نگران وزیراعظم…فیصلہ کہیں اور ہوگا
حزب اختلاف کی طرف سے ابھی تک جو نام سامنے آئے ہیں، ان کی ساکھ فخر الدین جی ابراہیم جیسی تو ہرگز نہیں۔
لاہور کا بادامی باغ میری زندگی کے پہلے 20 برسوں کے ساتھ بڑی شدت سے چپکا ہوا ہے۔ میں اس علاقے کو بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں اور وہاں کے مکینوں کی نفسیات سے بھی کافی واقف ہوں۔ آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے بچپن میں ریلوے کا لوہا چوری کرنے والے جانے پہچانے عادی جرائم پیشہ اپنا مالِ مسروقہ اسی علاقے کی کچھ دکانوں میں ٹھکانے لگایا کرتے تھے۔
لنڈی کوتل سے آنے والی چرس جب لاہور میں فروخت ہونا شروع ہوئی تو ابتدائی ناجائز فروشوں کا سب سے بڑا اڈا بھی یہی علاقہ ہوا کرتا تھا۔ اس تمام تر شناسائی کے باوجود میں وہاں مسیحی برادری کے سو سے زیادہ گھروں کو آگ لگانے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھوں گا۔ شاید آپ کو یہ بات اور زیادہ بری لگے اگر میں یہ اضافہ بھی کر دوں کہ جس ملک میں گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں ہی کے مختلف مسالک کو مسلمان نہ سمجھنے والے جب چاہیں کوئٹہ کے ہزارہ علاقوں اور کراچی کے عباس ٹائون کو بموں سے نشانہ بنا سکتے ہوں وہاں ان لوگوں کے تحفظ کا سوچا بھی نہیں جا سکتا جن کی اکثریت ہمارے گھروں کے گند صاف کرنے کی وجہ سے ابھی تک محض شودر سمجھی جاتی ہے۔
ویسے بھی سیاستدانوں وغیرہ کے بادامی باغ کے واقعے پر بیانات پڑھیں تو زیادہ پریشانی اس وجہ سے محسوس ہوتی نظر آ رہی ہے کہ ایک مشتعل ہجوم کی طرف سے اقلیتی آبادی کے گھروں کا اس طرح جلا یا جانا پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کا سبب بنا ہے۔ مولانا حضرات کے ایک گروہ کو ساتھ ساتھ فکر یہ بھی کھائے جا رہی ہے کہ ملک کے علاوہ اسلام کے بارے میں بھی اس واقعہ کے بعد دشمنوں کو اول فول بکنے کے بہانے مل جائیں گے۔
اصل غم و غصہ اس بات پر محسوس نہیں کیا جا رہا کہ لاہور جیسے شہر میں جو خادم اعلیٰ کی گڈ گورننس کی وجہ سے پاکستان کے دوسرے شہروں میں حسد و ستائش کے جذبات پیدا کر رہا ہے ایسا واقعہ کیوں ہوا ہے۔ شرمساری صرف ''غیر کیا کہیں گے'' سوچ سوچ کر محسوس ہو رہی ہے۔ تھوڑا بہت شور مچا کر بالآخر ہم چپ ہو جائیں گے۔ ویسے بھی خادم اعلیٰ ہوں یا اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے راجہ اب چند دنوں کی بات رہ گئے ہیں۔ پھر انتخابات کا میلہ لگے گا اور ہم اس کی رنگینیوں میں محو ہو جائیں گے۔
انتخابات کا ذکر آیا ہے تو مجھے یاد دلانے دیجیے کہ ان کے انعقاد کے لیے صرف الیکشن کمیشن ہی نہیں ایک عبوری وزیر اعظم کی بھی ضرورت ہے۔ ہماری پارلیمان میں بیٹھے سیاستدانوں نے آئین میں 20 ویں ترمیم ڈال کر ہمیں یقین دلایا تھا کہ اس ضمن میں ایک غیر جانبدار شخص کا تقرر بڑے قاعدے اور سلیقے سے ہو جائے گا اور بالآخر ایک ایسا شخص سامنے آئے گا جس کی شخصیت پر انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں ہی نہیں قوم کی اکثریت بھی تقریباََ اندھا اعتماد کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
متوقع وزیر اعظم کی تقرری کا پہلا مرحلہ آئین کی 20 ویں ترمیم میں یہ طے ہوا تھا کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد ایک خط کی صورت میں کچھ نام تجویز کریں گے۔ جواباََ وزیر اعظم کچھ نام دیں گے۔ جب وہ نام سامنے آئیں تو دونوں حضرات بیٹھ کر ایک نام پر مکمل اتفاق رائے کر لیں گے۔
راجہ پرویز اشرف اور چوہدری نثار علی خان اپنے تمام تر سیاسی تجربے کے باوجود یہ بنیادی مرحلہ طے کرنے میں ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی طرف سے ابھی تک جو نام سامنے آئے ہیں، ان کی ساکھ فخر الدین جی ابراہیم جیسی تو ہرگز نہیں۔ میرا یہ کالم لکھنے تک وزیر اعظم کی جانب سے مجوزہ نام سامنے نہیں آئے۔ مگر شنید ہے کہ شمس لاکھا کا نام سامنے آئے گا۔ ذکر ڈاکٹر ادیب کا بھی ہو رہا ہے اور سب سے زیادہ تذکرہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا۔
میرا یہ کالم باقاعدگی سے پڑھنے والوں کو یاد ہو گا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے عبوری حکومت کا وزیر اعظم بن جانے کے امکانات کا ذکر سب سے پہلے اسی کالم میں ہوا تھا۔ اب مجھے یہ بات بھی کہہ لینے دیجیے کہ ان صاحب کا ذکر میں نے ایک ایسی شخصیت سے پہلی بار سنا تھا جنھیں پاکستان کے چند با خبر اور طاقتور ترین افراد میں سے ایک سمجھا جانا چاہیے۔ اس شخصیت نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کا نام لیتے ہوئے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ ان صاحب کی اصل پشت پناہی پاکستان کی کوئی سیاسی شخصیت یا جماعت نہیں بلکہ واشنگٹن میں بیٹھے وہ لوگ فرما رہے ہیں جو پاکستان کے معاشی معاملات پر نگاہ ہی نہیں رکھتے بلکہ اسے بنانے اور بگاڑنے میں کلیدی کردار بھی ادا کیا کرتے ہیں۔
ان صاحب کا نام لیتے ہوئے میرے مہربان نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا تھا کہ حفیظ شیخ کو عبوری وزیر اعظم اس خدشے کے تحت بنایا جائے گا کہ اگر کسی وجہ سے آیندہ انتخابات وقت پر نہ ہو پائیں تو انتخابات کرانے کے نام پر بنی حکومت کو طویل مدت کے لیے کام کرنا ہو گا اور واشنگٹن میں بیٹھے لوگ سمجھتے ہیں کہ طویل المدتی عبوری حکومت کو پاکستان کی معیشت کو چالو کرنے کے بعد بہتر بنانے کے لیے وہ ٹھوس فیصلے بھی کرنا ہوں گے جن کے بارے میں ووٹوں کے محتاج سیاستدانوں کو سوچتے ہوئے بھی پسینہ آ جاتا ہے۔ میری ٹھوس معلومات کے مطابق پیپلز پارٹی حفیظ شیخ کے ''طویل المدتی امکانات'' کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا نام تجویز کرنے سے گھبراتی رہی ہے۔ ورلڈ بینک وغیرہ کی تسلی کے لیے اب عشرت حسین ان کے پسندیدہ بن رہے ہیں۔
مگر ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ان کے دوست مطمئن ہیں۔وہ طے کیے بیٹھے ہیں کہ خواہ کچھ ہو جائے بالآخر لاٹری حفیظ شیخ ہی کی نکلے گی۔ ان کا اعتماد کتنا درست ثابت ہو گا؟ یہ جاننے کے لیے چند دن انتظار کرنا ہو گا۔ مگر کیا یہ اعتماد اس بات کو واضح طور پر عیاں نہیں کر دیتا کہ جمہوریت۔ جمہوریت کے تمام تر شور و غوغا کے باوجود پاکستان میں کلیدی فیصلے کرنے کی قوت اب بھی ہمارے سیاستدانوں کے ہاتھ نہیں آئی ہے۔ یہ سوال کرنے کے بعد میں اپنے سیاستدانوں کی بے بسی پر ہرگز کوئی نوحہ نہیں پڑھوں گا۔ جب چوہدری نثار اور راجہ پرویز اشرف آئین میں قطعیت سے فراہم کردہ راستے پر چل کر کسی منزل پر نہ پہنچ پائیں تو دوسرے اپنا کھیل تو کھلیں گے۔ آپ ان کو کس منہ سے روک سکیں گے۔
لنڈی کوتل سے آنے والی چرس جب لاہور میں فروخت ہونا شروع ہوئی تو ابتدائی ناجائز فروشوں کا سب سے بڑا اڈا بھی یہی علاقہ ہوا کرتا تھا۔ اس تمام تر شناسائی کے باوجود میں وہاں مسیحی برادری کے سو سے زیادہ گھروں کو آگ لگانے کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں لکھوں گا۔ شاید آپ کو یہ بات اور زیادہ بری لگے اگر میں یہ اضافہ بھی کر دوں کہ جس ملک میں گزشتہ کئی سالوں سے مسلمانوں ہی کے مختلف مسالک کو مسلمان نہ سمجھنے والے جب چاہیں کوئٹہ کے ہزارہ علاقوں اور کراچی کے عباس ٹائون کو بموں سے نشانہ بنا سکتے ہوں وہاں ان لوگوں کے تحفظ کا سوچا بھی نہیں جا سکتا جن کی اکثریت ہمارے گھروں کے گند صاف کرنے کی وجہ سے ابھی تک محض شودر سمجھی جاتی ہے۔
ویسے بھی سیاستدانوں وغیرہ کے بادامی باغ کے واقعے پر بیانات پڑھیں تو زیادہ پریشانی اس وجہ سے محسوس ہوتی نظر آ رہی ہے کہ ایک مشتعل ہجوم کی طرف سے اقلیتی آبادی کے گھروں کا اس طرح جلا یا جانا پاکستان کو دنیا بھر میں بدنام کرنے کا سبب بنا ہے۔ مولانا حضرات کے ایک گروہ کو ساتھ ساتھ فکر یہ بھی کھائے جا رہی ہے کہ ملک کے علاوہ اسلام کے بارے میں بھی اس واقعہ کے بعد دشمنوں کو اول فول بکنے کے بہانے مل جائیں گے۔
اصل غم و غصہ اس بات پر محسوس نہیں کیا جا رہا کہ لاہور جیسے شہر میں جو خادم اعلیٰ کی گڈ گورننس کی وجہ سے پاکستان کے دوسرے شہروں میں حسد و ستائش کے جذبات پیدا کر رہا ہے ایسا واقعہ کیوں ہوا ہے۔ شرمساری صرف ''غیر کیا کہیں گے'' سوچ سوچ کر محسوس ہو رہی ہے۔ تھوڑا بہت شور مچا کر بالآخر ہم چپ ہو جائیں گے۔ ویسے بھی خادم اعلیٰ ہوں یا اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے راجہ اب چند دنوں کی بات رہ گئے ہیں۔ پھر انتخابات کا میلہ لگے گا اور ہم اس کی رنگینیوں میں محو ہو جائیں گے۔
انتخابات کا ذکر آیا ہے تو مجھے یاد دلانے دیجیے کہ ان کے انعقاد کے لیے صرف الیکشن کمیشن ہی نہیں ایک عبوری وزیر اعظم کی بھی ضرورت ہے۔ ہماری پارلیمان میں بیٹھے سیاستدانوں نے آئین میں 20 ویں ترمیم ڈال کر ہمیں یقین دلایا تھا کہ اس ضمن میں ایک غیر جانبدار شخص کا تقرر بڑے قاعدے اور سلیقے سے ہو جائے گا اور بالآخر ایک ایسا شخص سامنے آئے گا جس کی شخصیت پر انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں ہی نہیں قوم کی اکثریت بھی تقریباََ اندھا اعتماد کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
متوقع وزیر اعظم کی تقرری کا پہلا مرحلہ آئین کی 20 ویں ترمیم میں یہ طے ہوا تھا کہ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد ایک خط کی صورت میں کچھ نام تجویز کریں گے۔ جواباََ وزیر اعظم کچھ نام دیں گے۔ جب وہ نام سامنے آئیں تو دونوں حضرات بیٹھ کر ایک نام پر مکمل اتفاق رائے کر لیں گے۔
راجہ پرویز اشرف اور چوہدری نثار علی خان اپنے تمام تر سیاسی تجربے کے باوجود یہ بنیادی مرحلہ طے کرنے میں ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ حزب اختلاف کی طرف سے ابھی تک جو نام سامنے آئے ہیں، ان کی ساکھ فخر الدین جی ابراہیم جیسی تو ہرگز نہیں۔ میرا یہ کالم لکھنے تک وزیر اعظم کی جانب سے مجوزہ نام سامنے نہیں آئے۔ مگر شنید ہے کہ شمس لاکھا کا نام سامنے آئے گا۔ ذکر ڈاکٹر ادیب کا بھی ہو رہا ہے اور سب سے زیادہ تذکرہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کا۔
میرا یہ کالم باقاعدگی سے پڑھنے والوں کو یاد ہو گا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے عبوری حکومت کا وزیر اعظم بن جانے کے امکانات کا ذکر سب سے پہلے اسی کالم میں ہوا تھا۔ اب مجھے یہ بات بھی کہہ لینے دیجیے کہ ان صاحب کا ذکر میں نے ایک ایسی شخصیت سے پہلی بار سنا تھا جنھیں پاکستان کے چند با خبر اور طاقتور ترین افراد میں سے ایک سمجھا جانا چاہیے۔ اس شخصیت نے ڈاکٹر حفیظ شیخ کا نام لیتے ہوئے یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ ان صاحب کی اصل پشت پناہی پاکستان کی کوئی سیاسی شخصیت یا جماعت نہیں بلکہ واشنگٹن میں بیٹھے وہ لوگ فرما رہے ہیں جو پاکستان کے معاشی معاملات پر نگاہ ہی نہیں رکھتے بلکہ اسے بنانے اور بگاڑنے میں کلیدی کردار بھی ادا کیا کرتے ہیں۔
ان صاحب کا نام لیتے ہوئے میرے مہربان نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بھی کہہ دیا تھا کہ حفیظ شیخ کو عبوری وزیر اعظم اس خدشے کے تحت بنایا جائے گا کہ اگر کسی وجہ سے آیندہ انتخابات وقت پر نہ ہو پائیں تو انتخابات کرانے کے نام پر بنی حکومت کو طویل مدت کے لیے کام کرنا ہو گا اور واشنگٹن میں بیٹھے لوگ سمجھتے ہیں کہ طویل المدتی عبوری حکومت کو پاکستان کی معیشت کو چالو کرنے کے بعد بہتر بنانے کے لیے وہ ٹھوس فیصلے بھی کرنا ہوں گے جن کے بارے میں ووٹوں کے محتاج سیاستدانوں کو سوچتے ہوئے بھی پسینہ آ جاتا ہے۔ میری ٹھوس معلومات کے مطابق پیپلز پارٹی حفیظ شیخ کے ''طویل المدتی امکانات'' کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کا نام تجویز کرنے سے گھبراتی رہی ہے۔ ورلڈ بینک وغیرہ کی تسلی کے لیے اب عشرت حسین ان کے پسندیدہ بن رہے ہیں۔
مگر ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ان کے دوست مطمئن ہیں۔وہ طے کیے بیٹھے ہیں کہ خواہ کچھ ہو جائے بالآخر لاٹری حفیظ شیخ ہی کی نکلے گی۔ ان کا اعتماد کتنا درست ثابت ہو گا؟ یہ جاننے کے لیے چند دن انتظار کرنا ہو گا۔ مگر کیا یہ اعتماد اس بات کو واضح طور پر عیاں نہیں کر دیتا کہ جمہوریت۔ جمہوریت کے تمام تر شور و غوغا کے باوجود پاکستان میں کلیدی فیصلے کرنے کی قوت اب بھی ہمارے سیاستدانوں کے ہاتھ نہیں آئی ہے۔ یہ سوال کرنے کے بعد میں اپنے سیاستدانوں کی بے بسی پر ہرگز کوئی نوحہ نہیں پڑھوں گا۔ جب چوہدری نثار اور راجہ پرویز اشرف آئین میں قطعیت سے فراہم کردہ راستے پر چل کر کسی منزل پر نہ پہنچ پائیں تو دوسرے اپنا کھیل تو کھلیں گے۔ آپ ان کو کس منہ سے روک سکیں گے۔