ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح
امریکا کے شدیدترین دباو کے باوجود صدر آصف علی زرداری نے پاکستانی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس منصوبے پر عمل درآمد۔۔۔
صدر آصف علی زرداری اور ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن کے دوسرے فیز کا افتتاح کردیا ہے اور دونوں سربراہان مملکت نے ایران کے سرحدی علاقے چابہار میں گبد کے مقام پر خصوصی تقریب میں اس منصوبے کی نقاب کشائی کی۔
راقم بھی دیگر صحافیوں کے ہمراہ اس تاریخی موقع پر موجود تھا۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان کو ایران کے جنوب میں واقع پارس گیس فیلڈ سے 56 انچ کی پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کی جائے گی اور جنوری 2015 تک ایران سے گیس کی باقاعدہ سپلائی شروع ہوجائے گی جس کی تعمیر کا کنٹریکٹ ایک ایرانی کمپنی کو دیا گیا ہے۔ یہ کمپنی پاکستان کی حدود میں نواب شاہ تک 781 کلو میٹر لائن بچھائے گی ۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے 1994ء میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا خواب دیکھا اور اب ان کے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے صدر آصف علی زرداری نے پاک ایران سرحد کے ساتھ اس منصوبے کی تعمیر کا آغاز کیاہے۔
امریکا کے شدیدترین دباو کے باوجود صدر آصف علی زرداری نے پاکستانی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ کئی حکومتوں نے اس منصوبے پر مذاکرات کئے مگر اس کا کوئی حل نہ نکل سکا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال بڑی نیچی پرواز سے بظاہر یہ تاثر دیا کہ وہ پر و امریکا اور پرو اسٹیبلشمنٹ پارٹی بن گئی ہے۔ صدر زرادری ا س دوران اپنا ورک کرتے رہے اور بطور صدر جتنے دورے انہوں نے چین کے کئے پاکستان کے کسی صدر نے نہیں کئے، صدرپانچ سال کے دوران آٹھ بار ایران بھی گئے، پھر اچانک جس طر ح ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام اور بے نظیر بھٹو نے میزائل ٹیکنالوجی دی ، اس طرح صدر زردار ی نے بھی امریکی دباؤ مسترد کرتے ہوئے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔
گوادر پورٹ سے چین کو بحیرہ عرب تک رسائی مل جائے گی اور اس سے چین بحیرہ عرب میں بھی اہم ملک بن جائے گا، گوادر پورٹ چین کی بڑی خواہش تھی، سابق صدر پرویز مشرف نے گوادر پورٹ کو سنگا پور کے حوالے کردیا تھا۔ سینئر صحافیوں سے ایک ملاقات کے دوران صدر زرداری سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنی حکومت کے آخری ماہ ہی کیوں اتنے بڑے فیصلے کئے جس پر صدر کا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ کا معاملہ عدالت میں تھا اب عدالتی فیصلے کے بعد گوادر پورٹ چین کے حوالے کردیا گیا ہے۔ گوادر کی بڑی سٹریٹجک اہمیت ہے اور یہ بحیرۂ عرب میں گہرے پانی کی بہترین بندر گاہ ہے اور یہ پورٹ کئی خلیجی ممالک سے بہتر پرفارم کرسکتی ہے اور گوادر کو دبئی کی طرز پر مستقبل کا بڑا تجارتی مرکز بھی قرار دیا جارہا ہے۔
صدر زرداری نے گوادر پورٹ اور پاک ایران گیس پائپ لائن کے اہم فیصلے کرکے پیپلز پارٹی کی تاریخ بنائی ہے اور پاکستان کے عوام میں اپنی حب الوطنی ثابت کی ہے، یہ دونوں منصوبے آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے انتخابی سلوگن ہوںگے اور الیکشن پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ دونوں منصوبے علاقائی سطح پر تعاون میں بڑی پیش رفت ہیں۔ اس سے روزانہ 750 ملین کیوبک فٹ گیس پاکستان کو ملے گی اور یہ اس وقت پاکستان میں گیس کی مجموعی پیداوار کا 25 فیصد بنتا ہے اس سے پاکستان کو سالانہ تیل کی درآمد میں 2ارب چالیس کروڑ ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے لئے بہت کچھ لے کر آرہا ہے، اس سے پاکستان کو امریکی دباؤ سے نکلنے کا راستہ ملے گا، پاکستان میں سرمایہ کاری بھی آئے گی اور انڈسٹری پاؤں پر کھڑی ہوگی، پاکستان کو اشیاء کے بدلے ایران سے سستا تیل اور بجلی بھی مل سکے گی۔
اور بحیرۂ عرب میں انڈیا کا اثرو رسوخ بھی کم ہوگا۔ انڈیا بھی اس منصوبے میں شامل تھا تاہم 2009ء میں انڈیا اس پراجیکٹ سے الگ ہوگیا اور امریکا کے ساتھ سول نیوکلیئر منصوبے کا معاہدہ کرلیا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر ایک اہم پیش رفت ہے اس سے پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میںمدد ملے گی۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے عالمی سطح پر دباؤ اور امریکی دھمکیوں کے ذریعے بھی پاکستان کو ڈرانے کی کوشش کی گئی، امریکا نے پاکستان کو اس منصوبے کی تکمیل کے نتیجے میں پابندیوں کی کھلی دھمکی دے دی تھی مگرپیپلزپارٹی کی حکومت نے عالمی سطح پر دباؤ برداشت کیا اور امریکا کو بھی سفارتی ذرائع سے واضح کردیا کہ یہ منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے اور اس پر کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا ۔
اس منصوبے کے بعد گوادر پورٹ پر ایران کے تعاون سے پاکستان کی سب سے بڑی آئیل ریفائنری بھی تعمیر کی جائے گی۔ ایران پاک گیس منصوبہ پاکستان میں تعمیر وترقی کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔ صدر زرداری حیران کردینے والے فیصلے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین کیا کچھ نہیں کہتے رہے لیکن وہ اپنی ترجیحات طے کرکے کام کرتے رہے۔ ایران پاک گیس پائپ لائن منصوبہ بھی ان کے ذہن میں موجود تھا، کچھ عرصہ پہلے تک کسی کو یقین نہیں تھا کہ اس پر عمل ہوگا لیکن صدر زرداری نے ایک بار پھر سب کو حیران کردیا، اس بار ان کے سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ امریکا اور بھارت بھی حیران رہ گئے۔ صدر زرداری نے ثابت کردیا کہ ان کے لیے پاکستان کا مفاد سب سے اہم ہے، اس راہ میں امریکا بھی سامنے آئے تو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے، پیپلز پارٹی کا ورثہ بھی یہی ہے۔
راقم بھی دیگر صحافیوں کے ہمراہ اس تاریخی موقع پر موجود تھا۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان کو ایران کے جنوب میں واقع پارس گیس فیلڈ سے 56 انچ کی پائپ لائن کے ذریعے گیس فراہم کی جائے گی اور جنوری 2015 تک ایران سے گیس کی باقاعدہ سپلائی شروع ہوجائے گی جس کی تعمیر کا کنٹریکٹ ایک ایرانی کمپنی کو دیا گیا ہے۔ یہ کمپنی پاکستان کی حدود میں نواب شاہ تک 781 کلو میٹر لائن بچھائے گی ۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے 1994ء میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کا خواب دیکھا اور اب ان کے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لئے صدر آصف علی زرداری نے پاک ایران سرحد کے ساتھ اس منصوبے کی تعمیر کا آغاز کیاہے۔
امریکا کے شدیدترین دباو کے باوجود صدر آصف علی زرداری نے پاکستانی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کردیا ہے۔ کئی حکومتوں نے اس منصوبے پر مذاکرات کئے مگر اس کا کوئی حل نہ نکل سکا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال بڑی نیچی پرواز سے بظاہر یہ تاثر دیا کہ وہ پر و امریکا اور پرو اسٹیبلشمنٹ پارٹی بن گئی ہے۔ صدر زرادری ا س دوران اپنا ورک کرتے رہے اور بطور صدر جتنے دورے انہوں نے چین کے کئے پاکستان کے کسی صدر نے نہیں کئے، صدرپانچ سال کے دوران آٹھ بار ایران بھی گئے، پھر اچانک جس طر ح ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام اور بے نظیر بھٹو نے میزائل ٹیکنالوجی دی ، اس طرح صدر زردار ی نے بھی امریکی دباؤ مسترد کرتے ہوئے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔
گوادر پورٹ سے چین کو بحیرہ عرب تک رسائی مل جائے گی اور اس سے چین بحیرہ عرب میں بھی اہم ملک بن جائے گا، گوادر پورٹ چین کی بڑی خواہش تھی، سابق صدر پرویز مشرف نے گوادر پورٹ کو سنگا پور کے حوالے کردیا تھا۔ سینئر صحافیوں سے ایک ملاقات کے دوران صدر زرداری سے پوچھا گیا کہ آپ نے اپنی حکومت کے آخری ماہ ہی کیوں اتنے بڑے فیصلے کئے جس پر صدر کا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ کا معاملہ عدالت میں تھا اب عدالتی فیصلے کے بعد گوادر پورٹ چین کے حوالے کردیا گیا ہے۔ گوادر کی بڑی سٹریٹجک اہمیت ہے اور یہ بحیرۂ عرب میں گہرے پانی کی بہترین بندر گاہ ہے اور یہ پورٹ کئی خلیجی ممالک سے بہتر پرفارم کرسکتی ہے اور گوادر کو دبئی کی طرز پر مستقبل کا بڑا تجارتی مرکز بھی قرار دیا جارہا ہے۔
صدر زرداری نے گوادر پورٹ اور پاک ایران گیس پائپ لائن کے اہم فیصلے کرکے پیپلز پارٹی کی تاریخ بنائی ہے اور پاکستان کے عوام میں اپنی حب الوطنی ثابت کی ہے، یہ دونوں منصوبے آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کے انتخابی سلوگن ہوںگے اور الیکشن پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ دونوں منصوبے علاقائی سطح پر تعاون میں بڑی پیش رفت ہیں۔ اس سے روزانہ 750 ملین کیوبک فٹ گیس پاکستان کو ملے گی اور یہ اس وقت پاکستان میں گیس کی مجموعی پیداوار کا 25 فیصد بنتا ہے اس سے پاکستان کو سالانہ تیل کی درآمد میں 2ارب چالیس کروڑ ڈالر کا فائدہ ہوگا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کے لئے بہت کچھ لے کر آرہا ہے، اس سے پاکستان کو امریکی دباؤ سے نکلنے کا راستہ ملے گا، پاکستان میں سرمایہ کاری بھی آئے گی اور انڈسٹری پاؤں پر کھڑی ہوگی، پاکستان کو اشیاء کے بدلے ایران سے سستا تیل اور بجلی بھی مل سکے گی۔
اور بحیرۂ عرب میں انڈیا کا اثرو رسوخ بھی کم ہوگا۔ انڈیا بھی اس منصوبے میں شامل تھا تاہم 2009ء میں انڈیا اس پراجیکٹ سے الگ ہوگیا اور امریکا کے ساتھ سول نیوکلیئر منصوبے کا معاہدہ کرلیا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر ایک اہم پیش رفت ہے اس سے پاکستان میں توانائی کے بحران پر قابو پانے میںمدد ملے گی۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے عالمی سطح پر دباؤ اور امریکی دھمکیوں کے ذریعے بھی پاکستان کو ڈرانے کی کوشش کی گئی، امریکا نے پاکستان کو اس منصوبے کی تکمیل کے نتیجے میں پابندیوں کی کھلی دھمکی دے دی تھی مگرپیپلزپارٹی کی حکومت نے عالمی سطح پر دباؤ برداشت کیا اور امریکا کو بھی سفارتی ذرائع سے واضح کردیا کہ یہ منصوبہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے انتہائی ضروری ہے اور اس پر کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا ۔
اس منصوبے کے بعد گوادر پورٹ پر ایران کے تعاون سے پاکستان کی سب سے بڑی آئیل ریفائنری بھی تعمیر کی جائے گی۔ ایران پاک گیس منصوبہ پاکستان میں تعمیر وترقی کے نئے دور کا آغاز ثابت ہوگا۔ صدر زرداری حیران کردینے والے فیصلے کرتے چلے آرہے ہیں۔ ان کے سیاسی مخالفین کیا کچھ نہیں کہتے رہے لیکن وہ اپنی ترجیحات طے کرکے کام کرتے رہے۔ ایران پاک گیس پائپ لائن منصوبہ بھی ان کے ذہن میں موجود تھا، کچھ عرصہ پہلے تک کسی کو یقین نہیں تھا کہ اس پر عمل ہوگا لیکن صدر زرداری نے ایک بار پھر سب کو حیران کردیا، اس بار ان کے سیاسی مخالفین ہی نہیں بلکہ امریکا اور بھارت بھی حیران رہ گئے۔ صدر زرداری نے ثابت کردیا کہ ان کے لیے پاکستان کا مفاد سب سے اہم ہے، اس راہ میں امریکا بھی سامنے آئے تو اس کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے، پیپلز پارٹی کا ورثہ بھی یہی ہے۔