قلعہ بلتیت وادی ہنزہ کا تاریخی شاہکار

شاندار التیت قلعہ ہنزہ کے میروں (شاہی خاندان) نے تعمیر کروایا تھا۔

ابتدائی دنوں میں یہ قلعہ بستی کی آبادی اور تاجروں سے گھرا ہوا تھا جو پوری دنیا سے اپنے ساتھ مال لاتے تھے۔ فوٹو؛ فائل

دنیا کے سب سے بڑے میٹرو پولیٹن شہروں میں سے رہتے ہوئے پاکستانیوں کو پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا دیہی طرزِ زندگی اور ان کی جغرافیائی خصوصیات حیرت زدہ کرتی ہیں۔مقامی لوگ اپنی ثقافتی اقدار اور اپنی تاریخ کے ساتھ جو مضبوط تعلق بنائے ہوئے ہیں، وہ بات شہروں میں کہاں! اس حیران کن چیز کو قریب سے محسوس کرنے کیلئے جنت کی وادی... ہنزہ کا سفر کیجیے۔

وادی ہنزہ کے اصل باشندے بروشو کہلاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ سکندر اعظم کے لشکر میں شامل یونانی فوجیوں کی اولادیں ہیں۔ یہی خیال پاکستان اور افغانستان کے پختونوں کے لیے بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔التیت وادی کا ایک قدیم گاؤں اور اپنے قلعے کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے۔یہ گلگت بلستان میں قدیم ترین قلعہ ہے۔التیت کے قدیم لوگوں کے بارے میں خیال ہے کہ ان کا تعلق سلطنت فارس کے قدیم ترقی پذیر اور زراعت سے وابستہ ترک قبیلے 'ہن' سے ہے۔کہتے ہیں اس بستیکا پرانا نام ہنوکشال تھا جس کا مطلب ہنوں کا گاؤں ہے۔

شاندار التیت قلعہ ہنزہ کے میروں (شاہی خاندان) نے تعمیر کروایا تھا تاکہ جڑواں ریاست، نگر کے میروں کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر سکیں۔ یہ قلعہ گیارہویں صدی سے اب تک قراقرم کے آگے آب و تاب سے کھڑا ہے۔یہ قلعہ نہ صرف کئی حملہ آوروں کے حملوں میں ثابت قدم رہا بلکہ تعمیر کے بعد آنے والے زلزلوں میں بھی اپنا وجود باقی رکھتا آیا ہے۔یہ امر اسے اپنے دور کی حیرت انگیز اور فن تعمیر کی شاہکار تعمیرات میں سے ایک بناتا ہے۔

ایک اونچی پہاڑی پر بنی اس عظیم الجثہ عمارت کے فن تعمیر کے شاہکار اور اس کو مکمل کرنے میں لگی محنت اور جفاکشی دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ اس دور کی ٹیکنالوجی ذہن میں رکھتے ہوئے اس جوکھم بھرے کام کو گیارہویں صدی میں مکمل کرنے کا تصور کرنا بھی سوچ سے باہر ہے۔اعلیٰ درجے کی انجینئرنگ کا ثبوت پیش کرتی اپنے دور کی اس مضبوط قلعہ بند عمارت کو ہنزہ شہر کی جائے پیدائش اور دارالخلافہ سمجھا جاتا ہے۔




یہ منفرد عمارت دریائے ہنزہ سے ایک ہزار فٹ کی بلندی پر ہے۔ اس کا واحد برج ''شکاری برج'' کہلاتا ہے، جسے خصوصاً دورانِ جنگ پورے علاقے کی نگرانی کرنے کیلئے تعمیر کروایا گیا تھا۔ وادی کو ہمیشہ سے کائیون رس (روس) اور چین کی فوجوں کی جانب سے حملوں کا خطرہ رہتا تھا۔دروازے جان بوجھ کر صرف پانچ فٹ اونچے بنائے گئے تھے تاکہ حملہ آور فوجیوں کو جھک کر اندر داخل ہونا پڑے، تاکہ دفاعی سپاہی آسانی سے ان کا سر قلم کر سکیں۔

ٹاور کے اوپر کھڑے ہو کر مجھے احساس ہوا کہ اس کی پوزیشن کتنی اہمیت کی حامل تھی۔ اتنی اونچائی سے ارد گرد میں موجود تمام پہاڑوں، چشموں، جنگلوں اور نہروں کی آسانی سے نگرانی کی جاسکتی تھی۔اس طرح التیت بستی کو اپنے دفاع کیلئے مناسب تیاری کا وقت مل سکتا تھا۔ مقامی باشندے بتاتے ہیںکہ ٹاور کا استعمال صرف نگرانی کیلئے ہی نہیں ہوتا تھا بلکہ سزائے موت کے قیدیوں کو وہاں سے پھینکنے کیلئے بھی استعمال میں آتا۔

یہ قلعہ تعمیر کے چار سو سال بعد متنازع ہوگیا۔ 1540 ء کی دہائی کے آخر میں ہنزہ کے شاہی خاندان کے دو بھائیوں پرنس شاہ عباس عرف شابوس اور پرنس علی خان میں جنم لینے والے تنازع کے نتیجے میں ''بلتیت قلعہ'' تعمیر کیا گیا جو جلد ہنزہ کا نیا دارالخلافہ قرار پایا۔چھوٹے بھائی پرنس علی خان نے التیت قلعے کو اپنے بڑے بھائی کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کیا۔ کہا جاتا ہے کہ شابوس نے علی کو برج کے اندر موجود ستون کے آگے زندہ دفنا دیا تھا۔

1891 ء میں برطانوی فوج ہندوستان میں روس کے کسی بھی قسم کے سیاسی دخل کو ختم کرنے کے لیے التیت کی گلیوں تک بھی آ پہنچی۔ برطانیہ کے قبضے کے اصول کے تحت ہنزہ کی باگ ڈور سابق چیف کے سوتیلے بھائی کے ہاتھوں میں ہی رہی جس پر انگریزوں کو اعتماد تھا۔تقسیم ہند کے بعد بھی ہنزہ ایک شاہی ریاست تھی لیکن یہ سلسلہ صرف 1972 ء تک چلا۔اس کے بعد سماجی اور سیاسی اصلاحات نے شاہی خاندان سے اختیارات واپس لے لیے۔ التیت قلعہ بعد میں آغا خان فاؤنڈیشن کو بطور تحفہ دے دیا گیا۔ ان کے ثقافتی محکمے نے قلعے کی بحالی کے لیے قابل تعریف کام کیا جو 2007 ء سے میوزیم کے طور پر کام کر رہا ہے۔

ابتدائی دنوں میں یہ قلعہ بستی کی آبادی اور تاجروں سے گھرا ہوا تھا جو پوری دنیا سے اپنے ساتھ مال لاتے تھے اور قدیم شاہراہ ریشم کے روٹ کو استعمال کرتے ہوئے چین سے یہاں سے داخل ہوا کرتے ۔ جلد ہی یہ خطے کا ثقافتی مرکز بن گیا۔التت قلعے کے شکاری مینار پر چڑھ کر نیچے دیکھنے اور قلعے کے اندر داخل ہو کر گھومتے قدیم طرزِ زندگی کے آثار اب بھی نظر آتے ہیں۔

قلعے میں شاہی خاندان کے استعمال شدہ برتنوں کو بطور نمائش رکھا گیا ہے۔دروازوں، کھڑکیوں اور سیڑھیوں پر بڑی مہارت کے ساتھ لکڑی کا کام کر کے بالکل اسی حالت میں بحال کیا گیا ہے۔ لکڑی کے دیدہ زیب کام کی باقیات اب بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ خاموشی سے اپنی آپ بیتی سنا رہی ہوں۔
Load Next Story