خود احتسابی کا عمل
معاشرہ فرد سے وابستہ ہے نہ کہ فرد معاشرہ سے، ہم سب مل کر معاشرہ کہلاتے ہیں، ہم اچھے ہوں گے تو معاشرہ اچھا ہوگا
سچ یہ ہے کہ خوشحالی کے لیے مستحکم نظام ناگزیر ہے اور نظام کو مستحکم کرنے کے لیے بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کا خاتمہ لازم ہے جب کہ ہمارے یہاں الف سے ی تک صورت حال مایوس کن ہے اس حقیقت سے ہم سب بخوبی آگاہ ہیں کہ دولت مند ، سرکاری ٹھیکے دینے والے اور وسائل کی تقسیم کے ذمے دار بھاری رشوتیں لیتے ہیں ۔ اصلاح احوال کے لیے اس امر کا باربار اظہار کیا جاتا ہے کہ کرپشن ختم کرکے عوام کو فائدہ پہنچائیں گے، اداروں کے سربراہ ایمانداری کا مظاہرہ کریں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ خربوزہ ، خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے نچلی سطح کے ملازمین اوپری سطح کے افسران کی پیروی کرکے اپنا حصہ طلب کرتے ہیں جو دراصل بڑے صاحب تک پہنچنے کے لیے پہلا زینہ ہوتا ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ہر ایک حکومت کا اپنا احتساب کا طریقہ کار رہا ہے لیکن یہ کہنا مشترک تھا کہ غیر جانب دار احتساب کیا جارہا ہے ۔
کیا تیکنیک ہے واہ ، ہر حکومت میں شروع دنوں میں جس انداز سے بے لاگ احتساب کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے اس سے قوم کا حکمرانوں پر اعتماد بحال ہونا شروع ہوجاتا ہے اور قوم کا مورال جو نامناسب حکمرانوں اور اور ان کی قومی پالیسیوں سے سطح زمین سے بھی کہیں اندر دھنس چکاہوتا ہے ، باہر آنے لگتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پھر سب کچھ وہی ہوتا رہتا ہے جو ھمیشہ سے ہوتا آیا ہے یعنی مل بیٹھ کر کھانا ۔تم مجھے مت چھیڑو میں تجھے نہ چھڑوں والی بات ہوتی ہے ۔ مشرف والی حکومت احتساب کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھی۔
27، 27سال سزا کا حکم پانے والا معزول وزیر اعظم تمام تر سزاؤں سے بچ کر آرام کے ساتھ سعودی عرب میں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ زندگی بسر کرتے ہیں اور کچھ عرصے بعد حالات انھیں پھر قومی سیاست میں متحرک کردیتے ہیں ، یہیں سے احتساب کے ایک انوکھے انداز کا آغاز ہوتا ہے جسے ( ڈیل ) کی اصطلاح حاصل ہوتی ہے ۔ جس کے تحت پکڑ دھکڑ کے ذریعے لوٹا گیا قومی خزانہ بھراجاتا رہا ہے جس سے یہ تاثر جڑ پکڑ چکا ہے کہ جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹو ، لیکن پکڑے جانے کی صورت میں لوٹا ہوا مال واپس کرنا ہوگا اور اگر بدعنوانی کے ذریعے حاصل کی گئی رقم جمع نہیں کرائی تو سلاخوں کے اس پار رہنا ہوگا اور اگر یہ کالا دھن لوٹا دیا گیا تو سلاخوں کے اس پار کمرے میں بند ہونا نہیں پڑے گا صرف ایک سرٹیفکیٹ ( نا اہلیت ) کا حاصل کر کے ملک یا بیرون ملک میں کھلی فضا میں آزاد گھوم پھر سکتے ہو ۔
اس فارمولے کے تحت جنھوں نے ادائیگیاں کیں انھیں آزاد چھوڑ دیا گیا اور جو ادائیگیوں سے محروم رہے انھیں اندر کردیا گیا ، نااہل قرار دیا گیا ۔ یہاں بے قاعدگی یہ ہوئی کہ جنھوں نے ادائیگیاں تو کیں لیکن وہ نااہلیت کی سند جیسی سزا سے نہ صرف بچ گئے بلکہ انھیں معتبر بناکر حکومت کا حصہ بنا دیا گیا ۔ میاں محمد نواز شریف جو معزول ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بن گئے تھے وہ ایک مرتبہ پھر نااہل قرار دیے گئے ہیں، آگے ان کی قسمت کہ وہ پھر سے وزیر اعظم بن سکتے ہیں کہ نہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ البتہ یہاں کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا ہے ۔ پچھلے ادوار میں چونکہ ہر بد عنوانی پر ادائیگی نہیں کرنی پڑتی تھی کیونکہ سب کا مقصد ایک ہی تھا کہ ، خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھانے دو والی بات تھی اس لیے احتساب کا نعرہ صرف نمائشی ہوا کرتا تھا یا پھر اپنے کسی سیاسی مخالفین کو اندر کرنے ، ہراساں کرنے اور بدنام کرنے کے لیے ایکشن لیا جاتا تھا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دور میں سرکاری اداروں کے 80فیصد ماتحت کے پیٹ کسی خزانے سے کم نہیں اور یہی وہ پرزے ہیں جو حکومتی نظام کو بلڈوز بھی کرسکتے ہیں اور چاہیں تو اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے مستحکم بھی کرسکتے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں بد عنوان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کا سوال ہی عبث ہے اور کرپشن کا خاتمہ کرکے عوام کو فائدہ پہنچانے کی باتیں ایک سہانا خواب لگتا ہے ، جب آنکھ کھلتی ہے تو معاملہ جوں کا توں ہوتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں وسیع پیمانے پر بد عنوانیوں کے سبب دیانت داری اور اخلاقی قدریں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ختم ہورہی ہیں۔
زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں بدعنوانی اور بے قاعدگی کا زہر سرا ئیت نہ کرچکا ہو ہمارا معاشرہ مادیت پرست ہوچکا ہے ۔ رشوت کی برائی اس قدر حوصلہ افزائی حاصل کررہی ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اسے قانونی شکل دینے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ اگر سچی لگن کے ساتھ بلا امتیاز غیر جانبدارانہ طور پر معاشرہ سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں رہا تو ڈر ہے آنے والے وقتوں میں رشوت کو قانونی شکل دے کر بدعنوان افسران اور دیگر چھوٹے ملازمین کو ( ایکسٹرا سروس چارجز ) کے نام پر رشوت لینے کی اجازت دے دی جائے گی جس کا اطلاق پرائیویٹ سیکٹر پر بھی لاگو ہوگا۔
اس طرح سرکاری افسران میں صحت مند مقابلے کے ذریعے رشوت کا ریٹ کم کرنے میں مدد ملے گی اور عوام ، افسران کو ایکسٹرا سروس چارجز ادا کرکے آسانی سے اپنے کام کراسکیں گے ۔ ایسی باتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے شعور و آگہی کے نام پر ہر سطح پر شور برپا کیا جاسکتا ہے اور اس حوالے سے بہت کم محنت کی جاسکتی ہے کیونکہ پورا معاشرہ کرپشن کی زد میں اس طرح آچکا ہے کہ کرپشن کو معاشرے سے نکالنے والے خود معاشرے سے الگ ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ یہ باتیں مایوس کن ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جس کا اندازا ہم سب روز مرہ زندگی میں لگا سکتے ہیں جہاں محنت کی تنخواہ کا چیک دینے کے لیے بھی رشوت طلب کی جاتی ہے۔ کتنے پست ہیں وہ لوگ جو دوسروں کی محنت کی کمائی پر نظر رکھتے ہیں ۔آئے روز میڈیا میں کرپشن کے حوالے سے خبریں رپورٹ ہوتی ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی بڑا راشی گرفت میں آتا ہو البتہ اس ضمن میں نچلی سطح کے ملازمین کی باز پرس ہوتی ہے جو ایک طرح کی خانہ پوری ہی ہوتی ہے تاکہ معاملے کو سرد خانہ کی نذرکیا جاسکے ۔ جس معاشرے میں راشیوں کو شریف اور معزز کہہ کر ان کی عزت کی جاتی ہو ایسے معاشرے کو تباہی و بربادی سے بچایا نہیں جاسکتا۔
کیا ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چل کر ہم ایک مضبوط قوم بن سکتے ہیں ؟ کیا اس راہ پر چل کر ہم تکمیل پاکستان کرسکتے ہیں ؟ یقیناً نہیں ! تو پھر اس اندھیرے میںقوم کو کیوں ترقی کی جھوٹی تسلیاں دی جارہی ہیں ؟ کیوں انھیں اس حقیقت سے روشناس نہیں کیا جارہا ہے کہ چھوٹے بڑے مگر مچھ مل کر کرپشن کی کلہاڑی سے ملک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں ۔ اس ضمن میں جو کچھ نظر آرہا ہے وہ صرف شیر کی کھال ہے ، کھال کے اندر بھوسا بھر دیا گیا ہے۔
اس تناظر میں پورا معاشرہ بدعنوانی جیسے جرائم میں مبتلا نظر آرہا ہے اور جو گنے چنے شرفاء ہیں وہ بھی اپنی بقاء کے لیے کرپشن اور مجبوری کا عنوان بنے ہوئے ہیں ۔ ہم اپنی کوتائیوں اور لاپروائیوں کی سزا مثبت معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں بھگت رہے ہیں اور ایک دوسرے سے معاشرے کی برائیوں کا ذکر کرکے ہم یہ نہیں سوچتے کہ معاشرہ میں خود ہمارا اپنا کردار کیا ہے ؟ خود احتسابی کا عمل ایک ایسا آسان طریقہ ہے جس پر عمل کرکے ہم ایک مثبت معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں۔
معاشرہ فرد سے وابستہ ہے نہ کہ فرد معاشرہ سے ۔ ہم سب مل کر معاشرہ کہلاتے ہیں۔ ہم اچھے ہوں گے تو معاشرہ اچھا ہوگا ، معاشرہ بہتر ہوگا تو ہمارا ملک بھی اچھا کہلائے گا یعنی خوشحال ہوگا لیکن اس خوشحالی کے لیے دیانت داری اولین تقاضا ہے اور دیانت داری ڈنڈے کے زور پر نہیں بلکہ خود احتسابی کے عمل سے فروغ پاتی ہے ۔ آئیے ! ہم سب خود احتسابی کا عمل اپناتے ہیں ۔
امر واقعہ یہ ہے کہ خربوزہ ، خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے نچلی سطح کے ملازمین اوپری سطح کے افسران کی پیروی کرکے اپنا حصہ طلب کرتے ہیں جو دراصل بڑے صاحب تک پہنچنے کے لیے پہلا زینہ ہوتا ہے۔ تعجب خیز بات یہ ہے کہ ہر ایک حکومت کا اپنا احتساب کا طریقہ کار رہا ہے لیکن یہ کہنا مشترک تھا کہ غیر جانب دار احتساب کیا جارہا ہے ۔
کیا تیکنیک ہے واہ ، ہر حکومت میں شروع دنوں میں جس انداز سے بے لاگ احتساب کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے اس سے قوم کا حکمرانوں پر اعتماد بحال ہونا شروع ہوجاتا ہے اور قوم کا مورال جو نامناسب حکمرانوں اور اور ان کی قومی پالیسیوں سے سطح زمین سے بھی کہیں اندر دھنس چکاہوتا ہے ، باہر آنے لگتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ پھر سب کچھ وہی ہوتا رہتا ہے جو ھمیشہ سے ہوتا آیا ہے یعنی مل بیٹھ کر کھانا ۔تم مجھے مت چھیڑو میں تجھے نہ چھڑوں والی بات ہوتی ہے ۔ مشرف والی حکومت احتساب کے حوالے سے اپنی مثال آپ تھی۔
27، 27سال سزا کا حکم پانے والا معزول وزیر اعظم تمام تر سزاؤں سے بچ کر آرام کے ساتھ سعودی عرب میں اپنے اہل و عیال کے ہمراہ زندگی بسر کرتے ہیں اور کچھ عرصے بعد حالات انھیں پھر قومی سیاست میں متحرک کردیتے ہیں ، یہیں سے احتساب کے ایک انوکھے انداز کا آغاز ہوتا ہے جسے ( ڈیل ) کی اصطلاح حاصل ہوتی ہے ۔ جس کے تحت پکڑ دھکڑ کے ذریعے لوٹا گیا قومی خزانہ بھراجاتا رہا ہے جس سے یہ تاثر جڑ پکڑ چکا ہے کہ جتنا لوٹ سکتے ہو لوٹو ، لیکن پکڑے جانے کی صورت میں لوٹا ہوا مال واپس کرنا ہوگا اور اگر بدعنوانی کے ذریعے حاصل کی گئی رقم جمع نہیں کرائی تو سلاخوں کے اس پار رہنا ہوگا اور اگر یہ کالا دھن لوٹا دیا گیا تو سلاخوں کے اس پار کمرے میں بند ہونا نہیں پڑے گا صرف ایک سرٹیفکیٹ ( نا اہلیت ) کا حاصل کر کے ملک یا بیرون ملک میں کھلی فضا میں آزاد گھوم پھر سکتے ہو ۔
اس فارمولے کے تحت جنھوں نے ادائیگیاں کیں انھیں آزاد چھوڑ دیا گیا اور جو ادائیگیوں سے محروم رہے انھیں اندر کردیا گیا ، نااہل قرار دیا گیا ۔ یہاں بے قاعدگی یہ ہوئی کہ جنھوں نے ادائیگیاں تو کیں لیکن وہ نااہلیت کی سند جیسی سزا سے نہ صرف بچ گئے بلکہ انھیں معتبر بناکر حکومت کا حصہ بنا دیا گیا ۔ میاں محمد نواز شریف جو معزول ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم بن گئے تھے وہ ایک مرتبہ پھر نااہل قرار دیے گئے ہیں، آگے ان کی قسمت کہ وہ پھر سے وزیر اعظم بن سکتے ہیں کہ نہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ البتہ یہاں کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا ہے ۔ پچھلے ادوار میں چونکہ ہر بد عنوانی پر ادائیگی نہیں کرنی پڑتی تھی کیونکہ سب کا مقصد ایک ہی تھا کہ ، خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھانے دو والی بات تھی اس لیے احتساب کا نعرہ صرف نمائشی ہوا کرتا تھا یا پھر اپنے کسی سیاسی مخالفین کو اندر کرنے ، ہراساں کرنے اور بدنام کرنے کے لیے ایکشن لیا جاتا تھا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دور میں سرکاری اداروں کے 80فیصد ماتحت کے پیٹ کسی خزانے سے کم نہیں اور یہی وہ پرزے ہیں جو حکومتی نظام کو بلڈوز بھی کرسکتے ہیں اور چاہیں تو اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے مستحکم بھی کرسکتے ہیں ۔ ایسی صورت حال میں بد عنوان عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کا سوال ہی عبث ہے اور کرپشن کا خاتمہ کرکے عوام کو فائدہ پہنچانے کی باتیں ایک سہانا خواب لگتا ہے ، جب آنکھ کھلتی ہے تو معاملہ جوں کا توں ہوتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں وسیع پیمانے پر بد عنوانیوں کے سبب دیانت داری اور اخلاقی قدریں انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ختم ہورہی ہیں۔
زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں بدعنوانی اور بے قاعدگی کا زہر سرا ئیت نہ کرچکا ہو ہمارا معاشرہ مادیت پرست ہوچکا ہے ۔ رشوت کی برائی اس قدر حوصلہ افزائی حاصل کررہی ہے کہ اس کے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے اسے قانونی شکل دینے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ اگر سچی لگن کے ساتھ بلا امتیاز غیر جانبدارانہ طور پر معاشرہ سے کرپشن کا خاتمہ ممکن نہیں رہا تو ڈر ہے آنے والے وقتوں میں رشوت کو قانونی شکل دے کر بدعنوان افسران اور دیگر چھوٹے ملازمین کو ( ایکسٹرا سروس چارجز ) کے نام پر رشوت لینے کی اجازت دے دی جائے گی جس کا اطلاق پرائیویٹ سیکٹر پر بھی لاگو ہوگا۔
اس طرح سرکاری افسران میں صحت مند مقابلے کے ذریعے رشوت کا ریٹ کم کرنے میں مدد ملے گی اور عوام ، افسران کو ایکسٹرا سروس چارجز ادا کرکے آسانی سے اپنے کام کراسکیں گے ۔ ایسی باتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے شعور و آگہی کے نام پر ہر سطح پر شور برپا کیا جاسکتا ہے اور اس حوالے سے بہت کم محنت کی جاسکتی ہے کیونکہ پورا معاشرہ کرپشن کی زد میں اس طرح آچکا ہے کہ کرپشن کو معاشرے سے نکالنے والے خود معاشرے سے الگ ہوسکتے ہیں۔
اگرچہ یہ باتیں مایوس کن ہیں لیکن حقیقت یہی ہے جس کا اندازا ہم سب روز مرہ زندگی میں لگا سکتے ہیں جہاں محنت کی تنخواہ کا چیک دینے کے لیے بھی رشوت طلب کی جاتی ہے۔ کتنے پست ہیں وہ لوگ جو دوسروں کی محنت کی کمائی پر نظر رکھتے ہیں ۔آئے روز میڈیا میں کرپشن کے حوالے سے خبریں رپورٹ ہوتی ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی بڑا راشی گرفت میں آتا ہو البتہ اس ضمن میں نچلی سطح کے ملازمین کی باز پرس ہوتی ہے جو ایک طرح کی خانہ پوری ہی ہوتی ہے تاکہ معاملے کو سرد خانہ کی نذرکیا جاسکے ۔ جس معاشرے میں راشیوں کو شریف اور معزز کہہ کر ان کی عزت کی جاتی ہو ایسے معاشرے کو تباہی و بربادی سے بچایا نہیں جاسکتا۔
کیا ایسے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں چل کر ہم ایک مضبوط قوم بن سکتے ہیں ؟ کیا اس راہ پر چل کر ہم تکمیل پاکستان کرسکتے ہیں ؟ یقیناً نہیں ! تو پھر اس اندھیرے میںقوم کو کیوں ترقی کی جھوٹی تسلیاں دی جارہی ہیں ؟ کیوں انھیں اس حقیقت سے روشناس نہیں کیا جارہا ہے کہ چھوٹے بڑے مگر مچھ مل کر کرپشن کی کلہاڑی سے ملک کی جڑیں کاٹ رہے ہیں ۔ اس ضمن میں جو کچھ نظر آرہا ہے وہ صرف شیر کی کھال ہے ، کھال کے اندر بھوسا بھر دیا گیا ہے۔
اس تناظر میں پورا معاشرہ بدعنوانی جیسے جرائم میں مبتلا نظر آرہا ہے اور جو گنے چنے شرفاء ہیں وہ بھی اپنی بقاء کے لیے کرپشن اور مجبوری کا عنوان بنے ہوئے ہیں ۔ ہم اپنی کوتائیوں اور لاپروائیوں کی سزا مثبت معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں بھگت رہے ہیں اور ایک دوسرے سے معاشرے کی برائیوں کا ذکر کرکے ہم یہ نہیں سوچتے کہ معاشرہ میں خود ہمارا اپنا کردار کیا ہے ؟ خود احتسابی کا عمل ایک ایسا آسان طریقہ ہے جس پر عمل کرکے ہم ایک مثبت معاشرے کی تشکیل کرسکتے ہیں۔
معاشرہ فرد سے وابستہ ہے نہ کہ فرد معاشرہ سے ۔ ہم سب مل کر معاشرہ کہلاتے ہیں۔ ہم اچھے ہوں گے تو معاشرہ اچھا ہوگا ، معاشرہ بہتر ہوگا تو ہمارا ملک بھی اچھا کہلائے گا یعنی خوشحال ہوگا لیکن اس خوشحالی کے لیے دیانت داری اولین تقاضا ہے اور دیانت داری ڈنڈے کے زور پر نہیں بلکہ خود احتسابی کے عمل سے فروغ پاتی ہے ۔ آئیے ! ہم سب خود احتسابی کا عمل اپناتے ہیں ۔