رشوت پر سرکاری ملازمتوں کا اعتراف

سندھ کے وزیر بلدیات بھی اپنے محکمے کے اداروں میں گھوسٹ ملازمین کی بڑی تعداد میں موجودگی کا اعتراف کرچکے ہیں۔

سندھ میں پیپلز پارٹی کی 2008 میں اقتدار میں آنے والی حکومت کے دور سے پی پی کے مخالفین ہی نہیں بلکہ پی پی کے جیالے بھی جو احتجاج کرتے آرہے تھے وہ محض پروپیگنڈہ نہیں تھا، بلکہ وہ الزامات کہ سندھ میں وزیر اور افسران سرکاری ملازمتیں فروخت کر رہے ہیں، حقیقت تھا، جو اب سندھ کے وزیر تعلیم جام مہتاب کے برملا اعتراف کے بعد سو فیصد سچ ثابت ہوگیا ہے۔

سندھ کے وزیر بلدیات بھی اپنے محکمے کے اداروں میں گھوسٹ ملازمین کی بڑی تعداد میں موجودگی کا اعتراف کرچکے ہیں اور سندھ کا محکمہ صحت بھی اس سے محفوظ نہیں ہے۔ ہر حکومت میں تعلیم، صحت اور بلدیات ایسے سرکاری محکمے ہیں جہاں ملازمین کی تعداد سیکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہوتی ہے، جہاں گھر بیٹھے سرکاری تنخواہیں وصول کرنے والے سرکاری ملازمین بڑی تعداد میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ سیاسی جماعتوں میں سرگرم کارکنوں کی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ سرکاری ملازمت میں آکر سیاست کرنا ہی نہیں بلکہ صحافت سے منسلک ہونا بھی سخت منع ہے۔

سندھ کے وزیر تعلیم جام مہتاب نے حکومت میں ہوتے ہوئے جس جرأت مندانہ بیان کا اظہار کیا ہے ایسے بیانات عام طور پر سابق ہونے کے بعد دیے جاتے ہیں، جنھیں برسر اقتدار نہ ہونے کی وجہ سے اہمیت نہیں ملتی اور سیاسی الزام کہا جاتا ہے۔ وزیر تعلیم سندھ نے کہا ہے کہ محکمہ تعلیم میں جعلی ملازمین موجود ہیں، جو حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ وزیر تعلیم کا احتجاج کرنے والوں کو جعلی کہنا بھی غلط ہے کیونکہ وہ لاکھوں روپے رشوت دے کر بھرتی ہوئے تھے۔

وزیر تعلیم کے مطابق 2012 میں پی پی حکومت میں ہی محکمہ تعلیم میں آسامیاں نہ ہونے کے باوجود 23 ہزار اساتذہ بھرتی کیے گئے تھے اور اسی وقت پیر مظہر الحق وزیر تعلیم ہی نہیں بلکہ سندھ کے سینئر وزیر بھی تھے اور جام مہتاب بھی سندھ حکومت کا حصہ تھے مگر انھوں نے یا پردہ پوشی کی تھی یا انھیں ان بھرتیوں کا علم نہیں تھا، جو انھیں 5 سال بعد معلوم ہوا تو انھوں نے لاکھوں روپے رشوت دے کر محکمہ تعلیم میں بطور استاد بھرتی ہونے والوں کو اب جعلی اساتذہ قرار دیا ہے، مگر رشوت لے کر بھرتی کرنے والوں کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ کسی کی مذمت کی، جنھوں نے لاکھوں روپے رشوت وصول کی اور آسامیاں نہ ہونے کے باوجود 23 ہزار اساتذہ بھرتی کیے تھے جو اب 5 سال سے تنخواہیں نہ ملنے پر احتجاج کر رہے ہیں اور سڑکوں پر آکر حکومتی تشدد کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں۔


سندھ کے وزیر بلدیات جام خان شورو یہ تو الزام لگاتے آرہے ہیں کہ ایم کیو ایم کے ناظمین نے اپنے اداروں میں ہزاروں کی تعداد میں گھوسٹ ملازمین بھرتی کیے تھے جو ڈیوٹیاں دینے کے بجائے گھر بیٹھے ایم کیو ایم کے لیے کام کیا کرتے تھے اور سرکاری تنخواہ وصول کرتے تھے۔

ایم کیو ایم کے ناظموں نے اپنے کارکنوں کو بلاشبہ نوکریاں دی تھیں اور آسامیاں نہ ہونے کے باوجود بھرتی کیا گیا تھا مگر وزیر بلدیات سندھ یا کسی پی پی رہنما نے یہ الزام نہیں لگایا کہ ان ناظمین نے رشوت لے کر یہ ملازمتیں دی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے وزیروں پر پی پی مخالفین ہی نہیں بلکہ پی پی کے جیالے بھی پارٹی اجلاسوں اور حکومتی کھلی کچہریوں میں بھی یہ الزام لگایا کرتے تھے کہ صوبائی وزرا سرکاری ملازمتیں فروخت کر رہے ہیں۔

جس کی شکایتیں سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ سے بھی متعدد بار کی گئی اور حیدرآباد میں تو اس سلسلے میں کئی بار ہنگامہ آرائی بھی ہوئی تھی مگر ان الزامات کو غلط قرار دے کر کبھی کسی وزیر کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی اور اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کبھی کارکنوں کے قریب آتے ہی نہیں تھے اور بڑے لوگ اپنے بڑے لوگوں کی شکایتیں کبھی صدر زرداری تک پہنچاتے ہی نہیں تھے اور صدر زرداری کے قریب پانچ سال میں سب کچھ اچھا اور سندھ حکومت بہترین حکومت تھی جس کے انتہائی وفادار اور نام کے وزیراعلیٰ کو 2013 میں بھی دوبارہ وزیراعلیٰ بنایا گیا، مگر قائم علی شاہ رشوت کے الزام سے بھی محفوظ رہے مگر نو سال سے وزیروں پر مسلسل الزامات لگ رہے ہیں۔

دادو سے تعلق رکھنے والے سندھ کے سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے خلاف نیب میں تحقیقات بھی جاری ہیں اور دادو ہی کے ایک سرکاری اسکول کے ایک نائب قاصد کا یہ اقدام سندھ کی حکومت پیپلز پارٹی اور خصوصاً پیر مظہر کے لیے ایک طمانچے سے کم نہیں کہ مذکورہ قابل احترام اور امیروں کے لیے قابل تقلید نائب قاصد جس کے اسکول میں طلبا کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر موجود نہیں تھا، اس قدر تعلیم دوست اور حساس ثابت ہوا کہ اس نے اپنی ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم سے فرنیچر خریدا اور اپنے اس اسکول کے حوالے کردیا جہاں وہ ریٹائر ہونے تک طلبا کو زمین پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے ہوئے دیکھتا رہا اور اس سے تعلیم کی یہ تذلیل برداشت نہ ہوئی اور ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم جو ہر سرکاری ملازم کی باقی زندگی کا اثاثہ ہوتی ہے وہ اس نے اپنے بچوں کے مستقبل کو سنوارنے کے بجائے مستقبل کے تعلیمی معماروں پر خرچ کردی۔

تعلیمی پسماندگی صرف سندھ کا نہیں پورے ملک کا مسئلہ ہے جہاں تعلیم تجارت بنی ہوئی ہے اور نجی اسکولوں کے اکثر مالکان تعلیم فروخت کرکے کروڑ پتی نہیں بلکہ ارب پتی بن چکے ہیں، کیونکہ نجی اسکولوں میں ہر سہولت رقم کے عوض ملتی ہے جتنی زیادہ اسکول کی فیس ہوگی وہاں امیروں کے بچے اچھے فرنیچر پر اور سرکاری اسکولوں کے غریب طلبا زمین پر کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرتے نظر آئیں گے۔
Load Next Story