بی جے پی کے مذموم عزائم اور کرتوت
مودی کے دور حکمرانی میں آر ایس ایس اپنی شاخوں کے ذریعے اپنے ہندوتوا کے نظریے کو بڑھاوا دینے میں مصروف ہے۔
نوٹ بندی کے فیصلے کو درست قرار دینے والی مودی سرکار کے پیروں کے نیچے سے زمین نکلتی جارہی ہے۔ بھارت کی ترقی کی شرح 7 فیصد سے گھٹ کر اب 5.7 رہ گئی ہے۔ ترقی کی شرح میں 2 فیصد کمی ملک کا بہت بڑا اقتصادی خسارہ ہے۔
اپوزیشن کانگریس اب اسی ایشو پر مودی سرکار کو گھیر رہی ہے، بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں کانگریس کے ڈپٹی لیڈر اور سابق مرکزی وزیر آنند شرما نے گزشتہ دنوں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پردھان منتری نریندر مودی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہاکہ ڈاکٹر منموہن سنگھ اگر ''ارتھ شاستری'' (ماہر اقتصادیات) ہیں تو نریندر مودی ''پرچار شاستری'' (ماہر پروپیگنڈا) ثابت ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ بھارت کی GDP گزشتہ 6سہ ماہیوں سے لگاتار کم ہورہی ہے لیکن پردھان منتری مسلسل یہ پرچار کررہے ہیں کہ بھارت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ درحقیقت یہ ترقی معکوس ہے۔ انھوں نے کہاکہ مودی کے حکم پر دیش میں ایسے فیصلے ہورہے ہیں جن سے عوام میں روز بروز ناامیدی اور مایوسی پیدا ہورہی ہے۔
آنند شرما نے کہاکہ مودی سرکار کے چوتھے سال میں اس کے کیے دھرے کی اصل تصویر عوام کی آنکھوں کے سامنے آگئی ہے۔ ہزاروں، کروڑوں روپے صرف نام نہاد ترقی کے پرچار پر خرچ کیے جاچکے ہیں اور بھارتی جنتا کی آنکھوں میں دھول پر دھول جھونکی جارہی ہے۔ آخر جھوٹ بولنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، لگتا ہے کہ مودی کے اندر ڈاکٹر گوئبلز کی روح سما گئی ہے۔
کانگریس ترجمان نے مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہاکہ مودی کی حکمرانی میں سرمایہ کاری زوال پذیر ہورہی ہے لیکن اس کے باوجود مودی سرکار زمین و آسمان کی قلابے ملارہے ہیں اور جھوٹ پر جھوٹ بولے جارہے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے تین سال میں روزگار کے پانچ لاکھ مواقع بھی پیدا نہیں ہوئے جب کہ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر سال 3 کروڑ نئی نوکریاں دی جائیںگی۔
بھارت کی ''عام آدمی پارٹی'' نے بھی مودی سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ پارٹی ترجمان دلیپ پانڈے نے مودی سرکار کے نوٹ بندی کے اقدام کو ایک بہت بڑا ''گھوٹالہ'' قرار دیا ہے، انھوں نے کہاکہ مودی سرکار نے نئے نوٹ چھاپنے کا کام ایک بلیک لسٹیڈ کمپنی کو سونپ کر دیش کے ساتھ غداری کی ہے۔ انھوں نے اس غلط اقدام پر مودی اور بے جے پی سے عوام کے سامنے معافی مانگنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ادھر انتہاپسند تحریک آر ایس ایس کی کوکھ سے جنم لینے والی بھارت کی حکمران سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی سرکار ''ہندوتوا''کے اپنے دیرینہ ایجنڈے کو زیادہ سے زیادہ اور جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کے لیے نت نئی کوششیں کرنے میں مصروف ہے۔
اس سلسلے میں اس نے وہی راستہ اختیار کیا ہے جو برصغیر میں برطانوی تہذیب و تمدن کے فروغ کے لیے لارڈ میکالے نامی انگریز نے اختیار کیا تھا، یعنی تعلیمی نظام اور نصاب کی تبدیلی۔ چنانچہ آر ایس ایس (RSS) کی نگرانی میں کام کرنے والی تعلیمی انجمن ''شکشا سنسکرتی اتھان تیاس'' نے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (NCRT)کے سامنے سفارشات پیش کی ہیں کہ نصاب سے نہ صرف انگریزی، اردو اور عربی و فارسی کے الفاظ کو خارج کردیا جائے بلکہ رابندر ناتھ ٹیگور کے خیالات بلکہ نامور مصور ایم ایف حسین کی سوانح حیات کے اقتباسات بھی نکال دیے جائیں، اس کے علاوہ ہندوستان کے مغل بادشاہوں کو ہندوستان کا خیر خواہ بتانا بھی بند کیا جائے۔
علاوہ ازیں 1984 کے فسادات پر سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کے معافی نامے اور اس میں شامل اس جملے کو بھی نکال دیا جائے جس میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا ہے کہ مودی کے صوبے گجرات کے مسلم کش فسادات میں تقریباً 2 ہزار معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا۔ یہ نفرت آمیز اور تعصب آلودہ سفارشات ہندوتوا کے اس ایجنڈے کا حصہ ہیں جس کے تحت ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی مہم کو مودی سرکار کے موجودہ دور میں عملی جامہ پہنانے کی گھناؤنی کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اس وقت ہمیں ایک واقعہ یاد آرہاہے جو مختصراً یوں ہے کہ ہمارے ایک عزیز جب ہندوستان کے ایک اسکول میں تعلیم حاصل کرنے والے اپنے بیٹے سے ملاقات کے لیے صبح کے وقت گئے تو وہاں اسکول کے تمام بچے پرارتھنا (دعا) میں مصروف تھے جس کے الفاظ یہ تھے: ''بندا ہمیں بنادے رام... چھوٹی پونچھ لگادے رام''۔ اس پرارتھنا کے ڈانڈے بندروں کے سردار ہنومان سے جاکر ملتے ہیں جس نے ہندو دیومالائی روایت کے مطابق رام چندر جی کی فوج میں شامل ہوکر راون کے خلاف لنکا پر چڑھائی کی تھی، اس واقعے سے انتہاپسند ہندوؤں کے مکروہ عزائم کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
مودی کے دور حکمرانی میں آر ایس ایس اپنی شاخوں کے ذریعے اپنے ہندوتوا کے نظریے کو بڑھاوا دینے میں مصروف ہے اس مقصد کی تکمیل کے لیے اس نے بھارت کی یونیورسٹیوں اور ریسرچ اداروں کے اعلیٰ مناصب پر اپنے حامیوں کو تعینات کرنا شروع کردیا ہے۔
این ڈی اے (NDA) کی قیادت میں بی جے پی کی سابقہ حکومت نے ''پروہیتیا'' اور ''کرماکنڈ'' جیسے کورسز شروع کرکے اسکولوں پڑھائی جانے والی کتابوں کو زعفرانی کرنے کا کام پہلے ہی شروع کردیا تھا، تاہم گزشتہ چند برسوں میں قدیم قرون وسطیٰ اور جدید ہندوستانی تاریخ پر ہندوتوا کی چھاپ لگانے کے کام میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
آر ایس ایس کے لیڈران وزارت برائے انسانی وسائل اور ترقی سے رابطہ کرکے ملک کے تعلیمی نظام کو اپنے نقطۂ نظر کے سانچے میں ڈھالنے میں مشغول ہیں۔ اس کے لیے یہ بہانہ تراشا گیا ہے کہ تعلیمی نظام میں یہ تبدیلیاں گلوبلائزیشن اور نجکاری کو مدنظر رکھ کر کی جارہی ہیں۔ بنیادی مقصد یہ ہے کہ نصابی کتابوں میں برہمنوں کے نظریات کو شامل کیا جائے اور فروغ دیا جائے تاکہ بھارت کی آنے والی نسلوں کی سوچ کو تبدیل کردیا جائے۔
آر ایس ایس کے لیڈروں کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے اور اب نئی نسل کو بھارت کی اہم اور اصل تاریخ سے روشناس کرنے کا وقت آگیا ہے چنانچہ اب''پروجیکٹ بھارتیہ کرن'' یعنیIndianization پر عمل درآمد کیا جائے گا۔ حالیہ واقعات سے صاف ظاہر ہے کہ آر ایس ایس کے رضاکار بھارت کے تعلیمی نظام کو مکمل طور پر تبدیل کرنے کے لیے سرگرم ہوچکے ہیں۔ کئی جگہوں پر تاریخ اور معاشرتی علوم و دیگر کتابوں کے نصاب بھی تبدیل کیے جاچکے ہیں۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے قبل ہی دائیں محاذ کو اندازہ ہوگیا تھا کہ انتہاپسندی کی لہر میں مودی دیش کی باگ ڈور سنبھال لیںگے، اسی لیے اس نے تعلیمی نظام میں تبدیلی کی رفتار تیز کردی تھی یہی وجہ ہے کہ ''شکشا بچاڈا بھاتی میتھی'' کے دیتا ناتھ بترا اور آر ایس ایس شکشا سنسکرتی اتھان تیاس دنیا کے بڑے پبلشرز Penguin پر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ وہ "The Hindu: An Alternative History" نامی کتاب کو شایع کرے۔
تعصب پسند دیتا ناتھ بترا کی ترتیب دی ہوئی، 9 کتابیں گجراتی زبان میں ترجمہ کرکے بھارت کی ریاست گجرات میں جوکہ مودی کا گڑھ ہے، 42 ہزار اسکولوں میں پڑھائی جارہی ہیں۔ ان کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ آر ایس ایس بانی بزرگ اور اس کے حامی لوگ ہی بھارت کے اصل باشندے اور وارث ہیں ، ان کتابوں میں موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی قدیم تاریخ کو بھی مسخ کرکے پیش کیا گیا ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ قطب مینار کا اصل نام رشنو استمبھ ہے جسے مدو پت نے تعمیر کرایا تھا، شیواجی اور افضل خان، اکبر اور رانا پرتاب اور گرو گوند سنگھ اور اورنگزیب عالمگیر کے درمیان لڑی گئی جنگوں کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔ ان تمام کتابوں میں تعصب کے شعلوں کو بھڑکانے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔
اپنی پے در پے ناکامیوں اور اپنی تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ کی جانب سے بھاری جنتا کی توجہ ہٹانے کے لیے بے جی پی کی قیادت ہر ممکن حربہ استعمال کررہی ہے، اس کا تازہ ترین حربہ بھارت کی فوج ہے، جسے مودی سرکار اب اپنے بچاؤ کے لیے سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کررہی ہے۔ مودی نے کئی سینئر جرنیلوں کو نظر انداز کرکے اپنے من پسند جرنیل بپن راوت کو پروموشن دے کر اسی لیے فوج کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
مودی سرکار کی اس پالیسی کو بھارت کے سیاسی حلقوں میں گہری تشویش کی نظروں سے دیکھا جارہا ہے، کیونکہ یہ بھارت کی جمہوری روایت سے انحراف کے مترادف ہے۔ جنرل راوت نے جب سے بھارتی فوج کی کمان سنبھالی تب ہی سے وہ بی جے پی کی حکومت پر پے در پے سیاسی بیانات دے رہے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے تو ان کی زبان بے لگام ہوچکی ہے۔