال میں معاملے کی خاص حساسیت کے پیش نظر تنازع کا حل تلاش کیا جانا غیر معمولی بریک تھرو تھا، بعض تحفظات کے باوجود بھی اسے دیر آید درست آید کے طورپر بھی دانشمندانہ اقدام سے تعبیر کیا جانا چاہیے۔
اس سارے معاملے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی کہ حکومت کی بروقت اقدام کرنے کی صلاحیت بے حد کمزور ہو چکی ہے اور وہ انتشار کی کیفیت میں ہے، یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ اس معاملے کو اچھے انداز سے حل کرنے کی شروع دن سے کوشش ہی نہیں کی گئی۔
یہ معاملہ ایسا نہیں تھا کہ جسے آپریشن کے بغیر گفت و شنید سے حل نہ کیا جاسکتا ہو لیکن حکومت نے جوطرز عمل اختیار کیا اس نے معاملات کو خراب سے خراب تر کردیا۔ یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ حکمراں اور حکمراں جماعت میں اہلیت نام کی کوئی چیز نہیں، حکمراں جماعت پر ان کے سیاسی مخالفین کے ان الزامات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ حکومت ریاستی معاملات پر سنجیدگی سے توجہ دینے کے بجائے حکمراں خاندان کو احتساب سے بچانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اس بحران نے یہ بھی ثابت کردیا کہ حکمرانوں میں سوجھ بوجھ نام کی کوئی چیز نہیں ہے، ایسے ہی معاملات کے لیے یہ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے کہ سو پیاز بھی کھائے اور سو جوتے بھی۔ کیونکہ پہلے حکومت بضد تھی کہ ختم نبوت کے قانون یا حلف نامے میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے، جب زاہد حامد نے کوئی قصور کیا ہی نہیں ہے تو پھر وہ استعفیٰ کیوں دیں ؟ اور جب حالات کنٹرول سے باہر ہوگئے تو حکومت دھرنے والوں کی تمام شرائط مان گئی، دھرنا آپریشن کے دوران گرفتار افراد بھی چھوڑنے پڑے، زاہد حامد مستعفی ہوگئے، حکومت نقصانات بھی برداشت کرے گی اور راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ 30دن میں سامنے لائے گی۔
حکومت کی ناکامی کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت کہیں نظر نہیں آرہی ہے، گزشتہ دنوں نیشنل پارک میں واقع مارگلہ کے پہاڑوں میں درختوں کی بے دریغ کٹائی اور اسلام آباد کے زون 3 میں کی گئی غیر قانونی تعمیرات سے متعلق ازخودنوٹس کی سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے وزیر مملکت برائے کیپٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈویلپمنٹ ڈویژن طارق فضل چوہدری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ججز ڈنڈے لے کر مارگلہ کے پہاڑ خالی نہیں کرواسکتے، وفاق میں ریاست کی رٹ سب سے زیادہ ہوتی ہے، لیکن پاکستان میں وفاقی حکومت کہیں نظر ہی نہیں آرہی،بے احتیاطی حکومت کے لیے اچھی نہیں، سیاست کے علاوہ بھی حکومت کی کئی ذمے داریاں ہوتی ہیں، ناکامی ہوئی توآپ پر بہت سی انگلیاں اٹھیں گی اوربھی کئی معاملات میں احتیاط سے کام لیا کریں، کیاغیرقانونی تعمیرات ہٹانے کے لیے بھی حکومت اب کسی سے کوئی معاہدہ کریگی؟ آخرمیں آپ نے کہناہے کہ یہاں پر بھی فوج بلادیں، جو عوامی نمایندے اور سرکاری افسر کام نہیں کرسکتے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیں۔
دھرنا معاملہ پر بات صرف اتنی سی تھی کہ آج جس طرح نوازشریف اقا مہ پر نا اہل ہو نے کے بعد جگہ جگہ یہ سوال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا؟ اسی طرح فیض آباد کے مقام پر دھرنا دینے والے بھی تو یہی کہہ رہے تھے کہ ختم نبوت سے متعلق حلف نامہ کس کے کہنے پر اور کیوں تبدیل کرکے اپنی مرضی چلانے کی کوشش کی گئی، پھر سخت ردِ عمل کے نتیجے میں ترمیم کے بعد دوبارہ اصلی حالت میں لایا گیا؟ حلف نا مے کو اقرار نامہ بنا کر حکومتی وزراء نے اسے کلریکل غلطی قراردینے کی کوشش کس کے کہنے پر کی؟ بس یہی تو سوالات دھرنے والے حکومت سے پوچھنا چاہ رہے تھے اور ذمے داران کا تعین کرکے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے تھے۔
حالانکہ جب اس معاملے پر شور برپا ہوا تھا تو خود نواز شریف نے اعلان کیا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنائی جائے گی، ذمے داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف کارروائی کرینگے، پھر کمیٹی بھی بنی، اس کمیٹی نے کام بھی کیا اور رپورٹ بھی بنالی مگر وہ رپورٹ سامنے لاکر ذمے داران کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے چپ سادھ لی گئی اور یوں یہ معاملہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا گیا۔
بعض مبصرین کی رائے ہے کہ حکومت نے دھرنے سے نمٹنے کے لیے جان بوجھ کر تاخیری حربے استعمال کیے، کیونکہ حکومت خود یہ چاہتی تھی کہ اس معاملے کو طول دیا جائے تاکہ قوم کی توجہ نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف جاری مقدمات سے ہٹائی جاسکے، اس خیال کو یوں بھی تقویت ملتی ہے کہ اب جب کہ فوج کی معاونت سے قوم کو اس بحران سے نجات مل چکی ہے تو میاں نواز شریف برہم نظر آرہے ہیں، پارٹی کے مشاورتی اجلاس میں میاں صاحب نے دھرنے سے متعلق وزارت داخلہ کے اقدامات پر عدم اطمینان اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دھرنے کو درست انداز میں ہینڈل نہیں کیا گیا، دھرنے کے پیچھے کون تھا، معاہدے کے نکات کس نے طے کیے، ذمے داروں کا تعین کیا جائے۔
اس طرح کی باتوںسے یہی عیاں ہوتا ہے کہ حکمراں جماعت دھرنے کو طول دیکر اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اگر یہ معاہدہ اتنا برا ہے تو پھر وقت پر کوئی بہتر حل کیوں نہیں دیا گیا؟ حالانکہ حکومت کے پاس سب سے آسان حل یہی تھا کہ وہ وزیر قانون سے استعفیٰ لے لیتی اور پھر جب دھرنا ختم ہوجاتا اور معاملہ ٹھنڈا پڑ جاتا تو انھیں دوسرا قلمدان دیدیا جاتا، مگر ایسا کرنا تو درکنار سوچا بھی نہیں گیا۔
حرف آخر یہی ہے کہ اس سارے معاملے سے سیاسی و مذہبی جماعتوں اور عدلیہ نے کیا سبق سیکھا؟ معاہدہ ہوگیا دھرنا ختم ہوگیا مگر اس کے باوجود اس معاملہ پر سیاست کی جارہی ہے جو ملک کے لیے خطرناک ہوسکتی ہے، سیاسی رہنماؤں کی ذمے داری ہے کہ اس معاملہ میں ذمے داری دکھائیں، بلاشک و شبہ ختم نبوت عوام کے ایمان کا حصہ ہے، اس سارے واقعہ کا اصل سبق بھی یہی ہے کہ کوئی بھی حکومت اس طے شدہ معاملے کو نہ چھیڑے اور ختم نبوت کے حوالے سے جو قوانین بنائے جاچکے ہیں، ان پر پوری دیانتداری سے عمل کرے۔
یہ درست ہے کہ مہذب معاشروں میں اپنے حقوق کے لیے باہر نکلنا اورجدوجہد کرنا ہرشہری کا بنیادی اور جمہوری حق ہے لیکن راستے بند کرنا، اپنے ہی بھائیوں، بچوں اور بوڑھوں کو شدید زحمت و تکلیف میں مبتلا کرنا بھی درست نہیں، دھرنے والوں کا مطالبہ تو جائز تھا مگر دھرنے والوں نے لوگوں کا راستہ روک کر اچھی مثال قائم نہیں کی، نبی کریمﷺ کے نام پر لوگوں کو جو تکلیف دی گئی، وہ رسول اللہﷺ کی تعلیمات کے مطابق نہیں تھی۔
بہرحال اب یہ معاملہ مزید کسی خون خرابے کے بخیر خوش اسلوبی سے طے ہوگیا ہے تو کوشش کی جائے کہ مستقبل میں ایسی غلطیوں کا اعادہ نہ ہونے دیا جائے جو قوم کو خلفشار میں مبتلا کرسکیں ، آیندہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو پارلیمان میںایسا قانون بنانے کے لیے تعاون کرنا چاہیے کہ سڑکوں کی بندش چاہے وہ بطور احتجاج ہو یا پھر سیکیورٹی پروٹوکول خلافِ قانون اور قابلِ سزا اقدام قرار دی جائے۔