مجوزہ کاغذات نامزدگی پر الیکشن کمیشن اور حکومت میں اختلافات

سابق وزیرخزانہ ڈاکٹرحفیظ شیخ نگران حکومت کے لئے حکومت اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے متفقہ امیدوار ہوسکتے ہیں۔

سابق وزیرخزانہ ڈاکٹرحفیظ شیخ نگران حکومت کے لئے حکومت اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے متفقہ امیدوار ہوسکتے ہیں۔ فوٹو :اے ایف پی/فائل

پاکستان اور ایران کی قیادت کی طرف سے شدید امریکی مخالفت اور سفارتی دبائو کو پس پشت ڈال کر ساڑھے7ارب ڈالر مالیت کے میگا منصوبہ پاک ایران گیس پائپ لائن پر دستخط کئے جانے کو ایک اہم پیش رفت قراردیاجارہا ہے۔

ایک عرصے سے امریکی حکام اس اہم منصوبے کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کررہے ہیں اور یہ منصوبہ ختم کرانے کے لئے امریکی حکومت کئی بار پاکستان کوا قتصادی پابندیوں سمیت دیگر دھمکیاں بھی دے چکی ہے ۔ امریکی دبائو اور مخالفت کو یکسرمسترد کرتے ہوئے اس اہم معاہدے پر دستخط کرنے کے اقدام کو غیر جانبدار مبصرین ایک دلیرانہ اقدام کہہ رہے ہیں۔ صدر مملکت آصف علی زرداری نے ایک بڑے حکومتی وفد کے ہمراہ ایران جا کر پاک ایران گیس پائپ لائن کا ایرانی صدر احمدی نژاد کے ساتھ سنگ بنیاد رکھ دیا ہے۔

دفاعی اور سفارتی امور کے ماہرین کے خیال میں اس اہم معاہدے کے سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد امریکا دیگر ممالک کے ساتھ مل کر پاکستان پر سفارتی دبائو بڑھائے گا اور پاکستان سے کہا جائے گا کہ یہ منصوبہ ختم کیاجائے۔ انٹرنیشنل فنڈنگ کے راستے میں امریکا رکاوٹیں پیدا کرسکتا ہے۔ ایران اور پاکستان کی قیادت نے یہ عزم دہرایا ہے کہ اس منصوبے کو کامیابی سے مکمل کیاجائے گا۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کو ''امن پائپ لائن '' کا نام دیا گیا ہے۔ منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب کو دونوں ممالک کی قیادت نے ایک اہم سنگ میل اور تاریخی تقریب قرار دیتے ہوئے یہ عزم ظاہر کیا ہے کہ پائپ لائن منصوبہ دونوں ممالک کو قریب تر لانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔

صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ دنیا کا امن پاکستان کے امن کے ساتھ منسلک ہے۔ ایرانی صدر نے کہاکہ عالمی دبائو کے باوجود گیس منصوبے کو مکمل کریں گے۔ پاکستان گزشتہ چند سالوں سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے، توانائی کے بحران کی وجہ سے اقتصادی ترقی کا پہیہ جام ہوچکا ہے۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل سے پاکستان میں بڑی حد تک توانائی کا بحران حل ہوجائے گا۔

بھارت اگر ایران کے ساتھ اقتصادی تعلقات بہتر بنائے اور تعاون کرے تو یہ اقدام امریکی حکام کی آنکھوں میں نہیں کھٹکتا ،اگر پاکستان اپنی اقتصادی ضروریات اور بڑھتے ہوئے اقتصادی اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کی غرض سے ایران کے ساتھ معاہدہ کیا تو امریکا نے اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کی دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں ۔ اربوں ڈالر مالیت کے حامل اس امن پائپ لائن منصوبے کا سنگ بنیاد رکھے جانے کے بعد اہم ترین سوال یہ ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کیا اس منصوبے پر عملدرآمد کرسکے گی؟کیا امریکی دبائو اور مخالفت کا سامنا کرپائے گی ؟ یہ آنے والی حکومت کیلئے ایک اہم چیلنج ہوگا۔

نگران وزیراعظم کے ناموں پر اپوزیشن اور حکومتی جماعتوں کے درمیان تقریباً مشاورت مکمل ہوگئی ہے، ان سطور کی اشاعت تک قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان اپوزیشن کی طرف سے نگران وزیراعظم کیلئے متفقہ نام خط کے ذریعے وزیراعظم راجہ پرویزاشرف تک پہنچاچکے ہوں گے۔ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے نگران وزیراعظم کیلئے تجویز کردہ ناموں پر تحریک انصاف نے مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے، دونوں حریف جماعتوں کے درمیان نگران وزیراعظم کے لئے مجوزہ ناموں پر اتفاق رائے اچھی بات ہے ۔ اپوزیشن کی طرف سے تجویز کردہ نگران وزیراعظم کے امیدواروں میں سے کسی کا تعلق پنجاب سے نہیں ہے۔


حکمران جماعت پیپلزپارٹی کے ابتدائی ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) کے تجویز کردہ ناموں پر اتفاق رائے کے امکانات کم نظر آرہے ہیں۔ باخبر سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان نگران وزیراعظم کے ناموں پر اتفاق رائے نہیں ہوسکتا۔ نگران وزیراعظم کی نامزدگی کا فیصلہ کرنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا کام شروع کردیاگیا ہے۔ قومی اسمبلی کی تحلیل میں محض 3 دن رہ گئے ہیں۔ نگران وزیراعظم کی تعیناتی تک راجہ پرویزاشرف وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہیں گے۔ وزیراعظم راجہ پرویزاشرف اتحادی جماعتوں کے ساتھ نگران وزیراعظم کیلئے مجوزہ ناموں پر مشاورت مکمل کرچکے ہیں۔

سابق وزیرخزانہ ڈاکٹرحفیظ شیخ نگران حکومت کے لئے حکومت اور اتحادی جماعتوں کی طرف سے متفقہ امیدوار ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ وزارت سے مستعفی ہونے کے بعد وفاقی دارالحکومت میں اہم شخصیات سے ملاقاتیں کررہے ہیں، ڈاکٹرحفیظ شیخ کو عسکری قیادت کا مکمل تعاون اور حمایت حاصل ہے۔ ان کے قریبی ذرائع یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ حکومت اوراپوزیشن کے درمیان ڈاکٹرحفیظ شیخ کے نام پر اتفاق رائے ہوجائے گا ، تاہم اگرزمینی حقائق کا جائزہ لیاجائے تو قائدحزب اختلاف چوہدری نثارعلی خان سمیت اپوزیشن جماعتوں کے متعدد سیاستدان سابق وزیرخزانہ کے نام پر متفق نہیں ہوں گے۔

چوہدری نثارعلی خان تو حفیظ شیخ کے نام پر پہلے ہی شدید تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں، اپوزیشن کے قائدین بطور وزیرخزانہ ان کی مایوس کن کارکردگی پر پہلے ہی سخت نالاں ہیں۔ آئندہ ایک ہفتہ کے دوران یہ بات سامنے آجائے گی کہ نگراں وزیراعظم کیلئے کس کا قرعہ نکلتا ہے، یہ آئندہ انتخابات میں ٹیکس چوروں، کرپشن میں ملوث اور دیگر جرائم میں ملوث سیاستدانوں کو حصہ لینے سے روکنے کے لئے الیکشن کمیشن کی طرف سے ترمیم شدہ کاغذات نامزدگی کے معاملہ پر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک ختم نہیں ہوسکا۔

وزیرقانون فاروق ایچ نائیک نے کہا ہے کہ کاغذات نامزدگی میں ترامیم کا اختیار صدرمملکت کے پاس ہے۔ کاغذات نامزدگی سے متعلق ہمارے اعتراضات حرف آخر نہیں ہیں۔ حکومت اورالیکشن کمیشن کے حکام کے درمیان نئے مجوزہ کاغذات نامزدگی کے معاملے پر اختلافات دور نہیں ہوسکے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے حکام نے ترمیم شدہ نئے کاغذات نامزدگی کی چھپائی کے احکامات دے دیئے ہیں اور کہاہے کہ صدر کی منظوری محض ایک رسمی کارروائی ہے۔ نئے کاغذات نامزدگی کی منظوری سے بہت سارے سیاستدان زد میں آسکتے ہیں۔ موجودہ ارکان پارلیمنٹ کے درمیان اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔

وہ تمام سیاستدان جو ٹیکس نادہندگان ہیں سرکاری عہدوں کے غلط استعمال اور مبینہ طور پر کرپشن میں ملوث ہیں ایسے سیاستدان آئندہ الیکشن سے آئوٹ ہوسکتے ہیں۔ وزیرقانون و انصاف فاروق ایچ نائیک الیکشن کمیشن اور حکومت کے درمیان اس ڈیڈ لاک کو ختم کرانے کے لئے سرگرم عمل ہیں۔ فاروق نائیک پہلے بھی بہت سارے معاملات میں مصالحت کرانے میں کلیدی کردارادا کرچکے ہیں۔

قومی اسمبلی کی تحلیل سے محض چند روز قبل حکومت ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو ایوان سے منظور کرانے کی حکمت عملی بھی ترتیب دے دی ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے اس ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے راستے میں حائل ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے آخری ایام میں یہ بل منظور کرانے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔
Load Next Story